پاکستان کا ہر سیاسی قائد یہی کہتا ہے کہ ہمارا ایجنڈا صرف پاکستان ہے اور ہم اسی کی کامیابی چاہتے ہیں، ہم صرف اور صرف پاکستان کو دیکھ رہے ہیں، پاکستان ہی سب کچھ ہے۔ ہمارا کوئی اور ذاتی یا مخصوص سیاسی ایجنڈا نہیں ہے۔ ہم پاکستان اور اس کے عوام کی ترقی چاہتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان ہم سب کی اولین ترجیح ہونی چاہیے، پارلیمانی جمہوریت کو مضبوط بنا کر ہی ہم اپنے ملک اور اپنے آپ کو نہ صرف محفوظ بنا سکتے ہیں بلکہ ترقی بھی کرسکتے ہیں۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ پاک فوج ہی اس ملک کی حفاظت اور دفاع کے لیے جانی قربانیاں دے رہی ہے۔ دہشت گرد اور پاکستان کے عوام کی اکثریت کا دشمن طبقہ جو پاکستان کا کھاتا ہے، وہ دہشت گردوں کا ہمدرد اور سہولت کار بن کر ملک کے سیکیورٹی اداروں کو کمزور کرنے کی سازش میں ملوث ہے۔ پاک فوج اور پاکستان کے ادارے اور عوام مسلسل دہشت گردی کا نشانہ بن رہے ہیں۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ بعض سیاسی عناصر پاک فوج کے ساتھ محاذ آرائی میں مصروف ہیں اور وہ پاک فوج پر تنقید کرنے کا کوئی موقع ضایع نہیں کرتے ۔
ملک کی سیاست میں مخصوص سیاسی رہنما دکھاؤے کے بیانات تو دیتے ہیں اور فوج کی حمایت کرتے ہیں اور فوج مخالف بیانات کی مذمت بھی کرتے ہیں مگر یہ سب کچھ بھی موقع کی مناسبت اور سیاسی مفادات کے لیے ہوتا آ رہا ہے مگر کسی نے کھل کر نہیں کہا کہ پاک فوج کے مخالف ہمارے دشمن اور فوج ہماری ریڈلائن ہے جس کے لیے ہم خود بھی اپنی جانیں قربان کریں گے۔
پی ٹی آئی کے بعض رہنما اپنے بانی کی آئینی برطرفی کے بعد مسلسل اسٹیبلشمنٹ کو سیاست میں ملوث کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حالانکہ پی ٹی آئی کے وزیر اعظم کے خلاف آئین کے مطابق قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی تھی ، یہ تحریک عدم اعتماد ملک کی تاریخ میں پہلی بار کامیاب ہوئی، یہ الگ بات ہے کہ آئین کے مطابق برطرف ہونے والے نے بلند جمہوری آدرشوں کا پالن کرنے کے بجائے فسطائیت کا راستہ اختیار کیا۔ملک کی تاریخ میں پہلی بار سیاسی قائد ہونے کے دعویدار سیاستدان نے بدتمیزی کے کلچر کو فروغ دیا اور خود بھی اس کا حصہ بنا۔ پی ٹی آئی نے فوج کے خلاف کھلم کھلا مہم شروع کر رکھی ہے اور اس کا سوشل میڈیا مخالفین کی مسلسل ٹرولنگ میں مصروف ہے۔
پی ٹی آئی نے ہی نو مئی کا وہ سانحہ کر دکھایا تھاجس کی کسی اور سیاسی پارٹی نے جرأت نہیں کی تھی مگر اقتدار اور اپنے ایجنڈے سے محرومی کا صدمہ اتنا شدید تھا ، جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کی لیڈرشپ اور کارکنوں کے ساتھ کیا کچھ نہ کیا گیا لیکن انھوں نے دہشت گردی کی حمایت کی نہ دہشت گردوں کی سہولت کاری کی۔ پی پی کے بانی اور وزیر اعظم بھٹو کو جھوٹے کیس میں پھانسی کی سزا سنائی گئی اور اس پر عمل کردیا گیا۔ میاں نواز شریف کو طیارہ سازش کیس کے جھوٹے مقدمے میں سزا سنائی گئی اور بعد میں انھیں خاندان سمیت جلاوطن کردیا گیا۔
حالیہ برسوں میں بھی انھیں عدالت کے ذریعے نااہل قرار دلوا کر وزارت عظمیٰ سے ہٹایا گیا، انھیں جیل میں رکھا گیا، ان کی صاحبزادی موجودہ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کو گرفتار کیا گیا اور جیل میں رکھا گیا۔ آصف زرداری نے برسوں جیل کاٹی، لیکن مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے کبھی فوج اور اس کی تنصیبات پر حملے نہیں کرائے۔ پاک فوج کے خلاف ٹرولنگ نہیں کی اور نہ اپنے سیاسی مخالف کے خلاف بے ہودگی کی آخری حدیں کراس کیں۔پی ٹی آئی کے موقع پرست رہنماؤں نے گرفتاریوں سے بچنے کے لیے پارٹی چھوڑ دی یا خاموش ہوگئے۔ بہت سے مفرور ہیں اور پشاور میں پرسکون رہ رہے ہیں لیکن انھوں نے اپنے کارکنوں کو قربانی کا بکرا بنا رکھا ہے، جو ان کے بہکاوے میں آ کر سرکاری عتاب بھگت رہے ہیں مگر بانی پی ٹی آئی کے لیے جان قربان کرنے کا اعلان کرنے والے مفرور لیڈر خیبرپختونخوامیں بھی محفوظ مقامات میں چھپے ہوئے ہیں۔
پولیس اور انتظامیہ کی نااہلی کے باعث گرفتاری سے بچنے کے لیے ٹھکانے بدل کر اور گاڑیوں کی ڈگی میں سفر کرنے والے پی ٹی آئی کے مفروروں میں اتنی جرأت نہیں ہوتی کہ وہ واشگاف انداز میں اعلان کرتے کہ ہمارا ایجنڈا پاکستان ہے اور ہم بھی صرف پاکستان کی کامیابی چاہتے ہیں کیونکہ پاکستان نہیں تو کچھ بھی نہیں، پاکستان ہے تو ہماری سیاست بھی ہے ورنہ کچھ نہیں ہے۔ پی ٹی آئی نے ایس سی او کانفرنس کے انعقاد پر اسلام آباد میں احتجاج کا اعلان کیا تھا ،کیا یہ تاریخی موقعہ احتجاج کے لیے مناسب تھا۔