حکام کی عدم توجہی سے ایجوکیشن کالجوں میں اکیڈمک معیارات متاثر

مسائل کے سبب ایجوکیشن کالجوں کا معیار دن بدن گر رہا ہے اور وہاں طلبہ کا ڈراپ آؤٹ مسلسل بڑھ رہا ہے

صرف امتحان میں کام یابی کے خیال نے ہمارے تعلیمی نظام کو نہایت تشویش ناک صورت حال سے دوچار کیا ہے۔ فوٹو : فائل

کراچی:

حکام کی عدم توجہی کے سبب کراچی میں سرکاری سطح پر قائم ایجوکیشن کالجز میں اکیڈمک صورتحال انتہائی مخدوش ہوچکی ہے جس کے سبب بی ایڈ میں کوالٹی گریجویشن ابتری کا شکار ہو رہی ہے۔

پرانا نصاب، غیر متعلقہ اور غیر تربیت یافتہ اساتذہ کی ایجوکیشن کالجوں میں تعیناتی، ایجوکیشن سے متعلق مضامین کے اساتذہ کی کالجوں میں شدید کمی اور فرسودہ داخلہ پالیسی سمیت دیگر چند ایسے عوامل ہیں جن کے سبب ایجوکیشن کالجوں کا معیار دن بدن گر رہا ہے اور وہاں طلبہ کا ڈراپ آؤٹ مسلسل بڑھ رہا ہے۔

مذکورہ صورتحال ایسے کالجوں میں ہے جہاں سے فارغ التحصیل افراد کو پرائمری اور سیکنڈری اسکولوں میں تدریسی ذمے داریاں ادا کرنا ہوتی ہیں۔

واضح رہے کہ کچھ برس قبل جب سندھ میں محکمہ تعلیم کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے اسکول ایجوکیشن اور کالج ایجوکیشن کے علیحدہ علیحدہ محکمے قائم کیے گئے تھے تو ایجوکیشن کالجوں کا انتظام محکمہ کالج ایجوکیشن کے سپرد کر دیا گیا تھا تاہم محکمہ کالج ایجوکیشن نے ان کالجوں کو عملی طور پر اپنایا ہی نہیں، ان کالجوں سے محکمے کا ایک رسمی تعلق ہے جس میں ٹرانسفر/پوسٹنگ اور بجٹ کے معاملات شامل ہیں۔

بتایا جا رہا ہے کہ جو مسائل ایجوکیشن کالجوں کی growth میں حائل ہیں اور ان مسائل کے سبب یہاں کا تعلیمی معیار یا ایجوکیشن اسٹینڈر compromise ہو رہا ہے کیونکہ جب سے بی ایڈ چار سالہ ڈگری پروگرام میں تبدیل ہوا ہے اس میں مضامین کی تعداد بڑھ کر 50 کے قریب ہو چکی ہے جس میں سے اکثر مضامین ’’کور سبجیکٹ‘‘ ہیں جو ڈگری سے تعلق رکھتے ہیں تاہم ان کو پڑھانے کے لیے کالجوں میں اساتذہ کی تعداد انتہائی محدود ہے اور ایک ایک استاد کے پاس کئی کئی مضامین کا ورک لوڈ ہے یا پھر کور سبجیکٹ عمومی مضامین ’’جنرل سبجیکٹ‘‘ کے اساتذہ کے ذریعے پڑھوائے جاتے ہیں۔

ادھر ’’ایکسپریس‘‘ کو معلوم ہوا ہے کہ ان چیلنجز یا مشکلات کے حوالے سے ایک رپورٹ بھی تیار کی گئی ہے جسے سیکریٹری کالج ایجوکیشن کے دفتر میں جمع کرایا گیا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق ایجوکیشن کالجوں کی ویجلنس اور مانیٹرنگ نہ ہونے کے سبب بھی ان اداروں میں اکیڈمک مسائل شدت اختیار کر رہے ہیں۔ یہ رپورٹ حال ہی میں گورنمنٹ ایجوکیشن کالج ملیر (جامعہ ملیہ) کے ریٹائر ہونے والے پرنسپل پروفیسرم حمد ذکاء اللہ جانب سے تیار کی گئی ہے۔

ایکسپریس نے جب حال ہی میں ریٹائر ہونے والے گورنمنٹ ایجوکیشن کالج ملیر کے سابق پرنسپل ذکاء اللہ سے رابطہ کیا تو انھوں نے ایجوکیشن کالجوں میں مذکورہ مسائل کی تصدیق کی اور بتایا کہ ’’وہ جب تک اس کالج کے پرنسپل رہے انھوں نے کئی طرح کے اکیڈمک ایشوز کا جائزہ لیا جس میں اہم ترین مسائل میں متعلقہ کور مضامین کے اساتذہ کی انتہائی محدود تعداد میں تعیناتی بھی ہے۔ ان کے اپنے کالج میں صرف 3ایسے اساتذہ تعینات ہیں جن کا تعلق ایجوکیشن کے مضامین سے ہے، باقی عمومی مضامین کے اساتذہ ہیں جو یہ مضامین پڑھا رہے ہیں۔

انھوں نے مزید ایک معاملے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ ہم طلبہ کو یہ بتا رہے ہیں کہ اسکولوں میں جا کر کس طرح پڑھانا ہے یا تدریس کرنی ہے جبکہ جو یہ بتا رہے ہیں انھوں نے نہ خود کبھی اسکولوں میں پڑھایا ہے اور نہ ہی وہ تدریس کے اسلوب سے کسی خاص حد تک آگاہ ہیں۔‘‘

علاوہ ازیں، بی ایڈ پروگرام میں داخلہ لینے والے طلبہ کا ڈراپ آؤٹ ریشو بھی مسلسل بڑھ رہا ہے اور ایک اندازے کے مطابق کالجوں میں داخلہ لینے والے طلبہ میں سے 50فیصد بھی ڈگری مکمل نہیں کر پاتے اور تعلیم ادھوری چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ بی ایڈ میں داخلہ لینے والے طلبہ میں 90فیصد سے زائد تعداد طالبات کی ہی ہوتی ہے جو مختلف وجوہات کی بنا پر اپنی تعلیم مکمل نہیں کرتی۔

واضح رہے کہ یہ دو طرح کی ڈگری ہے اور ایک چار سالہ پروگرام ہے جس میں انٹرمیڈیٹ کے بعد داخلے دیے جاتے ہیں جبکہ دوسرا ڈھائی سالہ پروگرام جس میں دو سالہ گریجویشن (بی کام، بی اے یابی ایس سی) کرکے آنے والے طلبہ داخلے لیتے ہیں۔

اس معاملے پر جب ’’ایکسپریس‘‘ نے پروفیسر ذکاء اللہ سے رائے لی تو ان کا کہنا تھا کہ ’’جامعہ کراچی کے داخلے ختم ہونے کے بعد ایجوکیشن کالجوں میں داخلے شروع ہوتے ہیں جو طلبہ جامعہ کراچی اور دیگر جامعات میں داخلے سے محروم رہ جاتے ہیں وہ یہاں آتے ہیں، ان میں سے اکثر وہ ہوتے ہیں جو بحالت مجبوری اپنی شناخت کے ساتھ گریجویشن کی مہر لگوانے کے لیے ان کالجوں میں آجاتے ہیں اور بعد ازاں تعلیم ادھوری چھوڑ کر چلے جاتے ہیں، شوق سے آنے والوں کی تعداد کم ہی ہوتی ہے۔

پروفیسر ذکاء اللہ نے واضح کیا کہ سن 2012 کے بعد سے اب تک نصاب تبدیل نہیں ہوا ہے اور پرانا نصاب پڑھایا جا رہا ہے، کئی مضامین ایسے ہیں جو اب نصاب میں شامل نہیں رہنے چاہیے اور ان کی جگہ نئے مضامین کو لینی چاہیے تاہم ایسا نہیں ہو رہا لہٰذا اسی معاملے پر ایک رپورٹ سیکریٹری کالج ایجوکیشن کے دفترمیں جمع کرائی تھی تاہم سیکریٹری ایجوکیشن صدف شیخ کا تبادلہ ہوگیا جس کے بعد مجھے علم نہیں کہ نئے آنے والے سیکریٹری ان ایشوز سے آگاہ بھی ہو سکے ہیں یا نہیں۔‘‘

علاوہ ازیں، جب ایجوکیشن کالجوں کے معاملے پر قائم مقام ڈائریکٹر کالجز سندھ زاہد راجپر سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’’ہم نے سیکریٹری کالج ایجوکیشن کی ہدایت کے مطابق اساتذہ کی ریشنلائزیشن پر کام شروع کر دیا ہے ان کالجوں میں امپروومنٹ کی گنجائش ہے اور ہم یہاں متعلقہ فیکلٹی لانے کی کوشش بھی کر رہے ہیں ہم تو یہ بھی کوشش کر رہے ہیں۔ کالج آف ایجوکیشن کو اکیڈمی کا درجہ دیا جائے اس کی اَپ گریڈیشن کی جائے اور یہاں پر اساتذہ کی تربیت شروع کرائی جا سکے، ان کالجوں میں بہت جلد بہتری آئے گی۔‘‘

واضح رہے کہ اس ڈگری کے ٹائٹل کے حوالے سے بھی عمومی طورپر لوگ confusion کا شکار رہتے ہیں، بی ایڈ آنرز چار سالہ پروگرام کو (ایلیمنٹری) دو سالہ گریجویشن کے بعد داخلہ لینے کی صورت میں بی ایڈ ڈھائی سالہ پروگرام کو (سیکنڈری) کہا جاتا ہے جس سے یہ تاثر جاتا ہے کہ شاید چار سالہ پروگرام ایلیمنٹری ٹیچنگ اور ڈھائی سالہ پروگرام سیکنڈری ٹیچنگ کے لیے مختص ہے جبکہ یہ محض پروگرام کے ٹائٹلز ہیں۔

ادھر گورنمنٹ ایجوکیشن کالج فیڈرل بی ایریا کے پرنسپل پروفیسر نوید رب سے بھی اس سلسلے میں رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’’ان کے کالج میں صورتحال بہت زیادہ گھمبیر تو نہیں ہے لیکن یہاں بھی اکیڈمکس میں کچھ چیلنجز ضرور ہیں اور کور سبجیکٹ کے اساتذہ کی کمی ان کے کالج میں بھی ہے، بہتر یہ ہوگا کہ بی ایڈ وہ اساتذہ تدریس کریں جنھوں نے خود بی ایڈ کر رکھا ہوتا ہے، ہمارے کالج میں ایسے اساتذہ کی بھی کمی ہے۔‘‘

ڈراپ آؤٹ کے کیے گئے سوال پر پروفیسر نوید رب کا کہنا تھا کہ چونکہ اب چار سالہ اور ڈھائی سالہ پروگرام سمسٹر سسٹم کے تحت چل رہا ہے لہٰذا جب طلبہ کا پرچوں میں فیل ہونے کے بعد ’’ایئر بیک‘‘ لگتا ہے تو وہ حوصلہ ہار جاتے ہیں اور ڈراپ ہو جاتے ہیں یہ مسئلہ ہمیں بھی درپیش ہے۔‘‘

ادھر واضح رہے کہ خبر کی اشاعت تک ایجوکیشن کالج فیڈرل بی ایریا کے پرنسپل پروفیسر نوید رب ڈائریکٹر جنرل کالجز سندھ تعینات کر دیے گئے ہیں۔

Load Next Story