سندھ کا رواداری مارچ : امن اور انسانیت کا پیغام
سندھ کی دھرتی ہمیشہ سے امن، محبت اور انسانیت کا پیغام دیتی آئی ہے۔ یہاں صدیوں سے صوفیوں، اولیاء اور عوامی رہنماؤں نے بھائی چارے، ہم آہنگی اور برداشت کی تعلیم دی ہے۔ سندھ کی تاریخ ایک شاندار داستان ہے جو ظلم و جبرکے خلاف کھڑے ہونے والوں اور عدل و انصاف کے لیے اپنی جانیں قربان کرنے والوں کی ہے۔ اسی تسلسل میں رواداری مارچ کا انعقاد بھی امن اور محبت کی گواہی دیتا ہے۔
سندھ کی تاریخ میں ہندو، مسلمان، سکھ اور عیسائی سب ایک ساتھ رہتے اور ایک دوسرے کی مذہبی رسومات کا احترام کرتے رہے ہیں۔ سندھی ادب بھی امن اور محبت کا پیغام دینے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی کا کلام اور سچل سرمست کی شاعری محبت، رواداری اور انسانی مساوات کا درس دیتی ہے۔
رواداری مارچ کا مقصد سندھ میں بڑھتے ہوئے تشدد، مذہبی انتہا پسندی، اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف ایک آواز اٹھانا ہے۔ یہ مارچ اس خطے کی صدیوں پرانی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے عوام کو محبت، بھائی چارے اور امن کا پیغام دیتا ہے۔ سندھ ہمیشہ سے مختلف مذاہب اور ثقافتوں کا گہوارہ رہا ہے، جہاں ہر شخص کو اپنے عقائد کے مطابق زندگی گزارنے کی آزادی حاصل رہی ہے۔
سندھ وہ خطہ ہے جس نے ہمیشہ محبت اور رواداری کا پیغام دیا، جہاں حضرت لعل شہباز قلندر، سچل سرمست اور شاہ عبداللطیف بھٹائی جیسے اولیا نے انسانیت کا درس دیا، آج ظلم و ستم کا گہوارہ بنتا جا رہا ہے۔ یہاں کی سرزمین نے صدیوں سے ہر عقیدے اور رنگ و نسل کے لوگوں کو اپنی آغوش میں سمویا ہے لیکن اب اسی سندھ کی زمین پر خون بہایا جا رہا ہے اور وہ بھی ان لوگوں کا جو امن، محبت اور رواداری کے خواب لے نکلے تھے۔
سندھ جوکبھی امن و آشتی کی علامت تھا۔ آج خون میں ڈوبا ہوا نظر آتا ہے لیکن کیا یہ وہ سندھ ہے جس کا خواب لعل شہباز قلندر، سچل سرمست اور شاہ عبداللطیف نے دیکھا تھا؟ نہیں یہ سندھ اس عظیم تہذیب کا آئینہ نہیں ہوسکتا جو دنیا کے مختلف حصوں سے آئے ہوئے لوگوں کو اپنے اندر سمو لیتا تھا۔
سندھ وہ زمین ہے جہاں ہر زبان، ہر مذہب اور ہر ثقافت کو قبول کیا گیا جہاں کے لوگ امن اور بھائی چارے کے علمبردار ہیں۔ سندھ کی تاریخ گواہ ہے کہ یہاں ہمیشہ سے اختلاف رائے کو برداشت کیا گیا۔ مذہبی انتہا پسندی کبھی اس دھرتی کی پہچان نہیں رہی۔ یہاں کے صوفیا نے مذہبی تعصبات کو رد کیا۔ انھوں نے انسانیت کو سب سے بڑا مذہب قرار دیا، لیکن آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ اسی سندھ کو مذہبی شدت پسندی کی آڑ میں نقصان پہنچانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
اس مارچ میں شرکت کرنے والے مختلف طبقوں سے تعلق رکھتے ہیں جن میں سماجی کارکنان، سیاسی رہنما، طلباء، مزدور اور کسان شامل ہیں۔ ان سب کا ایک ہی مقصد تھا سندھ کو انتہا پسندی سے بچانا اور اسے ایک بار پھر امن کا گہوارہ بنانا۔ مارچ میں خواتین، نوجوانوں اور بزرگوں کی شرکت نے اس تحریک کو مزید قوت دی ہے۔
کراچی پریس کلب کے سامنے ہونے والے واقعات نے انسانی حقوق کی پامالی اور پولیس کی بربریت کو بے نقاب کیا ہے۔ یہ واقعات ان مظاہرین کے خلاف سرکاری دباؤ کی علامت ہیں جو اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھا رہے تھے۔ پولیس کا رویہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ سندھ میں آزادی اظہار اور عوامی احتجاج کی جگہ محدود ہوتی جا رہی ہے، جو تشویشناک ہے۔
میں نے خود بارہا اپنے دوستوں کے ساتھ پریس کلب کے باہر احتجاجی دھرنوں میں شرکت کی ہے اور میں اس بات پہ یقین رکھتی ہوں کہ ظلم کے خلاف پر امن احتجاج ہونا چاہیے۔ اپنے قلم سے میں نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ ظلم اور جبر کے خلاف آواز اٹھائوں۔ ہم یا تو حق کے ساتھ ہو سکتے ہیں یا باطل کے ساتھ۔ یہ ہم پہ ہے کہ ہم کس طرف کھڑے ہیں۔
ڈاکٹر شاہنواز کا قتل ایک الگ سانحہ تھا جس نے سندھ کے عوام کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ ان کی موت نے پولیس اور حکومتی اداروں کے کردار پر سوالات اٹھائے ہیں۔ شاہنواز جیسے باشعور اور انسانی حقوق کے علمبردار کو اس طرح مار دینا سندھ کے امن پسند لوگوں کے لیے ایک بڑا صدمہ ہے۔
سندھ کی دھرتی ہمیشہ سے صوفیوں، اولیاء اور محبت کی زمین رہی ہے۔ یہاں کے عوام نے ہمیشہ مذہبی فرقہ واریت اور انتہا پسندی کو مسترد کیا ہے۔ رواداری مارچ بھی اسی پیغام کا تسلسل ہے کہ سندھ کے لوگ مذہب، فرقہ یا نسل کی بنیاد پر نفرت اور تقسیم کو برداشت نہیں کریں گے۔ سندھ کی عوام نے ایک بار پھر یہ پیغام دیا ہے کہ ان کی زمین امن، محبت اور بھائی چارے کی سرزمین ہے اور رہے گی۔
آج اس زمین پر گولیاں اور لاٹھیاں برسائی جا رہی ہیں۔ پریس کلب جیسے مقامات پر پولیس کا تشدد اور عوامی اجتماعات کو خون میں ڈبونا ایک جمہوری اور مہذب سماج کے لیے ناقابل قبول ہے۔ سندھ کی تاریخ ہمیں سکھاتی ہے کہ اختلاف رائے کا جواب تشدد سے نہیں دیا جاتا۔ جو طاقتیں یہ سمجھتی ہیں کہ وہ تشدد کے ذریعے سندھ کے لوگوں کی آواز کو دبا سکتی ہیں وہ ایسا سوچنے میں غلط ہیں۔