دوسری بار امریکی صدر منتخب ہونے کی کوشش کرنے والے ڈونلڈ ٹرمپ جان لیوا حملے میں بال بال بچے ہیں ۔13 جولائی 2024ء کو ڈونلڈ ٹرمپ امریکی ریاست، پنسلوانیا، میں صدارتی انتخابی مہم کے سلسلے میں ایک جلسے سے خطاب کر رہے تھے ۔ اچانک چند گولیاں چلیں ۔ ایک گولی ڈونلڈ ٹرمپ کے دائیں کان کو چھوتی گزر گئی ۔ اگرچہ گولی چلتے ہی وہ نیچے بھی جھک گئے تھے اور اُن کی حفاظت پر مامور سیکیورٹی عملے نے اُنہیں اپنے جسمانی حصار میں بھی لے لیا تھا ۔ پھر بھی ڈونلڈ ٹرمپ زخمی ہو گئے ۔ ساری دُنیا کے میڈیا پر دکھایا گیا کہ اُن کے دائیں کان اور رخسار پر خون کی لکیریں بہہ رہی ہیں۔یہ نہائت نامناسب اور کریہہ خونی اقدام تھا۔ حملہ آور(تھامس کروکس) ہدف پر ٹھیک گولی مارنے والوں(Snipers)کے ہاتھوں اُسی وقت مارا گیا۔ پاکستان سمیت تقریباً سبھی عالمی رہنماؤں نے اِس حملے کی مذمت کی ۔ امریکی صدر، جو بائیڈن، سمیت سب نے بیک زبان کہا ہے کہ سیاست میں تشدد کا عنصر قابلِ برادشت ہے نہ قابلِ نظر اندازی ۔ امریکا پر عمومی طور پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ پاکستان سمیت اپنے حریف و حلیف ممالک میں، جلی و خفی طور پر، سیاسی تشدد کے عنصر کو ہوا دیتا رہا ہے ۔ اب جب کہ یہ عنصر عملی طور پر امریکا میں بھی سر اُٹھانے لگا ہے تو اِس کی تپش امریکی اسٹیبلشمنٹ کو بھی محسوس ہونے لگی ہے اور وہ وایلا مچانے لگی ہے ۔
5نومبر2024ء کو امریکا میں صدارتی انتخابات کا میدان سجنے والا ہے ۔ ڈیمو کریٹ پارٹی کی کملا ہیرس اور ری پبلکن پارٹی کے ڈونلڈ ٹرمپ ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہیں ۔ڈونلڈ ٹرمپ پر ناکام قاتلانہ حملے کے دوسرے روزہی اُن کی سیاسی جماعت ، ری پبلکن ، نے اُنہیں باقاعدہ اپنا صدارتی اُمیدوار نامزد کر دیا تھا۔اس فیصلے کے فوراً بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے جے ڈی وانس (JD Vance)کو اپنا نائب صدر نامزد کر دیا تھا (کملا ہیرس نے اپنا نائب صدرTim Walz کو نامزد کررکھا ہے) جے ڈی وانس بارے فیصلے پر عمومی طور پر کہا جا رہا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے دراصل اپنے ہم خیال اور ہم نظریہ شخص کو نائب صدارت کے لیے چُنا ہے ۔ اگر ہم 39سالہ جے ڈی وانس کی مشہور اور بیسٹ سیلر خود نوشت کا مطالعہ کریں تو کسی حد تک یہ بات مسلّمہ لگتی ہے ۔ جے ڈی وانس بارے امریکی میڈیا میں سامنے لائے جانے والے خیالات و نظریات میں کہا جارہا ہے کہ وہ (۱) سوشل کنزرویٹو ہیں (۲) اسقاطِ حمل اور ہم جنس پرستی کے مخالف ہیں (۳) Porno graphyکو سخت ناپسند کرتے ہیں (۴) مزدور طبقے کی کم از کم اُجرت میں ہر سال اضافے کے حامی ہیں (۵)امریکا کی طرف سے یوکرائن کو فراہم کی جانے والی مسلسل مالی و فوجی امداد کی مخالفت کرنے والوں میں شامل ہیں (۶) امریکا میں ترکِ وطن کرکے آنے والے مسلمانوں (Immigrants) پر پابندیاں عائد کرنے کے بڑھ چڑھ کر حمائت کرتے ہیں ۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے نامزد کردہ نائب صدر،جے ڈی وانس، بارے بنیادی باتیں جاننا ضروری ہیں ۔جے ڈی وانس امریکی ریاست Ohioمیں ایک نہائت غریب خاندان میں پیدا ہُوئے ۔ اُن کا بچپن غربت و عسرت اور والدین کی بے مہریوں میں گزرا ہے ۔ وہ ابھی پاؤں پاؤں چلنے بھی نہیں پائے تھے کہ والدین میں طلاق ہو گئی ۔ اُن کی والدہ منشیات کی عادی تھیں ۔ اُس نے دوسری شادی تو کی مگر یہ بھی نہ نبھ سکی ۔ اِن خانگی و معاشی حالات نے جے ڈی وانس کی نفسیات پر گہرے اثرات مرتب کیے ۔ وہ تین مرتبہ اپنا نام تبدیل کر چکے ہیں ۔ پیدا ہُوئے تو اُن کا نام جیمز ڈونلڈ بومین رکھا گیا ۔ والدہ نے دوسرا شوہر کیا تو جے ڈی وانس نے سوتیلے والد کا نام اختیار کر لیا ۔ ان میں بھی طلاق ہو گئی تو جے ڈی وانس اپنے دادا اور دادی کی تحویل میں آ گئے ۔ اور یہیں سے اُنھوں نے اپنے دادا کا نام (وانس) اپنے نام کے ساتھ مستقل طور پر اپنا لیا : جیمز ڈونلڈ وانس!
جے ڈی وانس امریکی بحریہ میں فوجی خدمات بھی انجام دے چکے ہیں ۔ وہاں سے فراغت کے بعد اُنھوں نے ممتاز امریکی تعلیمی ادارے Yale Universityسے قانون کی ڈگری حاصل کی ۔ پھر اپنی آبائی ریاست ، اوہائیو، ہی سے وکالت و سیاست کا آغاز کیا ۔ ری پبلکن پارٹی جوائن کی ۔ اِسی پارٹی کے پلیٹ فارم اور اوہائیو سے وہ 2023ء میں جونیئر سینیٹر منتخب ہُوئے ۔ شادی شدہ ہیں ۔ اُن کی اہلیہ(اُوشا) بھارتی نژاد ہندو ہیں ۔ دراصل بین المذاہب شادی کا ایک امتزاج۔جے ڈی وانس نے ییل یونیورسٹی میں اپنے قانون کے استاد کے کہنے پر اپنی سوانح عمری (Hillbilly Elegy: Based on the JD Vance Memoir ) لکھی ۔ یہ خود نوشت اتنی مشہور ہُوئی کہ’’ نیویارک ٹائمز ‘‘نے اِسے ’’بیسٹ سیلر‘‘ قرار دیا ۔ اِسی کتاب کی بنیاد پر جے ڈی وانس کو’’ سی این این‘‘ ایسے معتبر و معروف امریکی میڈیا میں بطور تجزیہ نگار لیا جانے لگا ۔اپنی خود نوشت میں جے ڈی وانس نے امریکا میں موجود مسلمان کمیونٹی اور امریکا میں آنے والے مسلمان مہاجرین کی سخت مخالفت کی ہے ۔ وہ امریکا کے ہمسائے میں واقع ، میکسیکو، کی سرحد سے اسمگل ہو کر امریکا داخل ہونے والوں کو بزورِ طاقت روکنے کے داعی اور حامی ہیں ۔ اِن دونوں معاملات میں ڈونلڈ ٹرمپ اور جے ڈی وانس ہم خیال اور ہم نظریہ ہیں ۔
جے ڈی وانس نے اپنی خود نوشت ہی میں (امریکی) مسلمانوں کی مخالفت نہیں کی بلکہ اُن کے دیگر بیانات بھی اِسی قماش اور ذیل میں آتے ہیں ۔ مثال کے طور پر 5 جولائی 2024ء کو منتخب ہونے والے لیبر پارٹی کے برطانوی وزیر اعظم ، کیئر اسٹارمر، کی کامیابی پر جے ڈی وانس نے عجب اسلوب میں کہا:’’ لیبر پارٹی کے تحت منتخب ہونے والے ، کیئر اسٹارمرایک ایسے Islamist Country Truly کے وزیر اعظم منتخب ہُوئے ہیں جس کے پاس جوہری ہتھیار بھی ہیں ‘‘۔جے ڈی وانس کے اِس رمزیہ اور استہزائیہ بیان کا پس منظر یہ ہے کہ کیئر اسٹارمر کے کامیاب انتخاب میں برطانوی مسلمان کمیونٹی اور ووٹروں نے نمایاں کردار ادا کیا ہے ۔جے ڈی وانس کو غالباً اِس کردار کی بڑی تکلیف پہنچی تھی ۔ وہ اپنی تکلیف اور تعصب چھپا نہیں سکے ۔ کئی برطانوی سیاستدانوں اور دانشوروں(مثال کے طور پر برطانوی ڈپٹی پرائم منسٹر اینجلا رینر اور برطانوی بیرونس سعیدہ وارثی) جے ڈی وانس کے اِس متعصبانہ بیان کی سخت مذمت کر چکے ہیں۔ ساتھ انھوں نے یہ بھی کہا کہ جے ڈی وانس ایسا ’’ سفید فام نسل پرست‘‘ اور ’’مسلمان دشمن‘‘ اور ’’اسلاموفوبسٹ‘‘ شخص اگر نائب امریکی صدر منتخب ہو جاتا ہے تو یہ امریکا کی بدقسمتی ہوگی ۔
جے ڈی وانس کے بطورِ نائب صدر نامزد کیے جانے پر دُنیا کے مختلف اخبارات و جرائد اور میڈیا میں بحث ہو رہی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ انتخاب کیوں اور کس بنیاد پر کیا ہے ؟ مثال کے طور پر ممتاز امریکی ہفت روزہ ’’ٹائم‘‘ نے اپنے تجزیہ نگار ، ایرک کورٹیلسا، کی معرفت لکھا ہے کہ ٹرمپ اور جے ڈی وانس کی ہم نظری اور ہم آہنگی اُنہیں ایک دوسرے کے قریب لے آئی ہے۔ جے ڈی وانس ایک امریکی جامعہ میں خطاب کے دوران پاکستان کی واضح الفاظ میں مخالفت کر چکے ہیں ۔ اور ڈونلڈ ٹرمپ بھی اپنے دَورِ صدارت میں کہہ چکے ہیں:’’ پاکستان کو ہم نے اربوں ڈالر کی امداد دی لیکن پاکستان نے ہمیں دھوکے اور جھوٹ کے سوا کچھ نہیں دیا ۔‘‘ دونوں ہی غزہ اور لبنان پر اسرائیلی مظالم کی کھُلے عام حمائت کررہے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور جے ڈی وانس کی یہ ہم نظری پاکستان سمیت عالمِ اسلام کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے ۔