کون غدار… کون وفادار؟
آجکل تحریک انصاف کے اندر کون پارٹی کا غدار ہے اور کون غدار نہیں ہے کی سیاست بہت گرم ہے۔ جنھوں نے حکومتی ترامیم کے حق میں ووٹ ڈالا ہے وہ تو تحریک انصاف کے لیے غدار ہیں۔ لیکن دلچسپ صورتحال یہ ہے کہ جنھوں نے ترمیم کے حق میں ووٹ نہیں ڈالا ،انھیں بھی غداری کے سرٹیفکیٹس مل رہے ہیں۔ جو بظاہر پارٹی کے ساتھ کھڑے نظر آرہے ہیں، انھیں بھی اپنی وفاداری کا یقین دلانے کی ضرورت پڑ رہی ہے۔ عجیب منظر نامہ ہے ، ہر کوئی شک کے دائرے میں ہے، کوئی بھی جسے چاہے غدار ڈکلیئر کر رہا ہے۔
سب سے پہلے سنیٹرز کی مثال ہی لے لیں۔ حکومت نے اپنی ترامیم کی منظوری کے لیے تحریک انصاف کے کسی ایک سنیٹر کا ووٹ استعمال نہیں کیا لیکن ووٹنگ ڈے سے پہلے ہی تحریک انصاف نے خود ہی یہ اعلان کردیاکہ ان کے دو سنیٹر ’’زرقا سہروردی اور فیصل سلیم‘‘ حکومت کے ساتھ مل گئے ہیں۔ یہ اعلان تحریک انصاف نے ہی کیا کہ ان کے یہ دو سنیٹر حکومتی ترامیم کے حق میں ووٹ ڈالنے جا رہے ہیں۔ ترامیم کی منظوری کے موقع پر تحریک انصاف کے سنیٹر علی ظفر نے چیئرمین سینیٹ کو کہا کہ ان کی درخواست ہے کہ اگر ان کے سنیٹر ترامیم کے حق میں ووٹ ڈالیں تو ان کا ووٹ استعمال نہ کیا جائے۔ لیکن جب ترامیم پر ووٹنگ کا عمل شروع ہوا تو سب نے دیکھا کہ تحریک انصاف کے کسی بھی سینیٹر نے ان ترامیم کے حق میں ووٹ نہیں ڈالا ۔ اب سنیٹر زرقا سہروردی بار بار ویڈیو پیغام جا ری کر رہی ہیں کہ وہ تحریک انصاف کے ساتھ ہیں۔ وہ بانی پی ٹی آئی کے ساتھ کھڑی ہیں۔ لیکن تحریک انصاف کے سوشل میڈیا ونگ نے انھیں پارٹی کے غداروں کی فہرست میں ڈال دیا ہے۔اب ان کی بطور پارٹی غدار ٹرولنگ کی جا رہی ہے۔ ایک طرف وہ پارٹی سے وفاداری کا یقین دلا رہی ہیں، دوسری طرف انھیںغداری کا سرٹیفیکیٹ مل رہا ہے۔ ان کی کوئی وضاحت قبول نہیں کی جا رہی جب کہ سنیٹر فیصل سلیم خاموش ہیں۔ انھوں نے حکومت کو ووٹ نہیں دیا۔ لیکن وہ کوئی وضاحت بھی نہیں دے رہے۔ شاید انھیں اندازہ ہے کہ وضاحت دینے کا کوئی فائدہ نہیں۔ جتنی بھی وضاحت دی جائے گی، اتنا ہی غداری کا سرٹیفکیٹ مضبوط ہو جائے گا۔
زین قریشی کا معاملہ بھی بہت دلچسپ ہے۔ انھوں نے بھی ترمیم کے حق میں ووٹ نہیں دیا لیکن ان کو بھی غداروں کی فہرست میں ڈال دیا گیا ہے۔ وہ بھی بار بار ویڈیو پیغام جا ری کر رہے ہیں کہ انھوں نے پارٹی پالیسی کی مکمل پابندی کی ہے۔ وہ حکومت کے ساتھ نہیں ہیں۔ لیکن ان کی کوئی ماننے کے لیے تیار نہیں۔ حالانکہ ان کا والد شاہ محمود قریشی اس پارٹی کا وائس چیئرمین ہے اور وہ بانی تحریک انصاف کے ساتھ جیل کاٹ رہا ہے۔ لیکن ان کی وفاداری بھی مشکو ک بنا دی گئی ہے۔ ان کے والد کی جیل بھی ضایع ہوتی نظر آرہی ہے۔ تحریک انصاف کے اندر وہ ملزم کی طرح کٹہرے میں کھڑے نظر آرہے ہیں۔ کوئی پوچھے، جب انھوں نے ووٹ ڈالا ہی نہیں تو الزام کیا ہے؟ لیکن الزام لگانے والے اعلان کررہے ہیں کہ وہ حکومت کے ساتھ مل گئے ہیں، حکومت کو تو ان کے ووٹ کی ضرورت ہی نہیں پڑی لہذا حکومت نے ان کا ووٹ استعمال نہیںکیا ۔ المیہ دیکھیں ، زین قریشی ووٹ نہ ڈال کر بھی ملزم ہیں۔ ان کی بھی وضاحت قبول نہیں کی جا رہی۔ بلکہ ان کی ہر وضاحت انھیں مزید ملزم بناتی جا رہی ہے۔ اب وہ کیا کریں ؟ خاموش رہیں تو مرتے ہیں، وضاحت دیں تو قبول نہیں ہوتی۔
اسی طرح ریاض فتیانہ، ا سلم گھمن نے بھی حکومت کی ترامیم کے حق میں ووٹ نہیں دیاہے۔ لیکن ان کو بھی ملزم بنا دیا گیا ہے۔ اسلم گھمن اپنی وفاداری کے حق میں مختلف صحافیوں سے ٹوئٹ کرا رہے ہیں تا کہ یقین دلایا جا سکے کہ وہ پارٹی کے وفادار ہیں۔ لیکن شہباز گل نے انھیں غدار قرار دے دیا ہے۔ اس لیے ان کی کوئی وضاحت قبول نہیں کی جا رہی ۔ ان کی وفاداری بھی اب کسی کا م کی نہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ وہ جتنا مرضی وفاداری کا یقین دلا دیں۔ اب ان پر کوئی یقین نہیں کرے گا۔ ان کا تحریک انصاف کے ساتھ سفر ختم ہو گیا ہے۔ کل جب دوبارہ ٹکٹیں دینے کا وقت آئے گا ، وہ محروم رہیں گے۔
تحریک انصاف میں غدار غدار کا عجب کھیل شروع ہے۔ بانی پی ٹی آئی کے سرفروش کہلانے والے سوشل میڈیا ٹائیگرز اپنی پارٹی قیادت کو بھی غدار ہی قرار دے ر ہے ہیں۔ بیرسٹر گوہر کی مسکراتے ہوئے قومی اسمبلی میں بلا ول بھٹو سے ہاتھ ملانے تصاویر سامنے آئی ہیں۔ اب اس تصویر کے ساتھ بھی عجب پراپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔ کہا جارہا ہے بانی پی ٹی آئی عمران خان جیل میں بند ہے، اس کی ملاقات بند ہے جب کہ بیرسٹر گوہر بلاول کے ساتھ کھڑے مسکرا رہے ہیں۔ ایک طرف ترمیم پاس ہو رہی ہے، دوسری طرف بیرسٹر گوہر کی مسکراہٹ ہی نہیں رک رہی۔ اس لیے تحریک انصاف کا سوشل میڈیا تو بیر سٹر گوہر کو بھی غدار قرار دے رہا ہے۔ وہ بھی کلیئر نہیں ہیں۔
کے پی کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور بھی غداری کا سرٹیفکیٹ تقسیم کرنے والوں کے ریڈار پر ہیں۔ ترمیم منظور ہونے کے دنوں میں وہ اپنی تمام سیاسی مصروفیات چھوڑ کر اپنے آبائی علاقہ میں چلے گئے۔ وہ مکمل خاموش ہوگئے، جب ترامیم منظور ہو گئیں تو وہ چھٹیاں ختم کر کے منظر عام پر آگئے۔ ان کا ایک بیان بھی سامنے نہیںآیا۔ اب ترمیم منظور ہونے کے بعد ان کی دھواں دار تقریر سامنے آئی ہے۔ تا ہم لوگ سوال کر رہے ہیں کہ ترمیم منظور ہوتے وقت وہ چھٹیوں پر کیوں چلے گئے؟ وہ کسی احتجاج میں نہیں تھے۔ وہ غائب کیوں تھے؟ وہ اپنی دھواں دار تقاریر سے اپنے اوپر الزام لگانے والوں کو جواب تو دے رہے ہیں۔ لیکن کلیئر وہ بھی نہیں ہیں۔ بانی تحریک انصاف احتجاج چاہتے تھے جو نہیں ہوا، اس کے ذمے د ار گنڈا پور ہیں۔
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ تحریک انصاف کا سوشل میڈیا اب تحریک انصاف کو کھا رہا ہے۔ اب یہ سوشل میڈیا تحریک انصا ف کی اپنی قیادت کے لیے درد سر بن گیا ہے۔ پہلے تحریک انصاف کے مخالفین اس سوشل میڈیا بریگیڈ سے تنگ تھے۔ لیکن اب تو تحریک انصاف کی اپنی قیادت اس کے نشانے پر ہے۔ یہ کسی ڈسپلن میں نہیں ہیں۔ یہ کسی کی بات سننے کے لیے تیار نہیں۔ یہ کسی کی وضاحت ماننے کے لیے تیار نہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ اس کھیل میں حکومت کو تحریک انصاف کے چند اور ارکان مل جائیں گے۔ جنھوں نے پہلے ووٹ نہیں دیا جب ان کی وضاحت قبول نہیں کی جائے گی، وہ اگلی دفعہ ووٹ دے دیں گے۔ ان کے پاس کوئی اور چوائس ہی نہیں رہے گی۔