سنیارٹی کا اصول؟
26ویں آئینی ترمیم کے بعد نئے طریقہ کار کے مطابق پارلیمانی کمیٹی نے دو تہائی اکثریت کے ساتھ جسٹس یحییٰ آفریدی کو سپریم کورٹ کا چیف جسٹس پاکستان مقرر کر دیا ہے۔ نئی آئینی ترمیم میں لکھا ہوا ہے کہ پارلیمانی کمیٹی دو تہائی اکثریت سے نامزدگی کر سکتی ہے۔ اس طرح سادہ اکثریت کی حامل حکومت کسی بھی طرح پارلیمانی کمیٹی سے اپنی مرضی کا چیف جسٹس نہیں لگا سکتی۔
اس کے لیے اسے دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہوگی۔ جسٹس یحییٰ آفریدی کی نامزدگی پر اعتراض کرنے والوں کے پاس سب سے بڑا اعتراض یہی ہے کہ وہ سینئر موسٹ نہیں تھے اور انھیں چیف جسٹس نامزد کر کے سنیارٹی کے اصول کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ حالیہ آئینی ترمیم سے پہلے سپریم کورٹ میں سینئر موسٹ کو ہی چیف جسٹس لگایا جاتا تھا۔
لیکن دیکھنے کی بات ہے کہ کیا عدلیہ نے سنیارٹی کے اصول کا تقدس قائم رکھا ہوا تھا جو اب یہ تنقید کی جا رہی ہے کہ سنیارٹی کے اصول کو قائم نہیں رکھا گیا ہے، سب سے پہلے ججز کی ہائی کورٹس سے سپریم کورٹ میں تعیناتی کو ہی دیکھ لیں۔ یہ تعیناتیاں حکومت نہیں کرتی۔ یہ مکمل طور پر عدلیہ کا اپنا اختیار رہا ہے۔ لیکن ہم نے دیکھا ہے کہ ججز کو ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ میں تعینات کرنے کے لیے مسلسل سنیارٹی کے اصول کو نظر انداز کیا جا رہا ہے اور اس کے لیے کوئی باقاعدہ توجیح بھی نہیں پیش کی جاتی۔
ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان کو سپریم کورٹ میں لانے کے لیے نظر انداز کیا گیا ہے اور ان کے جونئیر ججز کو سپریم کورٹ میں تعینات کیا گیا ہے۔ آج سپریم کورٹ میں اگر تعیناتیوں پر نظر دوڑائی جائے تو جونئیر ججز کی تعیناتیوں کی اکثریت ہو چکی ہے۔ ایک دفعہ نہیں بار بار سنیارٹی کے اصول کو نظر انداز کر کے ججز کو سپریم کورٹ لایا گیا ہے۔ اب حیرانگی کی بات ہے کہ جب سپریم کورٹ میں تعیناتی کے لیے سنیارٹی کے اصول کو نظر انداز کرنا جائز ہے تو پھر چیف جسٹس سپریم کورٹ بنانے کے لیے سنیارٹی کا اصول مقدس کیسے ہو گیا۔ جو آئے ہی سنیارٹی کے اصول کو پامال کر کے ہیں‘ وہ سنیارٹی کے اصول کے تقدس کی کیسے بات کر سکتے ہیں۔
بات صرف سپریم کورٹ میں تعیناتیوں کی نہیں بلکہ حال ہی میں لاہور ہائی کورٹ میں بھی چیف جسٹس لگانے کے لیے سنیارٹی کے اصول کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ یہ بھی کسی پارلیمان نے نہیں کیا تھا اور نہ ہی سنیارٹی کے اس اصول کو نظر انداز کرنے کے لیے حکومت کی طرف سے عدلیہ پر کوئی دباؤ تھا۔
ہم نے دیکھا نظام عدل نے خود ہی سنیارٹی لسٹ میں تیسرے نمبر پر موجود جج صاحبان کو لاہور ہائی کورٹ کا چیف جسٹس تعینات کر دیا‘ یہ نامزدگی جیوڈیشل کمیشن نے خود کی۔ دو سینئر موسٹ نظر انداز ہوئے اور وہ آج بھی لاہور ہائیکورٹ میں اپنے فرائض ادا کر رہے ہیں۔ جب ہائی کورٹس کے چیف جسٹس کے لیے سنیارٹی کے اصول کو خود نظام عدل نے فالو نہیں کیااتو پھر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے لیے ایسا کیوں نہیں ہو سکتا۔ یہ کیا منطق ہے کہ ہائی کورٹ میں چیف جسٹس تو سنیارٹی کے اصول کو نظر انداز کر کے تعینات ہو سکتے لیکن سپریم کورٹ میں ایسی پریکٹس نہیں ہو سکتی ہے۔
میں سمجھتا ہوں سنیارٹی کا اصول یا تو ہے یا نہیں ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ یہ کہیں ہے اور کہیں نہیں ہے۔ عدلیہ کا مقدمہ مضبوط ہوتا اگر نظام عدل نے خود تعیناتیاں کر تے وقت سنیارٹی کے اصول کو اوپر سے نیچے تک پریکٹس کیا ہوتا لیکن اگر نظام انصاف خود سنیارٹی کے اصول کو ضرورت کے مطابق نظر انداز کر دے تو پھر پارلیمان سے کیسے یہ مطالبہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ ہر صورت اس اصول پر عمل کرنے کی پابند ہے‘ یہ کیا منطق ہے کہ ہم خود کر سکتے ہیں لیکن کوئی اور نہیں کر سکتا۔ ہم خود چاہیں تو جونئیر کو ریلیویٹ کر دیں لیکن پارلیمان کرے تو جرم ہے۔ اس منطق کو کون مانے گا۔
سنیارٹی کا اصول نظام انصاف کے نزدیک نہ کبھی مقدس تھا اور نہ ہے۔ اب بھی اس کو صرف ایک سیاسی اسٹنٹ کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں چیف جسٹس پاکستان کے لیے آئین میں لکھا ہوا تھا کہ سینئیر موسٹ کو ہی چیف جسٹس پاکستان لگایا جائے گا۔ لیکن میں سمجھتا ہوں آئین میں یہ لکھنے کا مقصد ہی یہ تھا کہ عدلیہ باقی سب تعیناتیاں بھی سنیارٹی کے اصول کے تحت ہی کرے گی۔ جب سربراہ سنیارٹی پر لگایا جائے گا تو وہ تعیناتیاں سنیارٹی کے اصول پر کر ے گا۔ لیکن جب عدلیہ نے آئین میں واضح لکھے ہونے کے بعد بھی سینارٹی کے اصول کو ختم کر دیا تو میرے نزدیک آئین میں اسے لکھنے کی بھی کوئی حیثیت نہیں رہی۔ وہ تمام تعیناتیاں جو آئین میں سنیارٹی کا اصول لکھنے کے بعد سنیارٹی کو نظر انداز کر کے کی گئی ہیں‘ میں ان کو آئین سے انحراف ہی مانتا ہوں۔
اس لیے آئین بنانے والوں نے بہتر سمجھا کہ جب عدلیہ خود ہی ہر تعیناتی میں سنیارٹی کے اصول کو نظر انداز کر رہی ہے تو پھر اس کو آئین سے نکال ہی دینا چاہیے۔ ویسے تو کئی تعیناتیوں میں نظام عدل نے پہلے تین والے نظریہ کو بھی قائم نہیں رکھا ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں پارلیمان نے پہلے تین کی شرط رکھ کر پھر نظام انصاف کو کہا ہے کہ اب وہ تعیناتیوں میں کم از کم پہلے تین کی شرط کا تو خیال رکھے۔لیکن کیا ایسا ہو گا‘ مجھے مشکل لگتا ہے۔