ایک پشتو مشاعرے میں ایک قطعی ان پڑھ شاعر نے اپنا کلام سناتے ہوئے اس میں’’ منصور‘‘ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ …کہ تیرے عشق سے باز نہیں آؤں گا ۔ چاہے مجھے منصورکی طرح ’’دار‘‘ پر کیوں نہ لٹکنا پڑے
مجھے خوشی بھی ہوئی اورحیرت بھی کہ ایک پکا ان پڑھ شاعر بھی منصور کے بارے میں جانتا ہے ، مشاعرے کے اختتام پر میں نے اس سے پوچھا یہ منصور کون تھا۔ بولا یہ ایک غریب آدمی تھا جو بادشاہ کی بیٹی پر عاشق ہوگیا اوربادشاہ نے اسی جرم میں اسے پھانسی پر لٹکایا تھا ۔ صرف یہ ہی نہیں بلکہ منصور کے بارے میں اوربھی بہت سارے افسانے مغالطے اورمبالغے مروج ہیں، خاص طورپر فارسی، اردو اورپشتو بلکہ کئی علاقائی زبانوں میں تو شاید ہی کوئی ایساشاعر ہوجس نے منصورکاذکرنہ کیا ہو ، غالب نے کہا ہے ؎
قطرہ اپنا بھی حقیقت میں ہے دریا لیکن
ہم کوتقلید تنک طرفی منصور نہیں
علامہ اقبال نے کئی مقامات پر نام لیے بغیر منصور کی طرف اشارہ کیا ہے۔
اقبال نے منبر اک راز پہناں کھولا
ناپختہ ہی اٹھ آیا از محفل جانانہ
بھری بزم میں رازکی بات کہہ دی
بڑا بے ادب ہوں سزا چاہتا ہوں
ہمارے رحمان بابا فرماتے ہیں
اورنگزیب اوشاہ جہان غوندے اشراف
صدقہ شہ تر منصور غوندے نداف
ترجمہ۔ شاہ جہاں اوراورنگزیب جیسے اشراف صدقے ہوجائیں منصورجیسے ’’نداف‘‘ کے
نداف پشتو میں ’’دھنیکے ‘‘ کو کہتے ہیں جو گاؤں گاؤں پھر کر ’’روئی‘‘ دھنکتا تھا اورمقامی ذات پات کے نظام میں حقیر سمجھا جاتا تھا ، جلاہوں ، موچیوں ، نائیوں ، لوہاروں ، ترکھانوں کی طرح۔
یہ بدعت اورسراسرغیر اسلامی رحجان ۔ محمود غزنوی کے دورسے شروع ہونے والے اس فارسی دورکا دین ہے جو اب بھی جاری ہے جس میں ہندوؤںکے اثر سے ہنرمندوں بلکہ کام کرکے حق حلال روزی کمانے والوں کو ان مراعات یافتہ طبقوں نے دیا جو حکومتی چاپلوسیوں ، بلکہ عوام کے ساتھ غداریوں سے مناصب خطابات اورجاگیریں حاصل کرلیتے تھے اورنہ صرف خطبہ حج الوداع کو بھول جاتے تھے بلکہ سب سے بڑے حبیب اللہ کے ارشاد کو بھی کہ ’’الکاسب حبیب اللہ ‘‘
اس سلسلے میں خوشحال خان خٹک کا وہ معیاربھی قابل ذکر ہے جو انھوں نے خان (مردکامل)کے لیے مقررکیا ہے کہ ؎
چہ گٹل، خوڑل ، بخل کاخان ھغہ
ترجمہ۔ جو کماتا، کھاتا اورکھلاتا ہے وہی اصل خان ہوتا ہے ۔
ہم جب اسلامی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو بہت بڑے بڑے اماموں، عالموں اور ولیوں نے اپنے ناموں کے ساتھ اکثر اپنا پیشہ بھی لگایا ہوا ہے جسے امام غزالی (جولاہا) عمرخیام(خیمہ زن) شرف الدین عطار( پنساری) بلال حبشی، زرکوب شبان، حجام اور یہ حلاج جو ہمارا موضوع ہے ۔
عوامی کہانیوں میں بھی ایک کہانی منصور کے بارے میں بڑی مشہور ہے ،کہتے ہیں کہ وہ روئی دھنکنے والا دھنکیا تھا، لوگ روئی لاکر اس سے دھنکواتے تھے، ایک دن ایک عورت روئی کاگٹھڑ سر پراٹھائے اس کے پاس پہنچی تو گٹھڑ اتارتے ہوئے بیچاری سے بہ تقاضائے بشری ہوا خارج ہوگئی ،عورت بڑی شرمندہ ہوئی کافی دیرسکتے میں رہی، حلاج نے کوئی توجہ نہیں دی بدستور اپنا کام کرتا رہا۔ عورت کو کچھ تسلی ہوئی اوراس سے بات کی تو حلاج نے اشارے سے دونوں کانوں کو ہاتھ لگائے ظاہرکیاکہ میں بہرا ہوں حالاں کہ درحقیقت وہ بہرا نہیں تھا اس نے سب کچھ سنا لیکن عورت کو خجالت سے بچانے کے لیے بہرہ بن گیا ،عورت خوش اورمطمئن ہوکرچلی گئی ، کہتے ہیں اس کے بعد حلاج نے خودکو مستقل طور پر بہرا بنادیا، اس کے اس انسانی کمزوریوں اور کوتاہیوں پر پردہ ڈالنے کے عمل کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اسے ولی کامقام عطافرمادیا ۔اس قسم کی کہانیوں کے بارے میں ہم کچھ بھی نہیں کہہ سکتے، ہوسکتا ہے سچ ہوں یاہوسکتا ہے ،عقیدت مندانہ افسانے ہوں لیکن کچھ اورایسے حقائق ہیں جن کے بارے میں بتانا اورعوام کی معلومات میں اضافہ کرنا ضروری ہے ۔ان میں سے ایک حقیقت تو اس کو ’’منصورحلاج‘‘ کہنا بھی ایک غلط العام ہے اس کا اپنا صحیح نام ’’حسین‘‘ منصور اس کے والد کا نام تھا یعنی حسین ابن منصور ۔۔ لیکن عوامی سطح پر مختصر ہوکر ’’منصورحلاج‘‘ بن گیا اورمشہور ہوگیا اسے ’’دار‘‘ پر کھینچنے کے بارے میں بھی طرح طرح کی روایات مشہورہیں کچھ لوگ تو کہتے ہیں کہ اسے سیدھے سادے طریقے پر برسرعام پھانسی ’’دار‘‘ پر چڑھا دیا گیا تھا لیکن کچھ روایتیں ایسی بھی ہیں کہ اسے پھانسی سے پہلے بہت ہی اذیتیں دی گئی تھی، سنگسار کیاگیاتھا اس کے اعضاکاٹے گئے اوروہ آخری دم تک اپنا نعرہ اناالحق دہراتا رہا ۔ اناالحق یعنی میں خدا ہوں۔ (جاری ہے)