کیا آپ کو یہ پڑھایا جاتا تھا؟
قلم پسند اور ناپسند کی زنجیروں میں جکڑے گئے ہیں۔ اپنوں اور دوسروں کے لیے معیار علیحدہ علیحدہ مقرّر کردیے گئے ہیں۔ دوسروں کے لیڈر کی جس بات پر ہم انتہائی شدّت سے اُس پر تنقید اور گالیوں کی آگ برساتے ہیں، وہی کام اپنا پسندیدہ لیڈر کرے تو جذباتی ٹین ایجرز کی طرح اُتنی ہی شدّت سے اس کا دفاع کرتے ہیں۔ ہم اِس روّئیے پر نازاں ہیں مگر بالغ نظر قومیں اس طرزِعمل کو جذبات کا ہیجان اور شعور کا فقدان قرار دیتی ہیں۔
قوم کا نچلا اور اَن پڑھ طبقہ ہی نہیں، اپر کلاس اور پڑھا لکھا طبقہ بھی اس مرض میں مبتلا ہوچکا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ جسمانی طور پر نہ سہی مگر ذہنی طور پر قوم کا ہر فرد ٹین ایجر ہے، جو عقل اور شعور سے نہیں، جذبات سے سوچتا اور تعصّبات سے فیصلے کرتا ہے۔ اگر کوئی بانی پی ٹی آئی کے کردار یا طرزِ سیاست پر تنقید کرے تو اسے نون لیگی قرار دے دیا جاتا ہے اور اگر کوئی دردِ دل سے نون لیگی حکومت کے کسی ناپسندیدہ فیصلے سے اختلاف کرے تو اس پر پی ٹی آئی کے حامی ہونے کا لیبل لگادیا جاتا ہے۔ عوام کی بہت بڑی اکثریت اس حقیقت کو ماننے کے لیے ہی تیار نہیں کہ کوئی شخص پی ٹی آئی کا حامی ہوئے بغیر صرف ملک اور قوم کے مفاد کے لیے بھی حکومت پر تنقید کرسکتا ہے، اسی طرح جیالوں کا اس بات پر ایمان کی حد تک یقین ہے کہ اگر کوئی دانشور یا رائٹر بانی پی ٹی آئی کی ذات، اس کی کسی بات یا اس کے نظریات پر انگلی اُٹھاتا ہے تو وہ نون لیگ کے کہنے پر ایسا کررہا ہے۔
جیالے پیروکار اپنے لیڈروں کو ایسی پاکیزہ ہستیاں سمجھتے ہیں کہ جن پر کوئی شخص الٹیرئر موٹو کے بغیر تنقید کرنے کا سوچ ہی نہیں سکتا۔چند روز قبل اسلام آباد کے ڈی چوک کے قریب احتجاجی ہجوم میں ایک ایکس سروس مین میڈیا کے سامنے بڑے پرجوش انداز میں پوری قوم کو مخاطب کرتے ہوئے فرما رہے تھے کہ ’’پوری قوم کو چاہیے کہ وہ حقیقی آزادی کے لیے باہر نکلے، پورے ملک میں اگر کوئی واحد سچّا اور ایماندار لیڈر ہے تو وہ خان ہے، وہ صرف عوام کی آزادی کے لیے جیل کاٹ رہا ہے‘‘۔
وفاقی دارلحکومت میں مختلف سروسز کے ریٹائرڈ افسران اور کچھ دانشور اور رائٹر اکثر چائے پر اکٹھے ہوتے ہیں جہاں چائے کی پیالی میں طوفان برپا کرنے کے بجائے شائستگی اور دلیل کے ساتھ بات کی جاتی ہے اور مخالفانہ نقطۂ نظر کو فراخدلی اور حوصلے کے ساتھ سنا جاتا ہے۔ چند روز قبل اس محفل میں قوم کو آزادی کے لیے پکارنے والے صاحب بھی موجود تھے، جہاں ان کے ساتھ بڑا دلچسپ مکالمہ ہوا۔ ایک سابق سفیر نے بڑی شائستگی سے پوچھا ’’سر !آپ قوم کو آزادی کے لیے باہر نکلنے پر اکسارہے تھے۔
اس کی وضاحت تو فرمادیں کہ آپ کس سے آزادی چاہتے ہیں؟‘‘ ایکس سروس مین کا نام ہم کچھ دیر کے لیے آزادی خان رکھ لیتے ہیں، آزادی خان صاحب نے کہا ’’کیا آپ نہیں جانتے کہ ہمارا ملک آزادی سے فیصلہ نہیں کرسکتا؟ کیا امریکا یہاں Regime چینج نہیں کراتا رہا؟‘‘ سفیر صاحب نے کہا، کیا آپ واقعی امریکا سے آزادی چاہتے ہیں؟ آزادی چاہنے کا مطلب ہے، آپ پاکستان میں امریکا کے اثرورسوخ یا دخل اندازی کو ناپسند کرتے ہیں‘‘۔ آزادی خان صاحب نے کہا ’’جی بالکل، ہم امریکی مداخلت کے خلاف ہیں‘‘۔ سفیر صاحب نے کہا اگر آپ دل سے امریکی مداخلت کے خلاف ہوتے تو پھر امریکا بھی آپ کے خلاف ہوتا اور آپ کی قیادت امریکی قیادت کے لیے کسی صورت قابلِ قبول نہ ہوتی جس طرح کہ یہاں کی مذہبی جماعتیں امریکا کے لیے قابلِ قبول نہیں مگر سر!یہ پہلی بار ہوا ہے کہ ایک سابق امریکی صدر اور آئیندہ انتخابات کے اہم ترین امیدوار نے جلسے میں آپ کے لیڈر کا نام لے کر اس کی حمایت میں بیان دیا ہے اور کہا ہے کہ میں منتخب ہوکر اسے جیل سے رہا کراؤں گا۔
امریکی کانگریس میں تو آپ کی پارٹی کے حق میں قرارداد پاس ہوئی ہے، کیا امریکا کے کسی مخالف کے حق میں ایسی قرارداد پاس ہوسکتی ہے؟ وہاں غزہ کے معصوم بچوں پر بمباری رکوانے کی قرارداد پیش نہیں ہوسکی۔ بھارت اور کشمیر میں مسلمانوں کے خلاف ہونے والے مظالم کے خلاف کبھی قرارداد پیش نہیں ہوسکی۔ پھر آپ یہ بھی جانتے ہیں امریکی پالیسیوں پر سب سے زیادہ یہودی اور اسرائیلی لابی اثرانداز ہوتی ہے، اسرائیل کے اخبارات نے پاکستان کے کسی سیاستدان کے حق میں کبھی ایک لفظ نہیں کہا مگر وہ صرف آپ کے لیڈر کے حق میں لکھ رہے ہیں جس سے اسرائیل کا اور وہاں کے میڈیا کا آپ کے لیڈر کے لیے نرم گوشہ اور ہمدردی بالکل عیاں ہے!! اس پر آزادی خان صاحب بولے ’’دیکھیں جی ! ملک میں جو ہائبرڈ نظام چل رہا ہے ،آپ اس کی حمایت کرتے ہیں؟‘‘ سفیر صاحب نے کہا، میں اس کی بالکل حمایت نہیں کرتا مگر کیا آپ کی قیادت اسٹیبلشمنٹ سے آزادی چاہتی ہے؟ ابھی تک بانی پی ٹی آئی کا جو موقف عوام تک پہنچا ہے۔
اس کے مطابق وہ اسٹیبلشمنٹ کو غیر سیاسی یا غیر جانبدار بنانے کے حق میں نہیں ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ وہ مداخلت کرے اور انھیں دوبارہ حکومت دلادے۔ اس موقع پر ایک سابق سیکریٹری (جو پنجاب میں بھی اعلیٰ انتظامی عہدوں پر رہ چکے ہیں) نے مداخلت کرتے ہوئے کہا ’’سر! آپ ایک پڑھے لکھے باخبر شخص ہیں، ایک جیالے اور پڑھے لکھے باشعور شخص میں یہی فرق ہوتا ہے کہ پڑھے لکھے شخص کا شعور اسے نئے حقائق کی روشنی میں اپنی رائے تبدیل کرنے پر مجبور کردیتا ہے مگر تعصّب اسے بے لچک بنادیتا ہے۔ سچی بات ہے کہ بانی پی ٹی آئی کے وزیراعظم بننے سے پہلے میں بھی اسے ایماندار سمجھتا تھا اور یہ سمجھتا تھا کہ وہ سول سرسز میں سیاسی مداخلت کا خاتمہ کردے گا مگر جب حقائق سامنے آئے تو آنکھیں کھل گئیں، پنجاب میں پولیس اور انتظامیہ میں تاریخ کی بدترین مداخلت اُس کے دور میں ہوتی رہی۔
جب اس کے بہت سے وزیروں اور مشیروں کے اربوں روپے کے سکینڈل سامنے آگئے تو ہم جیسے انھیں ایماندار سمجھنے والے سپورٹرانتظار کرنے لگے کہ موصوف ان وزیروں اور مشیروں کو عبرت کا نشان بنادے گا۔ مگر کسی کا بال بھی بیکا نہ ہوا۔ پنجاب میں لُوٹ مار چلتی رہی۔ شہادتیں اور ثبوت بھی فراہم کیے گئے مگر آپ کا ایماندار لیڈر ٹس سے مس نہ ہوا بلکہ وہ بدنام ٹولے کا پوری طرح تحفّظ کرتا رہا۔ کیا یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ کر بھی کوئی باشعور شخص کہہ سکتا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کو کرپشن سے نفرت ہے یا وہ کرپٹ لوگوں کو ناپسند کرتا ہے۔ اگر کوئی معمولی سا شک وشبہ تھا بھی تو اُس روز اتر گیا جب اُس نے ایسے لیڈر کو پارٹی صدر بنادیا جسے بانی پی ٹی آئی پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو کہا کرتا تھا۔ اس موقع پر ابھی تک خاموش بیٹھے ہوئے تاریخ کے پروفیسر صاحب بھی بحث میں شامل ہوکر کہنے لگے، محترم ’’آزادی خان‘‘ صاحب! اگر موجودہ حکمران یا پی ڈی ایم والے قیادت کے معیار پر پورا نہیں اترتے تو آپ کو ایسا شخص سامنے لانا چاہیے تھا جس پر کوئی انگلی نہ اٹھاسکتا۔ آپ تو سروس کے دوران لیڈرشپ پر بڑے کورسز بھی کرتے ہیں۔
کیا وہاں یہ بتایا جاتا ہے کہ اخلاقی جرم میں ملوث شخص کو لیڈر مان لو۔ کیا آپ کو یہ پڑھایا جاتا تھا کہ ہر روز جھوٹ بولنے والا اور وعدوں سے پھر جانے والا بہت اعلیٰ پائے کا لیڈر ہوتا ہے، اسے مرشد مان لو! آپ کو یقیناً یہ پڑھایا گیا ہوگا کہ اچھے لیڈر کا دامن مالی اور اخلاقی برائیوں سے پاک ہونا چاہیے۔ اسے ہر حال میں سچ بولنا چاہیے اور ہر قیمت پر اپنا وعدہ نبھانا چاہیے۔ اچھا لیڈر دوسروں کے لیے ایثار اور قربانی کرتا ہے۔ اعلیٰ لیڈر فراخدل ہوتا ہے، وہ عفو اور درگذر سے کام لیتا ہے۔ ان میں سے کوئی ایک خوبی بھی آپ کے لیڈر میں ہو تو براہِ کرم آگاہ کردیجیے۔
اعلیٰ پائے کا لیڈر تو کہتا ہے مجھ جیسے ہزاروں لیڈر میرے ملک پر قربان۔ ملک کا مفاد سب سے بالا اور افضل ہے مگر آپ کا لیڈر کہتا ہے اگر میں وزیراعظم نہ رہوں تو ملک پر ایٹم بم پھینک دو۔ وہ تو مفاد کے لیے فساد پر یقین رکھتا ہے وہ تو چاہتا ہے کہ چاہے کوئی جھوٹا واقعہ گھڑنا پڑے، پورے ملک کی اینٹ سے اینٹ بجادی جائے، سیکڑوں نوجوان طلبا کی لاشیں تڑپ رہی ہوں، ملک کے ہر کالج کو ملبے کا ڈھیر بنادیا جائے مگر اسے جیل سے نکالا جائے۔
کیا لیڈر ایسا سوچتے ہیں؟ اس کے قریب ترین دوست نجی محفلوں میں بتاتے ہیں کہ ان کو اپنی ذات کے سوا کسی اور سے نہ پیار ہے اور نہ ہی وہ کسی کے ساتھ مخلص ہیں۔ ان کا کوئی نظریہ نہیں، اس کے پاس تقریر بازی اور نعرہ سازی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ آپ کا لیڈر، دنیا بھر میں مسلّمہ لیڈرشپ کے کس معیار پر پورا اترتا ہے؟ آپ کیوں فاشسٹ ذہنیّت کے مالک کو ایک بار پھر ملک پر مسلط کرنا چاہتے ہیں؟‘‘ آزادی خان نے کہا ’’مگر عوام کی اکثریت اس کے ساتھ ہے‘‘۔ اس پر پروفیسر صاحب نے کہا ’’مقبولیت اچھائی کا پیمانہ نہیں ہوتا۔ جنونی اور جذباتی لوگوں نے کبھی کسی اہل اور باکردار شخص کا انتخاب نہیں کیا‘‘۔