بیمار کھیلوں کو کسی حقیقی مسیحا کی تلاش

عہدیداروں کی رسہ کشی تباہ کن، کھلاڑیوں کی قدر کرنا ہوگی


Mian Asghar Saleemi July 21, 2014
عہدیداروں کی رسہ کشی تباہ کن، کھلاڑیوں کی قدر کرنا ہوگی۔ فوٹو: فائل

فٹبال ورلڈکپ اختتام پذیر ہو چکا، ہٹلر کے دیس کی ٹیم نے میگا ایونٹ میں کیا کھیل پیش کیا کہ دنیا اب تک کھلاڑیوں کی غیر معمولی کارکردگی پر عش عش کر رہی ہے۔

جرمن چانسلر انجیلا مرکل سمیت پوری قوم کی خوشی قابل دید ہے، قسمت کی دیوی نے 22 سالہ ماریو گوٹزے کو راتوں رات گمنامی کے اندھیروں سے نکال کر عالمی ہیرو بنا دیا، چیمپئن ٹیم کے کپتان فلپ لام نے عین عروج میں ٹیم کی قیادت چھوڑ کر اقتدار سے چمٹے رہنے والوں کو ایک سبق دے دیا۔ فیفا ورلڈ کپ کے بعد دنیا اب کامن ویلتھ گیمز کے بخار میں مبتلا ہے، ٹیمیں بھر پور تیاریوں کے بعد گلاسگو کا رخ کرنے کی منتظر تو کھلاڑی بھی شاندار پرفارمنس دکھا کر اپنے ممالک کا نام روشن کرنے کیلیے بے تاب ہیں لیکن ہمارے پاکستان میں الٹی ہی گنگا بہہ رہی ہے۔

ملک بھر کی سپورٹس فیڈریشنز اقتدار اور اختیار کیلیے دست وگریبان ہیں، پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے2 دھڑوں کی لڑائی حکومتی ایوانوں سے نکل کر عدالتوں تک جا پہنچی ہے، عہدیداروں کو کامن ویلتھ گیمز میں میڈلز کی تو کوئی خاص پرواہ نہیں، فکر صرف اور صرف اس بات کی ہے کہ میگا ایونٹ کی آڑ میں گلاسگو کی ٹکٹ کیسے پکی کی جائے، فیڈریشنوں کے کرتا دھرتاؤں کے ساتھ اب پاکستان سپورٹس بورڈ اور آئی پی سی وزارت بھی اس دوڑ میں شامل ہو چکی ہے۔



جب وطن عزیز کے تمام سرکاری و نیم سرکاری اداروں میں کرپشن، لوٹ مار، اقرباء پروری کا دور دورہ ہو اور بیوروکریسی ملکی خزانے کو ذاتی خزانہ سمجھ کر دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہی ہے تو ایسے میں ہمارے کھیلوں کی تنظیموں کے عہدیدار کسی سے پیچھے کیوں رہیں؟

آخر وہ بھی تو نہ جانے کیا کیا کیا پاپڑبیل کر ملکی کھیلوں کی باگ دوڑ سنبھالتے ہیں، اب اگر انہوں نے بین الاقوامی ایونٹس کو جواز بنا کر دنیا بھر کے سیر سپاٹے نہیں کرنے، کھیلوں کے نام پر ٹی اے ڈی اے وصول نہیں کرنا، اپنے چہیتوں کو ٹیموں میں شامل نہیں کروانا تو ان پرکشش سیٹوں پر براجمان رہنے کا ان کا آخر کیا جواز رہ جاتا ہے؟ گو 18 جولائی کو عدالت کی طرف سے پاکستان دستے کو کامن ویلتھ گیمز میں شرکت کا پروانہ مل چکا ہے لیکن کہتے ہیں کہ جب نیت میں ہی کھوٹ ہو تو نتائج بھی اسی کے مطابق ملتے ہیں، جامع حکمت عملی اور بھر پور تیاریوں کے بغیر گلاسگو جانے والے پاکستانی کھلاڑیوں میں سے کوئی پلیئر میڈل حاصل کرنے میں کامیاب رہتا ہے تو اس کا یہ کارنامہ کسی معجزے سے کم نہیں ہوگا۔

یہ سچ ہے کہ ماضی میں ہاکی نے پاکستان کو جتنے میڈلز جتوائے اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی، 1994ء کے ورلڈ کپ میں گرین شرٹس چوتھی بار عالمی ٹائٹل اپنے سینے پر سجا کر وطن واپس لوٹی تو اس وقت کی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو اس قدر خوش ہوئیں کہ انہوںنے قومی ٹیم کے اعزاز میں ایوان وزیر اعظم میں نہ صرف پروقار تقریب کا اہتمام کیا بلکہ اپنے سوتے ہوئے بچوں کو یہ کہہ کر جگایا کہ میں تمہیں ان سے ملوانے کیلیے لے جا رہی ہوں جو قوم کے اصل ہیروز ہیں اور میں نہیں چاہتی کہ تم ان کے دیدار سے محروم رہو۔



یہ بات وزیر اعظم نے خود کھلاڑیوں کو اپنے خطاب کے دوران بتائیں، اس موقع پر انہوں نے فاتح سکواڈ کیلیے اسلام آباد میں قیمتی پلاٹس بھی دینے کا اعلان کیا جن کے ملتے ہی پلیئرز راتوں رات کروڑوں پتی بن گئے لیکن سچ پوچھیے تو اب قومی کھیل کی موجودہ صورت حال دیکھ کر دل کڑھتا ہے، قارئین ہی ایمانداری اور سچائی کے ساتھ بتائیں کہ کیا ہماری موجودہ ہاکی اس قابل ہے کہ قوم اس پر فخر کر سکے۔ دعوے سے کہا جاسکتا ہے کہ ہاکی کے بہت کم پرستار اور شیدائی ہوں گے جو پاکستان ہاکی ٹیم کے تمام کھلاڑیوں تو دور کی بات کپتان کا نام جانتے اور اسے پہچانتے ہوں گے۔ کہتے ہیں کہ ہار یتیم اور جیت کے کئی وارث ہوتے ہیں۔

پی ایچ ایف ایک سال سے ہاتھوں میں کشکول لیے وفاقی حکومت سے 50 کروڑ روپے کا تقاضا کر رہی ہے لیکن عہدیداروں کو طفل تسلیوں کے علاوہ اور کچھ نہیںمل پایا۔ حال ہی میں انٹرنیشنل ہاکی سے ریٹائرمنٹ لینے والے قومی ٹیم کے ایک سابق کپتان نے راقم کو بتایا کہ ہمارے وقت میں ہاکی کے اس قدر انٹرنیشنل ایونٹس ہوتے تھے کہ کھلاڑیوں کو سر کھجانے کی فرصت نہیں ہوتی تھی، ورلڈ کپ کے بعد اب پاکستانی ٹیم کے ہاتھوں سے دوسرے عالمی ایونٹس بھی ایک ایک کر کے کھسکتے جا رہے ہیں اور اب عالم یہ ہے کہ گزشتہ 9 ماہ سے گرین شرٹس ایک بھی انٹرنیشنل میچ نہیں کھیل سکی، یہ ہاکی کی تباہی نہیں تو اور کیا ہے۔



اس بات میں کوئی دو آراء نہیں ہو سکتیں کہ کھلاڑی قوموں میں محبت بانٹتے اور روٹھے دلوں کو آپس میں ملاتے ہیں لیکن پاکستان میں وہ کون سا کھیل ہے جس کے میچز پوری قوم سارے کام کاج چھوڑ کر دیکھتی اور رو رو کر ٹیم کی فتح وکامرانی کے لیے دعائیں کرتی ہوئی نظر آتی ہے، وہ کون سا کھیل ہے کہ جس کے جیتنے کی خوشی میں فائرنگ کی گونج اور ڈھول کی تھاپ پر رقص و بھنگڑے ڈالے جاتے ہیں، وہ کون سا کھیل ہے جس میں فتح کی خوشی میں شکرانے کے نوافل ادا کئے جاتے ہیں اور دیگوں کے منہ کھول دیئے جاتے ہیں۔

کس کھیل میں جیت کر پورے ملک کے طول وعرض میں سینکڑوں من مٹھائیاں تقسیم ہوتی ہیں اور شکست کی صورت میں شائقین غم زدہ ہو کرکھانا پینا چھوڑ جاتے ہیں اورکئی کمزور حضرات زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں،ایسا کھیل کرکٹ ہی ہے جو پوری قوم کو یکجان کردیتا ہے، جس کے مقابلوں کے دوران عوام کی نبضیں اور سانسیں قابو میں نہیں رہتیں لیکن پی سی بی میں جاری اقتدار کی رسہ کشی کی وجہ سے یہ کھیل بھی تباہی و بربادی کے دہانے پر پہنچتا جا رہا ہے۔



سری لنکن ٹیم پر لاہور میں حملے کے بعد سے ملک میں گزشتہ 5 سال سے انٹرنیشنل کرکٹ کے دروازے تو پہلے ہی بند ہو چکے ہیں، اب دیار غیر میں بھی اس کے عالمی ٹیموں کے درمیان میچز سکڑتے جارہے ہیں، بنگلہ دیش میں شیڈول ٹوئنٹی 20 ورلڈ کپ کے بعد پاکستانی ٹیم کہیں بھی ایکشن میں دکھائی نہیں دے سکی ۔ ہٹلر کے پروپیگنڈا منسٹر گوئبلز کا کہنا تھا کہ اتنا جھوٹ بولو کہ لوگ سچ سمجھنا شروع ہو جائیں، پاکستان کرکٹ بورڈ میں بھی اس صفائی اور ڈھٹائی کے ساتھ جھوٹ بولا جارہا ہے کہ اب تو شائقین نے بھی اس کو سچ سمجھنا شروع کر دیا ہے۔

ماضی میں پی سی بی کا ایک عہدیدار آئی سی سی کے فیوچر ٹور پروگرام میں شرکت کیلیے دبئی گیا لیکن میٹنگ میں شرکت کی بجائے وہ ہوٹل میں ہی سوتا رہا، ایف ٹی پی میٹنگ میں عدم شرکت کی وجہ سے پاکستان بڑی تعداد میں انٹرنیشنل مقابلوں سے محروم رہ گیا، اپنی اس نااہلی اور سستی پر شرمندہ ہونے کی بجائے وہ وطن واپس آیا اور بورڈ کی آنکھوں کی دھول جھونک کر بڑی ڈھٹائی کے ساتھ ٹی اے ڈے اے کی مد میں لاکھوں روپے وصول کر کے چلتا بنا۔ اپنے فرض سے غفلت اور لاپرواہی کی یہ تو ایک مثال ہے نہ جانے اس طرح کے کتنے اور واقعات ہیں جو کھیلوں کی تنظیموں کے رہنماؤں کے سینوں میں دفن ہیں، اس طرح کے مزید رازوں سے کسی مناسب وقت پر پردہ اٹھاؤں گا۔

[email protected]

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں