اساس اسلامی امداد باہمی ؛ دوسروں کی مدد کر کے جینا ہی اصل زندگی ہے
ایک انسان کو کسی نہ کسی حوالے سے دوسرے انسان کی مدد اور تعاون کی ضرورت پیش آسکتی ہے، چاہے وہ کتنا بھی امیر کیوں نہ ہو۔ اسی طرح کوئی بھی ملک خواہ وہ کتنا ہی ترقی یافتہ ہی کیوں نہ ہو، اسے کسی نہ کسی دوسرے ملک کی مدد اور تعاون کی ضرورت رہتی ہے۔ اسی طرح اﷲ تعالیٰ نے روئے زمین پر ایسے ایسے قدرتی نظام اور ذرایع پیدا کیے ہیں کہ انسان باہمی تعاون اور مدد سے زندگی بسر کرسکتے ہیں، اس طرح زندگی کا توازن بھی برقرار رہتا ہے اور کسی ایک انسان یا ملک کی حاکمیت پیدا نہیں ہوتی۔ ایک لمحہ کے لیے سوچیں اگر خدا نہ خواستہ دنیا پر کسی انسان یا ملک کی حاکمیت قائم ہو جاتی تو اس حاکمیت اور طاقت کے نشے میں وہ دوسروں کی زندگی کے بھی مالک بن بیٹھتے اور دوسروں سے ان کے جینے کا حق بھی چھین لیتے، اسی لیے حقیقی حاکمیت کی صفت صرف اور صرف قادر المطلق کی ہے وہ جو تمام جہانوں کا مالک و خالق ہے۔
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم پر جب پہلی وحی نازل ہوئی اور آپؐ نے اپنی کیفیت کو اپنی زوجہ محترمہ ام المومنین سیّدہ خدیجہ رضی اﷲ عنہا سے بیان فرمایا تو انہوں نے اپنے شوہر جناب رسول کریم ﷺ کی پوری زندگی چھے جملوں میں بیان کر دی۔ یہ چھے جملے حقوق العباد سے متعلق تھے: ( مفہوم صحیح بخاری و مسلم )
(1) آپ صلہ رحمی کرتے ہیں۔
(2) ہر سچی بات کی تصدیق کرتے ہیں۔
(3) دوسروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔
(4) دوسروں کو کما کر دیتے ہیں۔ ( بے سہاروں کا سہارا بنتے ہیں)
(5) مہمان نوازی کرتے ہیں۔
(6) ہر حق والے کا ساتھ دیتے ہیں۔
ان چھے نکات میں سے ہر ایک پوائنٹ پر کتب لکھی جا سکتی ہیں، یہ کہا جا سکتا ہے کہ دین اسلام کی اساس ہی امداد باہمی کے اصولوں پر رکھی گئی ہے۔ نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرو۔ (القرآن) اس تعاون اور باہمی بھائی چارے کا تقاضا یہی ہے کہ مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں اور ایک دوسرے کے لیے سہارا بن جائیں۔ یعنی امداد باہمی کے اصولوں کے مطابق زندگی گزاریں۔ ہمارے معاشرے میں امداد باہمی کو وہ اہمیت حاصل نہ ہو سکی جو ایک اسلامی ملک ہونے کی حیثیت سے ہونی چاہیے تھی۔ ایک دوسرے کی کفالت کرنا، مل جل کر دکھ درد بانٹا، ایک دوسرے کی دیکھ بھال کرنا، اسے امداد باہمی کہتے ہیں۔ امداد باہمی کا مطلب کسی کو قرض دینا نہیں بل کہ اس کی اس طرح مدد کرنا کہ دوسرا اپنے پاؤں پر کھڑا ہو سکے۔
ایک دوسرے کی مدد کر کے زندگی گزارنے کا طریقہ اور امداد باہمی کی اہمیت دین اسلام نے بہت پہلے ہی بتا دیا تھا۔ ارشاد باری تعالیٰ کا مفہوم: ’’نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو۔‘‘ (سورۃ المائدہ)
ہمارے پیارے نبی ﷺ نے اپنے عمل سے دنیا کو سکھا اور بتا بھی دیا ہے کہ دوسروں کی مدد کرنے سے اﷲ پاک راضی ہوتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ساری دنیا اسلام کے بتائے ہوئے تمام سنہری اصول اپنا رہی ہے۔ جب دنیا نے ایک دوسرے کی مدد کرنے کے جذبے کی اہمیت کو سمجھا اور صحیح طریقہ جان لیا تو دوسروں کو اس بات کی ترغیب دینے لگے۔
قرآنِ کریم اور احادیث مبارکہ ﷺ میں باہمی امداد اور تعاون کی بڑی ترغیب دی گئی ہے۔ مسلمانوں کو ایک دوسرے کا بھائی کہا گیا ہے۔ اور ہمارا رویہ کتنا سفاک اور باغیانہ ہے کہ ہمارے ہاں بھائی ہی بھائی کو دکھ و تکلیف میں تڑپتے دیکھ کر خوش ہوتا ہے، اس کے دکھ دور کیا کرنے اسے دکھ دیتا ہے۔
تمام لوگوں میں وہ شخص اﷲ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب ہے جو لوگوں کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچانے والا ہو، اﷲ تعالیٰ کی سب سے زیادہ پسندیدہ نیکی یہ ہے کہ ہماری وجہ سے کسی کی زندگی میں خوشی آجائے، کسی کی تکلیف دور ہو جائے، قرض کی ادائی کا انتظام ہو جائے، آدمی ہی آدمی کی دوا ہے، ان کے خوش نصیب ہونے میں کیا شک ہے جو دوسروں کے کام آتے ہیں، ان کی ضرورتوں کو پورا کرتے ہیں، جن کا کوئی سہارا نہیں ہوتا ان کا سہارا بنتے ہیں اور محتاج و ضرورت مند، نادار و بے آسرا کی مدد کرتے ہیں۔
ہمیں مشکلات میں ایک دوسرے کی مدد کرنی چاہیے۔ ہمارے معاشرے میں بعض افراد اتنے مال دار ہیں کہ وہ لاکھو ں کیا کروڑوں روپے اپنے گھر کی تزئین و آرائش، شادی بیاہ اور اپنی نمود و نمائش کے لیے خرچ کر دیتے ہیں۔ لیکن ان کا پڑوسی، ملازم، یا رشتے دار بیماری کی دوا، بچوں کے کپڑے، اور شام کے کھانے کے لیے ترس رہا ہوتا ہے۔ ایسا کیوں۔۔۔ ؟
اس کی وجہ اسلام کی تعلیمات سے ناآشنائی ہے۔ دین اسلام میں بتایا گیا ہے کہ مال کو جمع کرنے والوں کے منہ قیامت کے دن ان ہی کے مال سے داغے جائیں گے اور کہا جائے گا کہ یہ ہے وہ مال جس کو تم سنبھال کر رکھتے تھے۔
ہمارے ہاں بے شمار افراد کا محل، کوٹھی اور کئی مکانات ہیں اور کروڑوں افراد سڑکوں، پارکوں میں اور کرایہ کے مکان میں رہتے ہیں۔ ان سب سے پوچھ گچھ ہو گی، وہاں صاحب مال لوگوں کو کٹہرے میں کھڑا کیا جائے گا۔ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ وہی متقی لوگ بہشت کے باغوں میں اور چشموں کے کناروں پر عیش سے رہیں گے۔ جن کے مال کا ایک حصہ دنیا میں غریبوں اور ضرورت مندوں پر خرچ ہوتا تھا۔ جو دولت مند اپنی دولت کا کچھ حصہ حاجت مندوں کی کفالت پر خرچ کرتے ہیں، وہ اعزاز و اِکرام کے ساتھ جنّت میں داخل ہوں گے۔
قرآن حکیم میں ارشاد باری کا مفہوم؛ ’’اے نبی (ﷺ)! لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ کون سا مال خرچ کریں؟ آپ کہہ دیں کہ جو ضرورت سے زیادہ ہو۔‘‘
یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ اگر کسی کی مدد کی جا ئے تو اس کو احسان نہ جتلایا جائے ۔ جو لوگ ریا کاری کے ساتھ یا کسی پر احسان جتانے کی غرض سے اپنا مال خرچ کرتے ہیں، وہ کسی اجر و ثواب کے مستحق نہیں ہیں۔ کیوں کہ ریاکاری کا تعلق ایمان سے نہیں ہے بل کہ کفر و منافقت سے ہے۔ قرآن مجید میں مساکین یعنی سفید پوش افراد کی ضروریات پر توجہ دلائی گئی ہے۔
ایک اور حدیث میں بھی ان لوگوں کا خاص خیال رکھنے کا کہا گیا ہے، کیوں کہ عام مانگنے والے تو دوسروں سے مانگ کر اپنی ضروریات پوری کرلیتے ہیں، لیکن نہ مانگنے والے محروم لوگ زیادہ حاجت مند ہوتے ہیں، اس لیے قرآن و حدیث میں ان کے بارے میں خصوصی حکم دیا گیا ہے۔
نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: مسکین وہ نہیں ہے جو لوگوں کے دروازے کا چکر لگاتا ہے اور لقمہ دو لقمے اور کھجور دو کھجور لے کر لوٹتا ہے، مسکین وہ ہے جو اتنا مال نہیں رکھتا کہ اپنی ضروریات پوری کرے اور اس کی غربت کو لوگ سمجھ نہیں پاتے کہ اسے صدقہ دیں، اور نہ ہی وہ لوگوں کے سامنے کھڑے ہوکر ہاتھ پھیلاتا ہے ۔
یاد رکھیے! جو مال دار لوگ یتیموں، مسکینوں اور سفید پوش ضرورت مندوں کا خیال نہیں رکھتے، وہ دولت کے حریص اور پجاری ہیں اور عذاب الہی کے مستحق ہیں۔