پاکستان کرکٹ کے ’’بگ تھری‘‘ کو ’’انا‘‘ کے خول سے نکل کر فیصلے کرنا ہوں گے
کئی بڑے ناموں کی موجودگی میں اختیارات کی جنگ نہ چھڑ جائے؟
90 کی دہائی کا ایک میچ ہے، چیونگم چباتے ہوئے وقار یونس نے اپنا طویل رن اپ مکمل کرنے کے بعد گیند پھینکی جو تیزی سے سوئنگ ہوئی، بیچارے بیٹسمین کو پتا ہی نہیں لگا اور وہ بیٹ کا کنارہ چھوتی ہوئی وکٹ کیپر معین خان کے گلوز میں محفوظ ہوگئی۔
دونوں کو مبارکباد دینے سب ہی کرکٹرز لپکے لیکن ان میں سب سے نمایاں مشتاق احمد تھے، اس دور میں بطور کھلاڑی کارنامے انجام دینے والے یہ تینوں اسٹارز اب2014 میں ''بگ تھری'' بن کر پاکستانی ٹیم کے ساتھ منسلک ہو گئے ہیں، وہ ملکی کرکٹ کا سنہری دور تھا مگر میچ فکسنگ اسکینڈلز بھی اسی زمانے میں سامنے آئے، معین خان اس وقت بلکہ ہمیشہ سے ''وسیم اکرم گروپ'' کا حصہ رہے، اسی لیے وقار یونس سے ان کی ماضی میں زیادہ نہیں بنتی تھی، اب کا علم نہیں مگربظاہر دونوں دوست ہیں، ان تینوں کے ساتھ مینجمنٹ میں سابق زمبابوین کرکٹر گرانٹ فلاور بطور بیٹنگ کوچ موجود ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کا تقرر مشتاق احمد کی سفارش پر اس وقت کرنے کا فیصلہ ہوا جب وہ خود بولنگ کوچ بھی مقرر نہیں ہوئے تھے، گرانٹ لیوڈن بطور فیلڈنگ کوچ پاکستانی ٹیم کے ساتھ منسلک ہوچکے، وہ ماضی میں بنگلہ دیش کے لیے بھی خدمات انجام دے چکے کس نے کیا تیر مارے، وہ سب جانتے ہیں، ویسے بھی جس ٹیم کی فیلڈنگ میں جونٹی رہوڈز بہتری نہیں لاسکے اس کے لیے لیوڈن سے بلند توقعات وابستہ کرنا جائز نہ ہو گا، لو پروفائل میں رہتے ہوئے خاموشی سے مینجمنٹ میں اپنی جڑیں گہری کرنے والے شاہد اسلم ہیڈ کوچ کے نائب ہیں، ان سب کے ساتھ سیکیورٹی منیجر، انالسٹ،فزیو تھراپسٹ اور مساجر بھی سری لنکا جا رہے ہیں۔
یوں 15 پلیئرز کا خیال رکھنے کے لیے 10 افراد کی ایک پوری ٹیم موجود ہو گی، اس لحاظ سے کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی 2 سائیڈز دورے پر جا رہی ہیں، وقار یونس خوش قسمت ہیں کہ انھیں بیٹنگ، بولنگ اور فیلڈنگ کے الگ کوچز مل گئے، سابق وکٹ کیپر معین خان ٹیم منیجر ہیں، ایسے میں اب ہیڈ کوچ کے لیے بولرز ہی بچے جنھیں وہ اپنے مفید مشوروں سے نواز سکیں گے۔ ٹیم میں اتنے بھاری بھرکم نام مسائل کا سبب بھی بن سکتے ہیں،اختیارات کی جنگ چھڑی تو اسے روکنا مشکل ہو جائے گا، مگر یہ سب پروفیشنل لوگ ہیں، امید ہے کہ ذاتی انا کو ٹیم پر حاوی نہیں ہونے دیں گے۔
وقار یونس کو ماضی میں پلیئرز خصوصاً اس وقت کے کپتان شاہد آفریدی سے خاصے مسائل تھے، اسی وجہ سے انھوں نے بیماری کا بہانہ بنا کر عہدہ چھوڑ دیا تھا، انھوں نے بعد میں آسٹریلیا میں کوچنگ کی جاب پانے کے لیے بیحد کوشش کی مگر ماضی کے بعض معاملات کے سبب ناکام رہے جس پر دوبارہ پاکستان کی یاد آئی اور اب ڈالرز کے بجائے 14 لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ و دیگرمراعات پر ہی خوش ہیں۔
وقار کے اب آفریدی سے تعلقات بھی بہتر ہو چکے، چند روز قبل میری آل رائونڈر سے بات ہو رہی تھی تو انھوں نے بتایا کہ ''جب میرا قومی ٹیم میں کم بیک ہوا اور آتے ہی عمدہ بولنگ کر کے مین آف دی میچ ایوارڈ حاصل کیا تو وقار یونس سے فورا معذرت کر لی تھی، بعد میں انھوں نے مجھ سے بھی سوری کہا تھا، میں صاف دل کا انسان ہوں، ماضی بھول چکا، اب مستقبل پر نظریں مرکوز ہیں، ابھی ایک دن پہلے بھی وقار یونس نے مجھے فون کیا اور ہمارے درمیان رسمی باتیں ہوئیں''
وقار یونس کو اب یہی دوستانہ رویہ اپنانا ہوگا، یہ ٹھیک ہے کہ انھوں نے ماضی میں بڑے کارنامے انجام دیے مگر اب وہ کھلاڑی نہیں کوچ ہیں، اسٹارز والی شان اپنائی تو پھر مشکل کا سامنا کرنا پڑے گا، سابقہ دور کوچنگ میں وقار کے مصباح الحق و دیگر سینئرز سے بھی تعلقات مثالی نہ تھے، چونکہ آفریدی لگی لپٹی رکھنے کے قائل نہیں اس لیے سامنے آ گئے، باقی سب اندر ہی اندر سلگتے رہے، اب بطور ہیڈ کوچ نئی اننگزشروع کرنے پر وقارکو مین مینجمنٹ کی صلاحیت کا بھی بھرپور اظہار کرنا ہوگا۔
کئی ملین روپے ماہانہ تنخواہیں پانے والی اس مینجنگ ٹیم کے لیے ایک واحد مسئلہ یہ ہے کہ ورلڈکپ قریب آ چکا، سونے پر سہاگہ کہ انعقاد آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں ہوگا، بنگلہ دیش کی سازگار کنڈیشنز میں ورلڈ ٹی 20 کے دوران گرین شرٹس کا جو حال ہوا اسے یقیناً کوئی فراموش نہیں کر پایا ہو گا، ایسے میں ون ڈے ایونٹ میں ٹیم سے عمدہ پرفارم کرانا ٹیم مینجمنٹ کے لیے بہت بڑا چیلنج ہے کیونکہ معاہدے 2 یا4 سال کے ہوں، ورلڈکپ میں اگر پرفارمنس اچھی نہ رہے تو عوامی غیظ و غضب سب کو اڑا کر لے جاتا ہے۔
پی سی بی نے اتنے افراد کی مینجمنٹ میں موجودگی پر دیگر ٹیموں کی مثالیں دیں، اگر ایسا ہے تو آسٹریلیا، سری لنکا اور جنوبی افریقہ وغیرہ سے کارکردگی کا بھی موازنہ کرنا چاہیے،ویسے بھی موجودہ بورڈ حکام کو زیادہ افراد کے تقرر کا شوق ہے، جیسے سلیکشن کمیٹیز بھی 10 افراد پر مشتمل ہیں، 6 افراد مل کر 3،4 سینئر پلیئرز کی قسمت کا فیصلہ کرتے ہیں، قارئین چونکیے نہیں دراصل 10،12 آٹومیٹک چوائس کھلاڑی تو آپ بھی چن سکتے ہیں، باقی 4افراد جونیئر کھلاڑیوں کے انتخاب کی ذمہ داری انجام دے رہے ہیں، ان میں سے بیشتر تنخواہ دار اور دیگر بھاری الائونسز سے حساب برابر کر رہے ہیں۔
انھوں نے جونیئر ٹیموں کے انتخاب میں میرٹ کا جو قتل عام کیا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے،اسی طرح بورڈ نے تھوک کے حساب سے سابق کرکٹرز کو ملازمتیں فراہم کر کے میڈیا کو مشکل کا شکار کر دیا ہے، اب کسی کو فون کر کے ملکی کرکٹ کے کسی ایشو پر بات کرنا چاہو تو بعض لوگ کہتے ہیں کہ '' بھائی کیوں میرے پیٹ پر لات مات رہے ہو، میں زیادہ پڑھا لکھا تو ہوں نہیں،اس عمر میں پی سی بی جیسی جاب کہاں ملتی، میڈیا سے بات نہیں کر سکتا'' حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ وہی پلیئرز کچھ عرصے قبل بورڈ کی ہر چیز میں خامیاں نکال رہے ہوتے تھے۔
شائد اب انھوں نے سمجھ لیا ہے کہ تنقید کر کے نمایاں ہو اور ملازمت پاؤ، ایک طرف پی سی بی مالی وسائل نہ ہونے کا رونا روتا ہے دوسری جانب اتنے زیادہ سفید ہاتھی بھی پالے ہوئے ہیں، نوکریاں خانساموں، ڈرائیورز اور مالیوں کی ختم ہوتی ہیں، دیگر لوگ عہدوں پر براجمان رہتے ہیں،کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں کچھ نہیں ہوتا مگر بھاری بھرکم اسٹاف موجود ہے، اسی طرح دیگر وینیوز کا بھی یہی حال ہے، کوئی پوچھنے کو تیار نہیں کہ آپ کس بات کی تنخواہ لے رہے ہیں، پی آئی اے کے بارے میں گذشتہ دنوں ایک خبر سامنے آئی کہ اس میں 50 فیصد ملازم اضافی ہیں، بورڈ میں تو یہ تعداد75 فیصد تک چلی جائے گی۔
چیئرمین نجم سیٹھی ابھی اس معاملے پر زیادہ توجہ نہیں دے رہے کیونکہ ان کی اپنی کرسی ہلی ہوئی ہے، گذشتہ کئی روز تک اسلام آباد میں ڈیرے ڈالنے کے بعد ان کی وزیر اعظم نواز شریف سے آخرکار ملاقات ہو ہی گئی، جنھوں نے بھرپور اعتماد کا اظہار کر دیا، اب دیکھنا یہ ہے کہ پیر کو عدالت کا کیا فیصلہ سامنے آتا ہے۔
پی سی بی نے سینٹرل کنٹریکٹ کے بحران سے نکل کر اب سکھ کا سانس لیا ہے، گذشتہ دنوں اس حوالے سے بڑا تنازع اٹھتے رہ گیا تھا،پہلے معین خان و دیگر نے یونس کو بی کیٹیگری دے کر میڈیا کو تنقید کا موقع دیا، یہ مسئلہ نجم سیٹھی نے انتہائی دانشمندی سے حل کیا ورنہ سینئر بیٹسمین تو بغیر معاہدہ سائن کیے کھیلنے کا ذہن بنا چکے تھے، بورڈ اس کی اجازت نہیں دیتا، یوں سنگین بحران سامنے آتا، سینٹرل کنٹریکٹ کے حوالے سے گذشتہ دنوں محمد حفیظ نے مجھے فون کر کے شکوہ کیا کہ ''میں نے اپنے مضمون میں لکھا کہ وہ پلیئرز کو معاہدوں پر دستخط نہ کرنے پر اکسا رہے ہیں یہ تاثر درست نہیں ہے''۔ میں نے ان کا نقطہ نظر پیش کر دیا یقینا اب حفیظ کو کوئی شکایت نہیں رہے گی۔
کنٹریکٹ میں پلیئرز میچ ون بونس ختم کرنے پر تلملا رہے تھے، انھوں نے چیئرمین کی آسٹریلیا سے واپسی پر اس حوالے سے میٹنگ کی تو پھر آئی سی سی اور اے سی سی ایونٹس کا میچ ون بونس بحال ہو گیا، یوں کھلاڑیوں کی کچھ تسلی ہوئی تو معاہدے پر دستخط کر دیے، اس حوالے سے میٹنگ میں مصباح الحق، محمد حفیظ اور اظہر علی شریک ہوئے تھے، اظہر کو مصباح وزیر خزانہ سے ملاقات میں بھی ساتھ لے کر گئے جہاں انھوں نے انکم ٹیکس کے بعض معاملات کا رونا رویا، نوجوان بیٹسمین کے لیے یہی مشورہ ہے کہ وہ ان چکروں میں پڑنے کے بجائے اپنی کرکٹ پر توجہ دیں کیونکہ مستقبل میں ان جیسے پلیئرز کو ہی ٹیم سنبھالی ہے۔
پاکستانی ٹیم کے لیے ایک اچھی خبر یہ ہے کہ اگلے فیوچر ٹور پروگرام میں اسے بے تحاشا میچز کھیلنے کا موقع ملے گا، اس کا کریڈٹ بہرحال نجم سیٹھی کو دینا ہی چاہیے، ایف ٹی پی کے حوالے سے جب میں نے ''ایکسپریس'' میں خبر دی تو بورڈ خوش نہ ہوا،خود چیئرمین پی سی بی نے مجھ سے فون پر پوچھا کہ '' یہ خبر کہاں سے نکالی، باقی میڈیا ہمارے پیچھے پڑ گیا ہے، یہ بطور صحافی تو آپ کی بڑی کامیابی ہے مگر ہم چاہتے تھے کہ خود اس کا اعلان کرتے، کس نے اسے لیک کیا یہ جاننے کے لیے ہم نے انکوائری شروع کرا دی ہے''۔
کئی ماہ تک آرام کرنے کے بعد پاکستانی کرکٹ ٹیم اب چند روز بعد سری لنکا جانے والی ہے، ون ڈے اسکواڈ میں یونس خان کو بھی شامل کرلیا گیا، یہ فیصلہ کسی صورت درست قرار دیا نہیں جا سکتا، دنیا آگے بڑھ رہی ہے اور ہم اب بھی ماضی کی جانب دیکھ رہے ہیں، یونس کا ون ڈے ریکارڈ متاثر کن مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ گذشتہ 6 برس سے وہ کوئی سنچری نہیں بنا سکے، آخری ففٹی کو بھی 6،7 میچز گزر چکے، ٹیم میں ویسے ہی مصباح الحق جیسے محتاط انداز سے کھیلنے والے بیٹسمین موجود ہیں، اب یونس کی واپسی سے لوئر آرڈر پر رن ریٹ بڑھانے کے لیے دباؤ بڑھ جائے گا۔
یہ نوجوان بیٹسمینوں صہیب مقصود اور فواد عالم کے ساتھ بھی ناانصافی ہے جو اچھی پرفارمنس سے ٹیم میں قدم مضبوط کر رہے تھے کہ سر پر تلوار لٹکا دی گئی، اطلاعات کے مطابق سلیکشن کمیٹی کی منتخب شدہ ٹیم میں یونس خان موجود نہیں تھے مگر چیئرمین نجم سیٹھی نے انھیں شامل کرایا، اس طرح معین خان کو سینٹرل کنٹریکٹ کے بعد دوسری بار سبکی کا سامنا کرنا پڑا، یونس نے بھی واپسی پر چیئرمین بورڈ کا شکریہ ادا کر کے تصدیق کر دی کہ انھیں ون ڈے ٹیم میں شامل کرنے میں سلیکٹرز کا کوئی کردار نہیں ہے، اب معین بطور منیجر ٹیم کے ساتھ جا رہے ہیں، ایسے میں یونس سے خوشگوار تعلقات رکھنا ان کے لیے چیلنج ہو گا۔
آخر میں کچھ ذکر فیصل اقبال کا کردوں، ان کے لیے جاوید میانداد کا بھانجا ہونا جرم بن گیا، سابق کپتان سے بعض لوگ بغض رکھتے ہیں، انھوں نے فیصل کو اسکواڈ میں ہونے کے باوجود کئی سال کھیلنے نہیں دیا، پھر یہ کہہ کر سینٹرل کنٹریکٹ سے باہر کر دیا گیا کہ وہ تو کھیل ہی نہیں رہا تو پیسے کیوں دیں؟
حالانکہ سوچنے کی بات ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی اہلیت پر ملازمت حاصل کرے مگر اس کا باس کام ہی نہ لے، پھر یہ کہا جائے کہ یہ کچھ نہیں کرتا تنخواہ کیوں دیں، یہ تو بالکل بے جواز بات ہے، فیصل ڈومیسٹک سیزن میں عمدہ پرفارمنس کے باوجود اب ٹیسٹ اسکواڈ سے بھی دور ہیں، مصباح اپنے دل میں اظہر علی کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں، انھوں نے فیصل کو پلیئنگ الیون میں شامل نہیں ہونے دیا، اب نجانے ان کا کب کم بیک ہو گا، میانداد سے سب ڈرتے ہیں اس لیے بطور ڈائریکٹر جنرل پی سی بی عہدہ چھوڑنے کے بعد قیمتی کار تک قانون بدل کر کم قیمت پر دے دی، فیصل چونکہ کمزور ہے اس لیے ناانصافیاں کی جا رہی ہیں۔
پاکستانی ٹیم کا طویل سیزن اب شروع ہونے والا ہے، ورلڈ ٹوئنٹی 20 میں ناقص کارکردگی کے بعد اب پلیئرز کو فتح کی راہ پر گامزن ہونا ہو گا، ورلڈکپ بھی قریب آ چکا، اسکواڈکے پاس خامیاں دور کرنے کے لیے اب تھوڑا ہی وقت بچا ہے۔
skhaliq@express.com.pm
دونوں کو مبارکباد دینے سب ہی کرکٹرز لپکے لیکن ان میں سب سے نمایاں مشتاق احمد تھے، اس دور میں بطور کھلاڑی کارنامے انجام دینے والے یہ تینوں اسٹارز اب2014 میں ''بگ تھری'' بن کر پاکستانی ٹیم کے ساتھ منسلک ہو گئے ہیں، وہ ملکی کرکٹ کا سنہری دور تھا مگر میچ فکسنگ اسکینڈلز بھی اسی زمانے میں سامنے آئے، معین خان اس وقت بلکہ ہمیشہ سے ''وسیم اکرم گروپ'' کا حصہ رہے، اسی لیے وقار یونس سے ان کی ماضی میں زیادہ نہیں بنتی تھی، اب کا علم نہیں مگربظاہر دونوں دوست ہیں، ان تینوں کے ساتھ مینجمنٹ میں سابق زمبابوین کرکٹر گرانٹ فلاور بطور بیٹنگ کوچ موجود ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کا تقرر مشتاق احمد کی سفارش پر اس وقت کرنے کا فیصلہ ہوا جب وہ خود بولنگ کوچ بھی مقرر نہیں ہوئے تھے، گرانٹ لیوڈن بطور فیلڈنگ کوچ پاکستانی ٹیم کے ساتھ منسلک ہوچکے، وہ ماضی میں بنگلہ دیش کے لیے بھی خدمات انجام دے چکے کس نے کیا تیر مارے، وہ سب جانتے ہیں، ویسے بھی جس ٹیم کی فیلڈنگ میں جونٹی رہوڈز بہتری نہیں لاسکے اس کے لیے لیوڈن سے بلند توقعات وابستہ کرنا جائز نہ ہو گا، لو پروفائل میں رہتے ہوئے خاموشی سے مینجمنٹ میں اپنی جڑیں گہری کرنے والے شاہد اسلم ہیڈ کوچ کے نائب ہیں، ان سب کے ساتھ سیکیورٹی منیجر، انالسٹ،فزیو تھراپسٹ اور مساجر بھی سری لنکا جا رہے ہیں۔
یوں 15 پلیئرز کا خیال رکھنے کے لیے 10 افراد کی ایک پوری ٹیم موجود ہو گی، اس لحاظ سے کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی 2 سائیڈز دورے پر جا رہی ہیں، وقار یونس خوش قسمت ہیں کہ انھیں بیٹنگ، بولنگ اور فیلڈنگ کے الگ کوچز مل گئے، سابق وکٹ کیپر معین خان ٹیم منیجر ہیں، ایسے میں اب ہیڈ کوچ کے لیے بولرز ہی بچے جنھیں وہ اپنے مفید مشوروں سے نواز سکیں گے۔ ٹیم میں اتنے بھاری بھرکم نام مسائل کا سبب بھی بن سکتے ہیں،اختیارات کی جنگ چھڑی تو اسے روکنا مشکل ہو جائے گا، مگر یہ سب پروفیشنل لوگ ہیں، امید ہے کہ ذاتی انا کو ٹیم پر حاوی نہیں ہونے دیں گے۔
وقار یونس کو ماضی میں پلیئرز خصوصاً اس وقت کے کپتان شاہد آفریدی سے خاصے مسائل تھے، اسی وجہ سے انھوں نے بیماری کا بہانہ بنا کر عہدہ چھوڑ دیا تھا، انھوں نے بعد میں آسٹریلیا میں کوچنگ کی جاب پانے کے لیے بیحد کوشش کی مگر ماضی کے بعض معاملات کے سبب ناکام رہے جس پر دوبارہ پاکستان کی یاد آئی اور اب ڈالرز کے بجائے 14 لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ و دیگرمراعات پر ہی خوش ہیں۔
وقار کے اب آفریدی سے تعلقات بھی بہتر ہو چکے، چند روز قبل میری آل رائونڈر سے بات ہو رہی تھی تو انھوں نے بتایا کہ ''جب میرا قومی ٹیم میں کم بیک ہوا اور آتے ہی عمدہ بولنگ کر کے مین آف دی میچ ایوارڈ حاصل کیا تو وقار یونس سے فورا معذرت کر لی تھی، بعد میں انھوں نے مجھ سے بھی سوری کہا تھا، میں صاف دل کا انسان ہوں، ماضی بھول چکا، اب مستقبل پر نظریں مرکوز ہیں، ابھی ایک دن پہلے بھی وقار یونس نے مجھے فون کیا اور ہمارے درمیان رسمی باتیں ہوئیں''
وقار یونس کو اب یہی دوستانہ رویہ اپنانا ہوگا، یہ ٹھیک ہے کہ انھوں نے ماضی میں بڑے کارنامے انجام دیے مگر اب وہ کھلاڑی نہیں کوچ ہیں، اسٹارز والی شان اپنائی تو پھر مشکل کا سامنا کرنا پڑے گا، سابقہ دور کوچنگ میں وقار کے مصباح الحق و دیگر سینئرز سے بھی تعلقات مثالی نہ تھے، چونکہ آفریدی لگی لپٹی رکھنے کے قائل نہیں اس لیے سامنے آ گئے، باقی سب اندر ہی اندر سلگتے رہے، اب بطور ہیڈ کوچ نئی اننگزشروع کرنے پر وقارکو مین مینجمنٹ کی صلاحیت کا بھی بھرپور اظہار کرنا ہوگا۔
کئی ملین روپے ماہانہ تنخواہیں پانے والی اس مینجنگ ٹیم کے لیے ایک واحد مسئلہ یہ ہے کہ ورلڈکپ قریب آ چکا، سونے پر سہاگہ کہ انعقاد آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں ہوگا، بنگلہ دیش کی سازگار کنڈیشنز میں ورلڈ ٹی 20 کے دوران گرین شرٹس کا جو حال ہوا اسے یقیناً کوئی فراموش نہیں کر پایا ہو گا، ایسے میں ون ڈے ایونٹ میں ٹیم سے عمدہ پرفارم کرانا ٹیم مینجمنٹ کے لیے بہت بڑا چیلنج ہے کیونکہ معاہدے 2 یا4 سال کے ہوں، ورلڈکپ میں اگر پرفارمنس اچھی نہ رہے تو عوامی غیظ و غضب سب کو اڑا کر لے جاتا ہے۔
پی سی بی نے اتنے افراد کی مینجمنٹ میں موجودگی پر دیگر ٹیموں کی مثالیں دیں، اگر ایسا ہے تو آسٹریلیا، سری لنکا اور جنوبی افریقہ وغیرہ سے کارکردگی کا بھی موازنہ کرنا چاہیے،ویسے بھی موجودہ بورڈ حکام کو زیادہ افراد کے تقرر کا شوق ہے، جیسے سلیکشن کمیٹیز بھی 10 افراد پر مشتمل ہیں، 6 افراد مل کر 3،4 سینئر پلیئرز کی قسمت کا فیصلہ کرتے ہیں، قارئین چونکیے نہیں دراصل 10،12 آٹومیٹک چوائس کھلاڑی تو آپ بھی چن سکتے ہیں، باقی 4افراد جونیئر کھلاڑیوں کے انتخاب کی ذمہ داری انجام دے رہے ہیں، ان میں سے بیشتر تنخواہ دار اور دیگر بھاری الائونسز سے حساب برابر کر رہے ہیں۔
انھوں نے جونیئر ٹیموں کے انتخاب میں میرٹ کا جو قتل عام کیا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے،اسی طرح بورڈ نے تھوک کے حساب سے سابق کرکٹرز کو ملازمتیں فراہم کر کے میڈیا کو مشکل کا شکار کر دیا ہے، اب کسی کو فون کر کے ملکی کرکٹ کے کسی ایشو پر بات کرنا چاہو تو بعض لوگ کہتے ہیں کہ '' بھائی کیوں میرے پیٹ پر لات مات رہے ہو، میں زیادہ پڑھا لکھا تو ہوں نہیں،اس عمر میں پی سی بی جیسی جاب کہاں ملتی، میڈیا سے بات نہیں کر سکتا'' حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ وہی پلیئرز کچھ عرصے قبل بورڈ کی ہر چیز میں خامیاں نکال رہے ہوتے تھے۔
شائد اب انھوں نے سمجھ لیا ہے کہ تنقید کر کے نمایاں ہو اور ملازمت پاؤ، ایک طرف پی سی بی مالی وسائل نہ ہونے کا رونا روتا ہے دوسری جانب اتنے زیادہ سفید ہاتھی بھی پالے ہوئے ہیں، نوکریاں خانساموں، ڈرائیورز اور مالیوں کی ختم ہوتی ہیں، دیگر لوگ عہدوں پر براجمان رہتے ہیں،کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں کچھ نہیں ہوتا مگر بھاری بھرکم اسٹاف موجود ہے، اسی طرح دیگر وینیوز کا بھی یہی حال ہے، کوئی پوچھنے کو تیار نہیں کہ آپ کس بات کی تنخواہ لے رہے ہیں، پی آئی اے کے بارے میں گذشتہ دنوں ایک خبر سامنے آئی کہ اس میں 50 فیصد ملازم اضافی ہیں، بورڈ میں تو یہ تعداد75 فیصد تک چلی جائے گی۔
چیئرمین نجم سیٹھی ابھی اس معاملے پر زیادہ توجہ نہیں دے رہے کیونکہ ان کی اپنی کرسی ہلی ہوئی ہے، گذشتہ کئی روز تک اسلام آباد میں ڈیرے ڈالنے کے بعد ان کی وزیر اعظم نواز شریف سے آخرکار ملاقات ہو ہی گئی، جنھوں نے بھرپور اعتماد کا اظہار کر دیا، اب دیکھنا یہ ہے کہ پیر کو عدالت کا کیا فیصلہ سامنے آتا ہے۔
پی سی بی نے سینٹرل کنٹریکٹ کے بحران سے نکل کر اب سکھ کا سانس لیا ہے، گذشتہ دنوں اس حوالے سے بڑا تنازع اٹھتے رہ گیا تھا،پہلے معین خان و دیگر نے یونس کو بی کیٹیگری دے کر میڈیا کو تنقید کا موقع دیا، یہ مسئلہ نجم سیٹھی نے انتہائی دانشمندی سے حل کیا ورنہ سینئر بیٹسمین تو بغیر معاہدہ سائن کیے کھیلنے کا ذہن بنا چکے تھے، بورڈ اس کی اجازت نہیں دیتا، یوں سنگین بحران سامنے آتا، سینٹرل کنٹریکٹ کے حوالے سے گذشتہ دنوں محمد حفیظ نے مجھے فون کر کے شکوہ کیا کہ ''میں نے اپنے مضمون میں لکھا کہ وہ پلیئرز کو معاہدوں پر دستخط نہ کرنے پر اکسا رہے ہیں یہ تاثر درست نہیں ہے''۔ میں نے ان کا نقطہ نظر پیش کر دیا یقینا اب حفیظ کو کوئی شکایت نہیں رہے گی۔
کنٹریکٹ میں پلیئرز میچ ون بونس ختم کرنے پر تلملا رہے تھے، انھوں نے چیئرمین کی آسٹریلیا سے واپسی پر اس حوالے سے میٹنگ کی تو پھر آئی سی سی اور اے سی سی ایونٹس کا میچ ون بونس بحال ہو گیا، یوں کھلاڑیوں کی کچھ تسلی ہوئی تو معاہدے پر دستخط کر دیے، اس حوالے سے میٹنگ میں مصباح الحق، محمد حفیظ اور اظہر علی شریک ہوئے تھے، اظہر کو مصباح وزیر خزانہ سے ملاقات میں بھی ساتھ لے کر گئے جہاں انھوں نے انکم ٹیکس کے بعض معاملات کا رونا رویا، نوجوان بیٹسمین کے لیے یہی مشورہ ہے کہ وہ ان چکروں میں پڑنے کے بجائے اپنی کرکٹ پر توجہ دیں کیونکہ مستقبل میں ان جیسے پلیئرز کو ہی ٹیم سنبھالی ہے۔
پاکستانی ٹیم کے لیے ایک اچھی خبر یہ ہے کہ اگلے فیوچر ٹور پروگرام میں اسے بے تحاشا میچز کھیلنے کا موقع ملے گا، اس کا کریڈٹ بہرحال نجم سیٹھی کو دینا ہی چاہیے، ایف ٹی پی کے حوالے سے جب میں نے ''ایکسپریس'' میں خبر دی تو بورڈ خوش نہ ہوا،خود چیئرمین پی سی بی نے مجھ سے فون پر پوچھا کہ '' یہ خبر کہاں سے نکالی، باقی میڈیا ہمارے پیچھے پڑ گیا ہے، یہ بطور صحافی تو آپ کی بڑی کامیابی ہے مگر ہم چاہتے تھے کہ خود اس کا اعلان کرتے، کس نے اسے لیک کیا یہ جاننے کے لیے ہم نے انکوائری شروع کرا دی ہے''۔
کئی ماہ تک آرام کرنے کے بعد پاکستانی کرکٹ ٹیم اب چند روز بعد سری لنکا جانے والی ہے، ون ڈے اسکواڈ میں یونس خان کو بھی شامل کرلیا گیا، یہ فیصلہ کسی صورت درست قرار دیا نہیں جا سکتا، دنیا آگے بڑھ رہی ہے اور ہم اب بھی ماضی کی جانب دیکھ رہے ہیں، یونس کا ون ڈے ریکارڈ متاثر کن مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ گذشتہ 6 برس سے وہ کوئی سنچری نہیں بنا سکے، آخری ففٹی کو بھی 6،7 میچز گزر چکے، ٹیم میں ویسے ہی مصباح الحق جیسے محتاط انداز سے کھیلنے والے بیٹسمین موجود ہیں، اب یونس کی واپسی سے لوئر آرڈر پر رن ریٹ بڑھانے کے لیے دباؤ بڑھ جائے گا۔
یہ نوجوان بیٹسمینوں صہیب مقصود اور فواد عالم کے ساتھ بھی ناانصافی ہے جو اچھی پرفارمنس سے ٹیم میں قدم مضبوط کر رہے تھے کہ سر پر تلوار لٹکا دی گئی، اطلاعات کے مطابق سلیکشن کمیٹی کی منتخب شدہ ٹیم میں یونس خان موجود نہیں تھے مگر چیئرمین نجم سیٹھی نے انھیں شامل کرایا، اس طرح معین خان کو سینٹرل کنٹریکٹ کے بعد دوسری بار سبکی کا سامنا کرنا پڑا، یونس نے بھی واپسی پر چیئرمین بورڈ کا شکریہ ادا کر کے تصدیق کر دی کہ انھیں ون ڈے ٹیم میں شامل کرنے میں سلیکٹرز کا کوئی کردار نہیں ہے، اب معین بطور منیجر ٹیم کے ساتھ جا رہے ہیں، ایسے میں یونس سے خوشگوار تعلقات رکھنا ان کے لیے چیلنج ہو گا۔
آخر میں کچھ ذکر فیصل اقبال کا کردوں، ان کے لیے جاوید میانداد کا بھانجا ہونا جرم بن گیا، سابق کپتان سے بعض لوگ بغض رکھتے ہیں، انھوں نے فیصل کو اسکواڈ میں ہونے کے باوجود کئی سال کھیلنے نہیں دیا، پھر یہ کہہ کر سینٹرل کنٹریکٹ سے باہر کر دیا گیا کہ وہ تو کھیل ہی نہیں رہا تو پیسے کیوں دیں؟
حالانکہ سوچنے کی بات ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی اہلیت پر ملازمت حاصل کرے مگر اس کا باس کام ہی نہ لے، پھر یہ کہا جائے کہ یہ کچھ نہیں کرتا تنخواہ کیوں دیں، یہ تو بالکل بے جواز بات ہے، فیصل ڈومیسٹک سیزن میں عمدہ پرفارمنس کے باوجود اب ٹیسٹ اسکواڈ سے بھی دور ہیں، مصباح اپنے دل میں اظہر علی کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں، انھوں نے فیصل کو پلیئنگ الیون میں شامل نہیں ہونے دیا، اب نجانے ان کا کب کم بیک ہو گا، میانداد سے سب ڈرتے ہیں اس لیے بطور ڈائریکٹر جنرل پی سی بی عہدہ چھوڑنے کے بعد قیمتی کار تک قانون بدل کر کم قیمت پر دے دی، فیصل چونکہ کمزور ہے اس لیے ناانصافیاں کی جا رہی ہیں۔
پاکستانی ٹیم کا طویل سیزن اب شروع ہونے والا ہے، ورلڈ ٹوئنٹی 20 میں ناقص کارکردگی کے بعد اب پلیئرز کو فتح کی راہ پر گامزن ہونا ہو گا، ورلڈکپ بھی قریب آ چکا، اسکواڈکے پاس خامیاں دور کرنے کے لیے اب تھوڑا ہی وقت بچا ہے۔
skhaliq@express.com.pm