تھلیسیمیا سے متاثرہ 70 فیصد خواتین کو اخراجات کی وجہ سے تنہا چھوڑے جانے کا انکشاف
ماہر طب نے انکشاف کیا ہے کہ تھیلیسیمیا کے مرض میں مبتلا خواتین میں سے تقریباً 70 فی صد خواتین یا تو طلاق یافتہ ہیں یا ان کے گھر والوں نے انہیں چھوڑ دیا ہے کیوں کہ ایسے مریض کے علاج معالجہ کے اخراجات ایک عام فرد کے لئے ناقابل برداشت ہوتے ہیں۔
یہ بات ہمدرد یونی ورسٹی میں دو روزہ عطیہ خون مہم کے آخری روز سیلانی تھیلیسیمیاسینٹر کے ماہرڈاکٹر غلام سرورنے اساتذہ اور طلبہ سے بات چیت کرتے ہوئے کہی۔ انہوں نے بتایا کہ ان مریضوں کو خون کی منتقلی کے لیے ہر ماہ کم از کم 50 ہزار روپے تک کی ضرورت ہوتی ہے جب کہ ادویات اور دیگر طبی ضروریات پوری کرنے کے لیے 30 ہزارروپے مزیددرکار ہوتے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ اس کیمپ میں 17 سے 65 سال تک کے صحت مند افراد کو خون عطیہ کرنے کی اجازت تھی۔ اس دو روزہ آگاہی مہم کا مقصدآنے والی نسل کو تھیلیسیمیا سے بچانا اوراس کے حفاظتی اقدامات سے آگاہ کرنا تھا۔ اس کا اہتمام ہمدردیونی ورسٹی کی فیکلٹی آف ایسٹرن میڈیسن نے سیلانی بلڈ بنک اینڈتھیلیسیمیا سینٹر کے تعاون سے کیا تھا جس کا سلوگن تھا احساس کرو، کچھ خاص کرو۔
ایک اور اہم مسئلہ کی طرف نشاندہی کرتے ہوئے ڈاکٹر غلام سرور نے کہا کہ اس وقت ملک میں ایک لاکھ 20 ہزار سے زائد بچے تھیلیسیمیا کے مریضوں کے طور پر رجسٹرڈ ہیں جب کہ ان کی تعداد میں ہر سال تقریباً 10ہزار کا اضافہ ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں تھیلیسیمیا کے موذی مرض سے بچاؤ کے لئے شادی سے قبل تھیلیسیمیا کی اسکریننگ کروا نی لازمی قرار دی جانی چاہیے جب کہ شادی کے بعد حاملہ خواتین کے ٹیسٹ کے ذریعہ اس بوجھ کو کم کیا جاسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ''اگر ایک عورت اور مرد جو ایک دوسرے سے شادی کا ارادہ رکھتے ہیں، کے لئے پیتھولوجیکل لیبارٹری ٹیسٹ ضروری ہے، ٹیسٹ رپورٹ میں صرف کسی ایک کو تھیلیسیمیا مثبت آتاہے تو ان کے لیے شادی کرنا ٹھیک ہے تاہم، اگر دونوں کو تھیلیسیمیا مائنر ہے تو انہیں آپس میں شادی نہیں کرنی چاہیے ورنہ ان کے بچوں کو تھیلیسیمیا کے مرض کا خطرہ رہے گا۔
اُن کا کہنا تھا کہ یہ تکلیف دہ بیماری کے واقعات کو کم کرنے کا ایک طریقہ ہے بشرطیکہ یہ قدم ہر سال بڑی تعداد میں جوڑے اٹھاتے ہوں۔ اسی طرح زچگی کے دس سے بارہ ہفتے کے دوران ٹیسٹ سے معلوم ہو جائے کہ پیدا ہونے والے بچے کو تھیلیسیمیا ہو سکتا ہے۔ اس امر پر تمام مکاتب فکر کے علماء کا اتفاق ہے کہ ایسے حمل کو فوری طور پر ختم )کر دینا چاہیے۔ بشرطیکہ اس کی عمر 12 ہفتے سے کم ہو۔