برکس تنظیم اجلاس، نیا سیاسی افق
برکس تنظیم کا سولہواں سربراہ اجلاس روس کے شہرکازان میں شروع ہوچکا ہے، ابھرتی ہوئی معیشتوں کے نمایندہ تجارتی اور اقتصادی فورم ’برکس‘ کے فیصلوں، وسعت اور اثرات کی گونج دنیا بھر میں سنائی دے گی۔
عالمی معاملات اور طاقت کے نئے بین الاقوامی توازن کے حوالے سے برکس کی اہمیت اور اس کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اجلاس میں 36 ملک شرکت کررہے ہیں اور ان میں سے 20 سے زیادہ ملکوں کی نمایندگی ان کے سربراہ کر رہے ہیں۔ معاشی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ روس کازن سمٹ کو تیل کی ادائیگیوں کے لیے پیٹرو یوآن یا برکس ممالک کی مشترکہ کرنسی کے اجرا کے لیے استعمال کرسکتا ہے۔ دنیا میں یورو کی صورت میں متبادل کرنسی سسٹم تو موجود ہے لیکن یورپی ممالک بھی عام طور پر امریکی اثر میں رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ برکس ممالک امریکی ڈالر کی ادائیگیوں سے بچنے کی غرض سے ایک بالکل الگ تھلگ کرنسی متعارف کروانا چاہ رہے ہیں۔
برکس ممالک چینی کرنسی کے اجرا پر بھی غور کر رہے ہیں۔ مشترکہ کرنسی یا پیٹرو یوآن کے جاری ہو جانے کی صورت میں پاکستان کی ایران کے ساتھ تجارت میں کافی حد تک اضافہ ہو سکتا ہے، تاہم اس میں پاکستان کو بینکنگ چینلز میں دشواریاں پیش آ سکتی ہیں کیونکہ بیشتر بینک نیویارک میں ڈالرز میں ادائیگیاں کرتے ہیں۔ مشترکہ کرنسی کے ذریعے حکومتیں تو آپس میں تجارت کر سکتی ہیں لیکن نجی شعبے کے لیے اس میں مشکلات ہو سکتی ہیں۔پاکستان ایران سے تیل اور گیس حاصل کرنے کی کوشش کرے گا، جس کے لیے تہران گلوبل کرنسی کا مطالبہ کرے گا، جو اسلام آباد کے پاس نہیں کیونکہ ہماری 60 سے 70 فیصد آمدن امریکا کو ایکسپورٹس کر کے امریکی ڈالرز کی صورت میں ہوتی ہے۔
ڈالرکو تیسری کرنسی میں تبدیل کرنا پاکستان کے لیے بڑا چیلنج ہوگا اور اس لیے مشترکہ کرنسی سے پاکستان کو بہت زیادہ فائدہ ہونے کا امکان نہیں۔ مشترکہ کرنسی سے فائدہ اٹھانے کی خاطر پاکستان کو پہلے اپنی دو طرفہ تجارت کو بڑھانا ہو گا۔ ساڑھے تین ارب افراد پر مشتمل مجموعی آبادی کے برکس ممالک نے حالیہ برسوں میں عالمی سیاسی اور معاشی منظر نامے پر اہمیت حاصل کی ہے۔ ان ممالک کا عالمی معیشت میں حصہ 28 فیصد ہے، جب کہ ان کی معیشت 28.5 کھرب ڈالر سے زیادہ ہے۔ عالمی بینک کے مطابق چین معاشی اعتبار سے برکس ممالک کا سب سے بڑا رکن ہے، جس کی معیشت 17.96 کھرب ڈالرز ہے، جب کہ انڈیا اس سلسلے میں 3.39 کھرب ڈالر کی معیشت کے ساتھ دوسرا بڑا رکن ہے۔ معیشت کے حجم کے اعتبار سے روس برکس کا تیسرا بڑا ملک ہے، جس کی معیشت 2.24 کھرب ڈالرز ہے، جب کہ 1.92 کھرب ڈالر کی معیشتوں کے ساتھ برازیل اور سعودی عرب چوتھے نمبر پر ہیں۔
دوسری جانب تمام تر سیاسی مفادات سے ہٹ کر پاکستان برکس کے تمام ممالک کے ساتھ معاشی تعلقات قائم کرنے کا خواہاں ہے اور تنظیم کے اکثر اراکین نے اسلام آباد کی رکنیت کی حمایت کی یقین دہانی کروائی ہے۔ موجودہ عالمی سیاسی منظر نامے میں بین الحکومتی تنظیموں کی اپنی اہمیت ہے اور پاکستان ان تنظیموں کو درمیانے درجے کی طاقت کے حصول کے لیے نظر انداز نہیں کر سکتا۔ آج دنیا اس تلخ حقیقت سے دوچار ہے کہ امریکا اور اس کے بعض یورپی اتحادی اقتصادی اور ٹیکنالوجی کے میدان میں اپنی ناتوانی کی تلافی دہشت گردی، پابندیوں اور ملکوں کے درمیان کشیدگی بڑھا کر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ امریکا اور اس کے یورپی اتحادیوں کی اس کوشش کی وجہ سے عالمی امن و سلامتی خطرے میں پڑگئی اور عالمی سیکیورٹی اور سیاسی ادارے نا کام ہوگئے ہیں۔
اس وقت دنیا کو ہر دور سے زیادہ امن و آشتی کی ضرورت ہے لیکن امریکا اور اس کے اتحادی، سائنس و ٹیکنالوجی سے ملکوں کی خود مختاری اور ان کے اقتدار اعلیٰ کی نفی نیز دہشت گردی کے فروغ کے لیے استفادہ کررہے ہیں۔ امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں نے داعش جیسے انتہا پسند گروہ تشکیل دے کر بھی اور سرزمین فلسطین پر قابض دہشت گرد صیہونی حکام کی حمایت کرکے بھی ہر دور سے زیادہ عالمی امن و سلامتی کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ ’برکس‘ کے ابھرتی ہوئی معیشتوں کے ایک طاقتور بلاک بن کر ابھرنے کا امکان بڑھ گیا ہے، جس میں تقریباً نصف دنیا کی آبادی کی نمایندگی موجود ہے۔ فورم میں شامل ہونے والے نئے ملک دنیا کی تیل کی نصف ضروریات پوری کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ’برکس‘ اسی رفتار سے آگے بڑھتی رہی تو وسعت پذیر یہ تنظیم جلد ہی کینیڈا، فرانس، جرمنی، اٹلی، جاپان، برطانیہ اور امریکا پر مشتمل ترقی یافتہ ملکوں کے ہمزاد فورم جی سیون کے پر کاٹ سکتی ہے۔
’برکس‘ کی نئی توسیع کے بعد اس فورم میں روس، چین اور انڈیا جیسے تین جوہری طاقت کے حامل ملک، جب کہ مشرق وسطیٰ میں تیل پیدا کرنے والے تین ممالک سعودی عرب، ایران اور متحدہ عرب امارات اور اہم اسٹرٹیجک مقامات پر واقع افریقی اور عرب ممالک، جن میں مصر اور ایتھوپیا شامل ہو جائیں گے۔ نیز لاطینی امریکا میں واقع ارجنٹینا کی شمولیت سونے پہ سہاگے کا کام کر رہی ہے۔اگلے برس کے آغاز سے روبہ عمل لائی جانے والی وسعت کے بعد جی الیون بغیر مغربی ملکوں کی شمولیت کے، جی 20 سے مشابہ فورم بن جائے گا۔ اندرونی حالات اور عالمی سیاست کی حرکیات پر نظر رکھنے والے تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ گلوبل ویسٹ اور دنیا کے باقی حصوں سے تال میل کے لیے مشہور جی 20 فورم امکانی طور پر اپنی قدر و منزلت کھو سکتا ہے۔
مغربی دنیا سمجھتی ہے کہ ’’ برکس‘‘ امریکی قیادت میں چلنے والے بلا شرکت غیرے ورلڈ آرڈر کے ضوابط کے مقابلے میں کثیر جہتی اور غیر متعین اہداف حاصل کرنے کی ایک ناتجربہ کار اور اناڑی کوشش ہے۔ کسی حد تک مغربی دنیا کی مذکورہ رائے میرٹ پر درست بھی معلوم ہوتی ہے کیونکہ ’برکس‘ معروضی حالات میں باہمی ربط و ضبط، مشاورت اور اقدامات کے طریقہ کار سے متعلق کوئی بڑا دعویٰ نہیں کر سکتا کیونکہ قرائن بتاتے ہیں کہ جی سیون، نیٹو، یورپی یونین اور AUKUS جیسے پلیٹ فارمز کو کامیابی سے چلا کر گلوبل ویسٹ نے گورننس کے محاذ پر اپنی برتری ثابت کی ہے۔ ’برکس‘ نے گلوبل گورننس معاملات میں اپنا حصہ بٹانے میں قدرے تاخیر سے شمولیت اختیار کی۔ یہ میدان کئی دہائیوں سے امریکی قیادت میں مغربی دنیا کے ہاتھ کی چھڑی اور جیب کی گھڑی بنا ہوا ہے۔ ’برکس‘ سے متعلق مغربی دنیا کے خیالات دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ ابھرتی معیشتوں کے وسعت پذیر فورم سے کتنے خائف ہیں۔ ’برکس‘ کی صفوں میں شامل حالیہ ارکان اور پیش آمدہ ممالک یقیناً اگلے مرحلے پر اپنی معیشتوں پر ڈالر کی اجارہ داری کو ختم کرانے کے لیے میسر امکانات پر غور کر سکتے ہیں، یہ بات بھی امریکا کے لیے سوہانِ روح بنی ہوئی ہے۔
سوویت یونین کی تحلیل اور سرد جنگ کے خاتمے پر ملنے والی غیر معمولی کامیابی کو امریکا اور اس کے اتحادیوں نے ٹھنڈا کر کے کھایا ہوتا تو ’برکس‘ کا ظہور کبھی ممکن نہ ہوتا۔ تین دہائیوں سے گلوبل ویسٹ نے انسانیت کو کئی طویل جنگوں میں جھونک رکھا ہے جس کے باعث بین الاقوامی قانون کا لبادہ تار تار ہے۔ ترقی کے زعم میں گلوبل ویسٹ کی یکطرفہ پابندیاں، ڈالرکو بطور ہتھیار اور منافقانہ میکرو اکنامک ایڈجسٹمنٹ منصوبے اور حد سے زیادہ پرجوش ’گرین ٹزانزیشن رولز‘ کو نمایاں دہرے معیار کے ساتھ نافذ کرنے کی کوششوں نے دنیا کو سوچنے پر مجبورکردیا۔ جی سیون میں شامل رکن ملکوں نے جاپان کے فوکوشیما جوہری پلانٹ سے نکلنے والے تابکاری مواد کے حامل 1.3ملین میٹرک ٹن تابکاری ذرات ملے پانی کو بحر اوقیانوس میں گرانے پر جو چپ سادھ رکھی ہے، وہ ان کے دہرے معیار کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس پیش رفت کو واشنگٹن کے یک قطبی دور اور استعمار کی دیرینہ پالیسیوں کے خلاف وقتی ابال سمجھنے والے احمقوں کی جنت میں بستے ہیں۔
خود فریبی میں مبتلا مغرب، باقی دنیا کو یہ باورکرانے کی کوشش کر رہا ہے کہ عالمی نظام اس وقت جمہوری اور مطلق العنان طرز حکومتوں کے درمیان محاذ آرائی کے نکتہ عروج پر پہنچ چکا ہے، جس کا اظہار ’’ آپ ہمارے ساتھ ہیں، یا خلاف ہیں‘‘ جیسی بڑھکوں میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ گلوبل ویسٹ کی سیاسی قیادت ابھی تک سرد جنگ کے واہمے سے نکل نہیں سکی اور فی الوقت عالمی سیاست کو اسی روایتی عینک سے دیکھ کر ’چِل ماحول‘ کو انجوائے کرنے میں مصروف ہے۔ اس وقت جغرافیائی سیاسی مقاصد کے لیے ایک بڑا ملک ابھرتی ہوئی مارکیٹوں اور ترقی پذیر ممالک پر دباؤ ڈال رہا ہے بلکہ بلاک محاذ آرائی پیدا کر رہا ہے۔
دوسری جانب، برکس تعاون کا میکانزم ترقی پذیر ممالک کی مشترکہ ترقی کے حصول کی امنگوں کو اجاگر کرتا ہے۔ برکس ممالک نے ہمیشہ کثیر الجہتی تجارتی نظام کی پاسداری کی ہے اور عالمی صنعتی اور سپلائی چین کے استحکام اور ہمواریت کو مؤثر طریقے سے برقرار رکھا ہے۔ جنوری 2024 میں سعودی عرب، مصر، متحدہ عرب امارات، ایران اور ایتھوپیا کی باضابطہ شمولیت کے بعد،’’بڑے برکس‘‘ ممالک کی آبادی کا عالمی آبادی میں تناسب تقریباً پچاس فیصد تک پہنچ گیا ہے، عالمی اقتصادی ترقی میں ان کا شیئر 50 فیصد سے زیادہ ہوچکا ہے اور مجموعی معاشی حجم قوت خرید کے لحاظ سے جی سیون ممالک سے تجاوز کر گیا ہے۔ مستقبل میں جیسے جیسے زیادہ سے زیادہ ممالک اس میں شامل ہوں گے، کثیر الجہتی کے تحفظ کے لیے دنیا کی قوتوں میں مزید اضافہ ہوتا رہے گا۔