آئین کی پاسداری

ڈیل کارنیگی کا کہنا ہے کہ زندگی میں سب سے زیادہ اہم چیزکامیابیوں سے فائدہ اٹھانا نہیں ہے


ایم جے گوہر October 23, 2024

معروف نفسیات دان ڈیل کارنیگی 24 نومبر1888 کو مسوری امریکا میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے وارنسبرگ اسٹیٹ ٹیچرزکالج میں تعلیم حاصل کی۔ ڈیل کارنیگی نے لوگوں کی نفسیات کا گہرا مطالعہ کیا اور متعدد شہرہ آفاق کتابیں تحریرکیں۔ ان کی لکھی ہوئی کتابوں کی 6 کروڑ سے زائد کاپیاں دنیا کی 38 زبانوں میں شایع ہو چکی ہیں۔ ڈیل کارنیگی اپنے وقت کے معروف لیکچرار اورکئی عالمی لیڈروں کے پسندیدہ مشیر بھی تھے۔ ان کی سب سے زیادہ مشہور کتاب ’’پریشان ہونا چھوڑیے، جینا سیکھیے‘‘ کی دنیا کی تمام بڑی زبانوں میں کروڑوں کی تعداد میں ان گنت کاپیاں فروخت ہوچکی ہیں جنھیں پڑھ کر کروڑوں افراد پریشان رہنے کی عادت پر قابو پا چکے ہیں۔ اس کتاب میں ڈیل کارنیگی ان عملی اصولوں کا ایک ایسا مجموعہ پیش کرتے ہیں جو آج کی اکیسویں صدی کی برق رفتار دنیا میں بھی قابل عمل ہے بلکہ یہ اصول عمر کے ہر حصے میں فائدہ پہنچانے والے ہیں۔

ڈیل کارنیگی کا کہنا ہے کہ زندگی میں سب سے زیادہ اہم چیزکامیابیوں سے فائدہ اٹھانا نہیں ہے، ہر بے وقوف آدمی ایسا کرسکتا ہے۔ حقیقی معنوں میں اہم چیز یہ ہے کہ تم اپنے نقصانات سے فائدہ اٹھاؤ، لیکن اس دوسرے کام کے لیے ذہانت درکار ہے اور یہی وہ چیز ہے جو ایک سمجھ دار اور ایک بے وقوف کے درمیان فرق کرتی ہے۔ اس دنیا میں اتفاقاً ہی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آدمی صرف کامیابیوں کے درمیان ہو اور اس کے لیے اس کے سوا اورکوئی کام نہ ہو کہ وہ بس کامیابیوں سے بے روک ٹوک فائدہ اٹھاتا رہے۔

بیشتر حالات میں یہ ہوتا ہے کہ آدمی اپنے آپ کو مشکلات اور نقصانات کے درمیان پاتا ہے اور انھی مشکلات و نقصانات سے گزرتے ہوئے اسے اپنی منزل تک پہنچنا پڑتا ہے، اس دنیا میں صرف وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو اس ہوش مندی کا ثبوت دیں کہ وہ ناموافق حالات کی شکایت کرنے کی بجائے مخالف ہواؤں کی تندی کا سامنا کرنے کا حوصلہ و ہمت رکھتے ہوں، جو مسائل و مشکلات کے خلاف آہ و فغاں اور فریادیں کرنے کی بجائے ان کے حل کے لیے تدابیر اختیار کرتے ہیں۔

نقصانات سے فائدہ اٹھانا ہی وہ واحد خوبی ہے جو دنیا میں کسی باہمت شخص کو کامیاب کرتی ہے۔ کوئی فرد ہو یا قوم دونوں کو دنیا میں اسی طرح امتحانات کے سامنے کھڑا ہونا پڑتا ہے جہاں کامیاب وہ نہیں کہ جس کو مشکلیں پیش نہ آئیں بلکہ کامیاب وہی ہے جو مشکلوں کے باوجود کامیاب ہو سکے۔ دنیا میں منزل پر وہی پہنچتا ہے جو راستے کی دشواریوں کے باوجود اپنا سفر طے کرسکے۔ منزل مقصود ایسے ہی باحوصلہ اور باتدبیر لوگوں کا مقدر ہوتی ہے۔

16 دسمبر 1971 کو پاکستان دولخت ہوگیا۔ قوم میں مایوسی، بددلی اور مستقبل کے حوالے سے خدشات جنم لینے لگے۔ سقوط بنگال کا جوگہرا گھاؤ لگا اس کا ازالہ ممکن نہ تھا۔ بقیہ پاکستان میں عنان اقتدار ذوالفقار علی بھٹو کے ہاتھ میں آئی۔ وہ عزم و یقین کا پیکر بن کر ابھرے، مایوس و بددل قوم کے اندر امید کی کرنیں روشن کیں اور تابناک مستقبل کی جوت جگائی۔ ناکامیوں کی راکھ کے ڈھیر سے کامیابی کی راہیں تلاش کیں۔ پاکستان جو دو دہائیوں سے آئین کی دستاویز سے محروم تھا، اسے ایک ایسا متفقہ آئین دینے کا بیڑا اٹھایا جس میں حکومت اور اپوزیشن کی تمام جماعتوں کی کاوشوں، رائے اور تجاویزکو جگہ مل سکے۔

آج کے مقابلے میں اس وقت کی اپوزیشن کے رہنما اقبال، زیرک تجربہ کار اور دوراندیشی میں اپنی مثال آپ تھے۔ بھٹو دورکی قومی اسمبلی نے آئین ساز کمیٹی تشکیل دی جو 25 ارکان پر مشتمل تھی جس کے چیئرمین محمود علی قصوری تھے۔ کم و بیش 8/10 ماہ کی محنت شاقہ کے بعد 1973 کے آئین کے ڈرافت کو 20 اکتوبر 1972 کو ختمی شکل دی گئی بعدازاں اسے غور و خوض کے لیے قومی اسمبلی میں پیش کر دیا گیا۔ ارکان اسمبلی کی بحث کے بعد 10 اپریل 1972 کو قومی اسمبلی نے آئین کی منظوری دے دی۔ 12 اپریل کو صدر مملکت نے آئین پر اپنے دستخط کیے جس کے بعد 14 اگست 1973 کو یہ متفقہ آئین ملک بھر میں نافذ کر دیا گیا۔ بھٹو کے بعد آنے والے حکمرانوں نے 73 کے آئین میں من مانی ترامیم کر کے اس کے خد و خال بری طرح مسخ کر دیے، یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے، لیکن جس عجلت میں 26 ویں آئینی ترمیم کو منصف اعلیٰ قاضی فائز عیسیٰ کی ریٹائرمنٹ سے قبل پارلیمنٹ سے منظور کرایا گیا ہے اس نے بہت سے سوالوں کو جنم دیا ہے۔

اٹھارہویں ترمیم کی منظوری کے وقت بھی تمام حلقوں سے وسیع تر مشاورت کی گئی تھی اور تقریباً 9 ماہ کا وقت لگا تھا لیکن 26 ویں ترمیم کو محض چند دن میں منظورکرانے کی جو بھاگ دوڑ ہوئی اور مجوزہ مسودے کو پہلے خفیہ رکھا گیا، اس سے شکوک و شبہات پیدا ہوئے۔ بلاول بھٹو اور مولانا فضل الرحمن نے طویل مذاکرات کے بعد پریس کانفرنس میں بتایا ہے کہ آئینی مسودے پر اتفاق رائے ہوگیا ہے جب کہ وکلا تنظیموں نے آئینی ترمیم کے خلاف تحریک چلانے کی دھمکی دی ہے۔ ڈیل کارنیگی کے بقول نقصانات سے فائدہ اٹھانے کے لیے جو ذہانت درکار ہوتی ہے، بصد احترام عرض کہ ارباب اختیار اس سے عاری ہیں کہ آئین کی پاسداری سے زیادہ انھیں اپنے سیاسی مفادات عزیز ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں