ڈیڑھ ارب سے زیادہ لوگوں کے لیے محض مسکراہٹیں کافی نہیں ہیں۔ بھارت اور پاکستان کے عوام امن اور خوشحالی کے طلب گار ہیں۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہ اجلاس میں وزیر اعظم مودی خود تو نہ آئے البتہ انھوں نے ایک کیریئر ڈپلومیٹ جے شنکر کو اسلام آباد بھیجا۔ وزارت خارجہ کے ایک جونیئر افسر نے اسلام آباد ایئرپورٹ پر انھیں خوش آمدید کہا ( گوا میں ہونے والی کانفرنس میں بھارت کی حکومت نے اس وقت کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ یہی سلوک کیا تھا) مگر یہ کانفرنس اس اعتبار سے کامیاب رہی۔ جے شنکر نے وزیر اعظم شہباز شریف سے مصافحہ کیا اور تصویر کھچوائی۔ پھر شیڈول سے ہٹ کر ان کی نائب وزیراعظم اسحاق ڈار سے ملاقا ت ہوئی۔ جے شنکر کی تقریر پاکستانی ناظرین نامعلوم وجوہات کی بناء پر سننے سے محروم رہے مگر جے شنکر نے واپسی پر شاندار مہمان داری پر وزیر اعظم شہباز شریف اور اسحاق ڈار کا شکریہ ادا کیا۔ امن سے محبت کرنے والوں کے لیے یہی بات اطمینان کا باعث تھی کہ بھارتی وزیر خارجہ کے دورہ میں کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما نہیں ہوا۔ کانفرنس کے اعلامیہ میں جہاں اقتصادی تعاون کے بارے میں جامع نکات شامل کیے گئے، وہیں رکن ممالک کے درمیان تنازعات کے حل کے لیے بھی دوطرفہ مذاکرات کی ضرورت پر زور دیا گیا اور وسط ایشیائی ممالک کے عوام کے درمیان رابطوں کی اہمیت کا ذکر تو کیا گیا مگر پاکستان اور بھارت کے عوام کے درمیان رابطوں کا ذکر نہیں کیا گیا۔ مگر دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کے تناظر میں سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے بھارتی صحافیوں سے جو بات چیت کی وہ اس کانفرنس کا حاصل ہے۔
میاں نواز شریف کی پہلی ملاقات تو نامور بھارتی صحافی برکھا دت سے ہوئی۔ برکھا دت ان بھارتی صحافیوں میں شامل ہیں جو ہمیشہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات کو بہتر بنانے کی جستجو میں رہتی ہیں۔ میاں صاحب کے ساتھ ان کی صاحبزادی پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز بھی موجود تھیں۔ میاں صاحب نے اس ملاقات میں دونوں ممالک کے تعلقات کو معمول پر لانے کی ضرورت پر زور دیا۔ میاں صاحب نے یہ بھی کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان تجارت شروع ہونی چاہیے۔ گزشتہ جمعرات کو میاں نواز شریف سے لاہور میں ان بھارتی صحافیوں کے وفد نے ملاقات کی جو شنگھائی تنظیم کانفرنس کی اسلام آباد میں کوریج کے لیے آئے تھے اور اب واپس جا رہے تھے۔ بھارتی صحافی مس شرما نے اس ملاقات کی تفصیلات پاکستانی صحافیوں کو بتائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ میاں نواز شریف نے کہا کہ اس بات کے خاصے امکانات ہیں کہ پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف اور بھارتی ویر اعظم نریندر مودی کے درمیان جلد ملاقات ہوگی۔ مس شرما کا کہنا ہے کہ میاں نواز شریف اس ملاقات میں پرانی یادوں میں کھو گئے۔ انھوں نے امرتسر سے وابستہ اپنی یادوں کا ذکر کیا۔ میاں صاحب نے کہا کہ ان کے والد کا تعلق امرتسر کے ایک گاؤں جاتی امراء سے تھا اور وہ کئی دفعہ امرتسر گئے ہیں۔ میاں صاحب نے مزید کہا کہ بھارت اور پاکستان میں تجارت ہونا ضروری ہے۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان میں بجلی وافر مقدار میں پیدا ہو رہی ہے۔ پاکستان بھار ت کو یہ بجلی فراہم کرسکتا ہے۔ تجارت کھلنے سے دونوں ممالک کے لوگوں کو بہت سے فائدے ہوسکتے ہیں۔ میاں نوازشریف نے اس امید کا اظہار کیا کہ بھارت کی کرکٹ ٹیم چیمپیئن ٹرافی میں شرکت کے لیے ضرور لاہور آئے گی۔ پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز بھارتی صحافیوں سے ملاقات کے موقع پر موجود تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کو کلائیمنٹ چینج کا سامنا ہے اور کلائیمنٹ چینج سے دونوں طرف کے غریب متاثر ہو رہے ہیں، اگر دونوں ممالک کلائیمنٹ چینج کی ڈپلومیسی شروع کریں تو خطے کی فضا بہتر ہوجائے گی۔
میاں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو شہید ہمیشہ بھارت سے معمول کے تعلقات کے حامی رہے ہیں، جب میاں نواز شریف 90ء کی دہائی میں پہلی دفعہ وزیر اعظم بنے تو انھوں نے بھارت سے تجارت کی اہمیت کو محسوس کیا تھا، یوں ان کے دورِ اقتدار میں تجارت کا حجم بڑھا تھا اور ڈبلیو ٹی او W.T.O کے قوانین کے تحت بھارت نے پاکستان کو تجارت کے شعبے میں Most Favourite Country کا درجہ دے دیا تھا۔ اب پاکستان کو بھارت کو M.F.C کا درجہ دینا تھا مگر صدر غلام اسحاق خان نے ان کی حکومت کو رخصت کردیا۔ پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بے نظیر بھٹو نے اپنے پہلے دورِ حکومت میں اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی کو اسلام آباد میں خوش آمدید کہا تھا، یوں تعلقات کو معمول پر لانے کا عمل تیز ہوا تھا مگر اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے بے نظیر حکومت کو برطرف کیا تھا۔ میاں نواز شریف کے دوسرے دورِ حکومت میں بھارت کے وزیر اعظم واجپائی دوستی بس میں بیٹھ کر لاہور آئے اور مینارِ پاکستان پر حاضری دی تھی۔ یہ دونوں ممالک کے درمیان ایک اہم پیش رفت تھی مگر اس وقت کے فوج کے سربراہ جنرل پرویز مشرف نے کارگل پر چڑھائی کر کے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے عمل کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی تھی مگر جب جنرل پرویز مشرف نے خود اقتدار سنبھال لیا تو وہ بھارت سے دوستی کی اہمیت کو جان گئے۔ جنرل مشرف وزیر اعظم واجپائی سے معاہدے کے لیے آگرہ گئے۔ دنیا کے سات عجوبات میں سے ایک مغل بادشاہ شہنشاہ جہانگیر کی اہلیہ ممتاز بیگم کے مقبرہ تاج محل پر جا کر اپنی اہلیہ کے ساتھ ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے رومانی تصویر بھی بنوائی تھی۔ مگر انتہا پسندوں کے دباؤ پر وزیراعظم واجپائی کے ساتھ امن کے معاہدے پر دستخط نہ کرسکے۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ اس معاہدے میں Cross border terrorism کے خاتمے کی شق پر پرویز مشرف نے اتفاق نہیں کیا تھا مگر بعد میں پاکستان کے ایک شہر میں دہشت گرد تنظیموں کے کیمپوں کو ختم کیا گیا۔ پرویز مشرف نے پھر پاکستان کی روایتی خارجہ پالیسی سے انحراف کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے 6 فارمولے پیش کیے تھے۔ بھارت کی وزارت خارجہ کی بیوروکریسی صدر پرویز مشرف کے اس فارمولے کی اہمیت کو فوری طور پر محسوس نہ کرسکی۔ پرویز مشرف دور کے وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ’’ پرویز مشرف حکومت کی تجاویز پر عملدرآمد آخری مرحلہ پر تھا کہ ملک میں سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کو معزول کردیا گیا اور وکلاء کی تحریک شروع ہوگئی اور پھر پرویز مشرف رخصت ہوگئے۔ آصف زرداری نے جب صدر کا عہدہ سنبھالا تو اپنی پہلی پریس کانفرنس میں تجویز پیش کی تھی کہ بھارت اور پاکستان کے تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے دونوں ممالک کے درمیان علاقے میں صنعتی زون تعمیر کیے جائیں گر مگر کچھ دنوں بعد بمبئی میں دہشت گردی کی بھیانک واردات ہوگئی۔ اس وقت کے وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نئی دہلی میں تھے، انھیں اچانک واپس آنا پڑا۔ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے اس و قت کے سپائی ماسٹر کو نئی دہلی بھیجنے کا عقل مندانہ فیصلہ کیا تھا مگر مسلم لیگ ن کے رہنماؤں اور دائیں بازو کے بعض صحافیوں نے اتنا شور مچایا کہ حکومت کو یہ فیصلہ منسوخ کرنا پڑا، اگر گیلانی حکومت کے فیصلے پر عملدرآمد ہوتا تو پھر پاکستان پر ایف اے ٹی ایف کے تحت پابندیاں عائد نہیں ہوتیں۔
بے نظیر بھٹو کے دورِ اقتدار میں دونوں ممالک کے عوام کے درمیان رابطوں میں حائل رکاوٹیں کم ہوگئی تھیں، یوں عام آدمی کو ویزے کے حصول میں آسانی ہوگئی تھی۔ ادیبوں، شاعروں، صحافیوں، وکلاء، سماجی کارکنوں اور ججوں کے لیے ویزوں کا حصول بہت آسان ہوگیا تھا۔ میاں نواز شریف تیسری دفعہ وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہوئے تو بھارتی وزیر اعظم مودی لاہور آئے تھے مگرکچھ عرصے کے بعد میاں نواز شریف پاناما لیکس میں ملوث کر کے اقتدار سے محروم کر دیے گئے۔ ادھر بھارتیہ جنتا پارٹی کا مذہبی انتہا پسندی کا رویہ زیادہ سخت ہوگیا۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے بھارتی حکومت کے کشمیر کی حیثیت کو تبدیل کرنے کے فیصلے کے بعد بھارت سے دوطرفہ تجارت پر پابندی لگا دی، یوں دونوں ممالک کے تعلقات نچلی سطح تک چلے گئے۔ اس صورتحال کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے پیش رفت کے امید افزاء نتائج سامنے آرہے ہیں۔ بھارتی حکومت نے کشمیر جانے والے پاکستانی زائرین کو فوراً ویزا دے دیا۔ تمام اقتصادی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ بھارت سے تعلقات کو معمول پر لاکر معاشی بحران کو حل کیا جاسکتا ہے۔ جب ہر سال مشرقی پنجاب کے کسان فصلوں کی باقیات کو جلاتے ہیں تو ان کا نقصان پاکستانی مغربی پنجاب کو ہوتا ہے۔ یہی مسئلہ دریاؤں میں آنے والے سیلابوں کا ہے۔ بھارت کی ریاستوں پنجاب، یو پی اور ہریانہ وغیرہ میں صنعتیں جو دھواں اگلتی ہیں، اس سے پاکستان کی فضاء میں آکسیجن کی مقدار گرا دیتا ہے۔ ان تمام مسائل کا حل دونوں ممالک کے درمیان تعاون میں مضمر ہے، مگر محض مسکراہٹوں کے تبادلے سے دونوں ممالک کے غریب عوام کا بھلا نہیں ہوگا۔