پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت میں ایک طویل مشاورت اور مختلف پارٹیوں کے درجنوں اجلاس کے بعد اس وقت کی پی پی حکومت اٹھارہویں ترمیم منظور کرانے میں کامیاب ہوئی تھی اور آئینی کمیٹی کے سربراہ پی پی کے سینیٹر میاں رضا ربانی کو ترامیم متفقہ طور پر منظور کرانے کے لیے دن رات محنت اور بھاگ دوڑ کرنا پڑی تھی جس پر اس وقت ہی کے پی پی رہنما سردار لطیف کھوسہ نے الزام لگایا تھا کہ آئین کا ستیا ناس کرکے اس کا حلیہ بگاڑ دیا گیا ۔ اٹھارہویں ترمیم اس وقت کے صدر آصف زرداری کی ذاتی دلچسپی سے منظوری ہوئی تھی اور صوبوں کو مکمل خودمختاری ملی تھی جس کے بعد صوبے مالی اور انتظامی طور پر مکمل بااختیار ہو گئے تھے اور وفاق کے محتاج نہیں رہے تھے بلکہ آمدنی کے معاملے میں وفاق صوبوں کا محتاج بنا دیا گیا تھا اور وفاق پہلے جیسا بااختیار نہیں رہا تھا۔
اس وقت پی پی کی چیئرمین بے نظیر بھٹو کی شہادت کے باعث پیپلز پارٹی کو عوامی ہمدردی حاصل اور آصف زرداری سب سیاسی پارٹیوں کو ساتھ لے کر چلنے کے حامی تھے اور جنرل پرویز مشرف کے بعد (ن) لیگ بھی پی پی کی حکومت میں پہلی بار شامل ہوئی تھی۔ جنرل پرویز نے عدلیہ کے ساتھ جو سلوک کرکے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سمیت درجنوں ججز کو فارغ کر دیا تھا اور میاں نواز شریف ججز کی بحالی کے لیے نئی حکومت میں شامل ہوئے تھے اور کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ جن ججز کی بحالی کے لیے لانگ مارچ کیا گیا تھا وہی عدلیہ اپنی بحالی کے بعد اتنی بااختیار بن جائے گی کہ اسے بحال کرانے والے بھی عدالتی فیصلوں سے متاثر ہوں گے اور عدلیہ کی بحالی میں جنھوں نے عدلیہ بحالی کی مخالفت یا حمایت کی تھی وہ دونوں بڑی پارٹیاں پی پی اور مسلم لیگ (ن) مستقبل میں خود بھی متاثر ہوں گے اور دونوں پارٹیوں کی حکومتیں ختم اور وزرائے اعظم کو نااہل کر دیا جائے گا اور عدلیہ پارلیمنٹ پر حاوی ہو جائے گی۔ عدلیہ کی بحالی کے بعد پہلے پی پی کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور بعد میں خود عدلیہ بحالی کا کریڈٹ لینے والے میاں نواز شریف بھی عدالتی فیصلوں سے متاثر ہوئے۔ اپنے صدر کے خلاف خط نہ لکھنے پر پی پی وزیر اعظم کو 5 سال کے لیے اور بعدازاں نواز شریف کو تاحیات نااہل کیا گیا۔ اس لیے یہ دونوں پارٹیاں ہی عدلیہ کے فیصلوں سے متاثر ہو چکی ہیں اور 2008 کے برعکس متحد ہو کر دونوں نے نئی آئینی ترامیم میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ عدلیہ بحالی کے بعد پی پی حکومت میں عدلیہ کی جانب سے انتظامی مداخلت کرکے پی پی حکومت کو پریشان رکھا گیا۔ اس وقت پی ٹی آئی کی سیاسی اہمیت نہیں تھی مگر وہ افتخار چوہدری کی حامی تھی اور بعد میں عمران خان افتخار چوہدری کے مخالف ہوگئے تھے۔
میاں ثاقب نثار بعد میں (ن) لیگ کی حکومت میں چیف جسٹس بنے تھے اور ان کے ساتھ بعض جج بھی نواز شریف کے مخالف اور پی ٹی آئی کے حامی تھے۔ 2014 میں پی ٹی آئی کے دھرنے کو بالاتروں کی اور عدلیہ کی حمایت حاصل تھی اس لیے پاناما میں نواز شریف کا نام نہ ہونے پر بھی نواز شریف کے خلاف جے آئی ٹی بنائی گئی مگر نواز شریف کے خلاف پاناما میں ثبوت نہ ملا تو وزیر اعظم نواز شریف کو اپنے بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر اقامہ کے باعث نااہل کر دیا گیا تھا اور عدلیہ کی تاریخ میں پہلی بار نواز شریف کو سزا دینے کے لیے من پسند مانیٹرنگ جج بھی لگایا گیا تھا جب سے عدلیہ میں پی ٹی آئی کے حامی ججز کی تعداد بڑھ گئی تھی جو کھلم کھلا عمران خان کے حامی تھے۔ انھوں نے نااہلی ثابت ہونے کے ایک کیس میں عمران خان کو نااہلی سے بچایا اور بن مانگے عمران خان کو صادق و امین اور نواز شریف کو برے القابات سے نوازا تھا اور سسلین مافیا کہا تھا۔