دین، دلیل (قرآن و حدیث) کے ساتھ
(تحریر: ڈاکٹر مبشرہ صادق)
اس میں تو کوئی دو رائے ہی نہیں کہ اسلام وہ واحد دین ہے جو مکمل اور آفاقی ہے۔ لیکن ہماری بدقسمتی کہ آج ڈیرھ سو صدی گزرنے کے بعد بھی ہماری اپنی سوچ اسلامی تعلیمات کے بارے میں واضح نہیں ہے۔ ہم احکام الٰہی کی نوعیت پر آج بھی غیر واضح طرز عمل لیے ہوئے ہیں۔ کہیں بھی کسی ایک حکم کے مندرجات کو لے کر متفق نہیں۔
آخر ایسا کیوں ہے؟ ایک دین اللہ تبارک و تعالیٰ کا دیا ہوا ہے، اس کے احکام میں تضاد کیسے ہوسکتا ہے۔ تضاد ہماری سوچ میں ہے، تضاد ہمارے طرز عمل میں ہے۔
دنیا کا عام دستور ہے کہ جب کوئی مسئلہ پیش آئے یا کوئی گتھی نہ سلجھ رہی ہو تو اس پر ڈائیلاگ کیا جاتا ہے، اس پر کھل کر بات کی جاتی ہے، فریقین آمنے سامنے بیٹھتے ہیں، دلائل دیے جاتے ہیں، یہاں تک کہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے اور اس مسئلے کا حل بھی نکل آتا ہے۔ بعض اوقات کوئی مسئلہ ہوتا ہی نہیں ہے، صرف بات سمجھنے کی ہوتی ہے۔ لیکن جب اس پر گفت و شنید کی جاتی ہے تو بات سمجھ بھی آجاتی ہے۔ ترقی یافتہ اور تہذیب یافتہ اقوام کی یہی روش ہوتی ہے کہ اختلاف رائے ہونے کے باوجود ایک دوسرے کی رائے کا مکمل احترام کرتے ہوئے مکمل تحمل اور برداشت سے بات سنی جاتی ہے، معاملے کی تہہ تک پہنچا جاتا ہے۔ بعض اوقات غلط کوئی نہیں ہوتا بس چیزوں کو دیکھنے کا انداز مختلف اور جدا ہوتا ہے۔ دلائل کے ساتھ جو بات بیان کرے اس کو لاگو کیا جاتا ہے اور یہی مسئلے کا حل ہوتا ہے۔
یہ تو دنیاوی معاملات کی بات ہوئی لیکن دین کے معاملے میں ہم اس قدر متشدد رویہ لیے ہوئے ہیں کہ پہلے تو اپنی رائے کو فتویٰ بنا کر اس کا مکمل اطلاق چاہیں گے اور اگر کوئی دین کی نہیں بلکہ آپ کی رائے کی مخالفت کرے تو اس پر توہین مذہب کا الزام لگا کر دنیا سے آخرت کی طرف روانہ فرما دیں گے۔ دین اسلام کے بارے میں دو رائے ہو ہی کیسے سکتی ہے، جب کہ اس کے دلائل، اس کی بنیاد ہی قرآن و حدیث ہے، جن میں کوئی اختلاف ہے ہی نہیں۔ اگر آپ کو کہیں بھی قرآن و حدیث میں کسی معاملے میں کہیں کوئی تضاد نظر آتا ہے تو یہ سراسر ہماری لاعلمی کے باعث ہے۔ حدیث سراسر قرآن کی وضاحت و تشریح ہے۔ اگر قرآنی احکامات میں کہیں حدیث سے اضافہ بھی ہے تو یہ بھی حقیقت ہے کہ حدیث بھی تو وحی الٰہی ہی ہے۔ دونوں اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرٖ ف سے اتارے گئے احکام ہی ہیں دو ماخذ کی صورت میں۔
آج اسلام مخلاف پروپیگنڈا کے بہت سے میدانوں میں اسلام کو وجہ تنقید بنایا جاتا ہے، اور کہا جاتا ہے کہ یہ بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ چلنے والا دین نہیں ہے۔ حالانکہ ایسا ہرگز ہرگز نہیں ہے۔
یہ ساری صورتحال مسلمانوں کی اپنے دین سے دوری کی بنا پر ہی پیدا ہوئی ہے۔ یہ دنیا کا عام اصول ہے کہ کسی بھی موضوع پر بات کرنے کےلیے آپ کو اس فیلڈ میں ایک حد تک مہارت چاہیے ہوتی ہے۔ آپ کو اس فیلڈ کے بارے میں متعین اصول وقواعد کی روشنی اور دائرہ کے تحت بات کرنی ہوتی ہے۔ جب آپ طب پر بات کرکے اپنی رائے دینا چاہیں گے تو آپ سے سب سے پہلے پوچھا جائے گا کہ آپ نے میڈیکل کی تعلیم لی ہوئی ہے، اس فیلڈ کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟ تب آپ کی رائے کا احترام بھی کیا جائے گا۔ یہی اصول باقی فیلڈز پر بھی لاگو ہوتا ہے، جو کہ ایک عقلی بات ہے۔ کسی چیز کا علم ہوگا تو آپ حقائق پر مبنی بات کرسکیں گے، نہیں تو سوائے اس کے اور کیا ہوگا کہ آپ خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کی گمراہی کا بھی باعث بنیں گے اور اس شعبے کو بھی اپنی جہالت کی بنا پر رسوا کردیں گے۔
لیکن یہ ساری بے احتیاطی دین کے معاملے میں کیوں؟ دین اسلام کو پیش کرنے میں کیوں؟ کیونکہ جب ہم دین میں مذکور احکام و نواہی کا تذکرہ کرتے ہیں یا حقوق و فرائض کا تعین کر رہے ہوتے ہیں تو اس سے مراد یہ ہے کہ ہم کہہ رہے ہوتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسولؐ نے یہ بیان کیا ہے۔ کیا ایسا ہے؟ ہرگز نہیں! دین بیان کرتے ہوئے ہمارا زیادہ تر انحصار ہماری اپنی رائے پر ہوتا ہے جبکہ آپ کی یا میری رائے دین نہیں ہے۔
دین نام ہے اللہ اور اس کے رسولؐ کے اوامر و نواہی کا، دین نام ہے قرآن و سنہ کا، دین ہے دلیل کے ساتھ۔ اور دین کی دلیل ہے قرآن و سنہ۔ ہماری رائے دین نہیں ہے۔
یہ وہ اٹل حقیقیت ہے جس سے ہم سب منہ موڑے ہوئے ہیں۔ آج دین سمجھنے میں اتنی مشکلات پیش کیوں آرہی ہیں؟ اس لیے کہ اس کے بنیادی ماخذ کو چھوڑ کر ہم اپنی من مانی تاویلات کے پیچھے پڑے ہیں۔ فرقوں کی مذمت میں رسول اللہ نے بار بار کیوں فرمایا۔ کیوں کہ فرقہ بننے سے دین میں بھی تفرقہ ہوگا، مختلف مسالک اور فرقوں کی جنگ میں دین کو ہر کوئی اپنے انداز میں پیش کرے گا اور آج ایسا ہی ہے۔
ایک سادہ سا حکم ربانی ہے، جس کو ہر ایک نے اپنی اپنی سوچ اور رائے کے مطابق معنی دیا۔ آج ہمارے سامنے ایک حکم کے نیچے دس فرقوں کی دس مختلف بالکل الگ تشریحات ہیں۔ پھر پتا کیسے چلے گا کہ اس حکم ربانی میں رب کی کیا مراد ہے۔ اللہ آپ سے کس بات کا تقاضا کررہا ہے، اس کےلیے ہمیں صحیح حدیث کی طرف مڑنا ہوگا۔ آیات کے سیاق و سباق میں دیکھنا ہوگا۔ یہ حکم یہ نہی کس تناظر میں اترا اور اب ہم سے کس بات کا تقاضا کیا جارہا ہے۔ جب تک آپ مالک کے حکم کو نہیں سمجھیں گے، آپ اس پر کیسے عمل کریں گے۔ مالک کی رضا صرف اس میں نہیں کہ اس کے حکم پر سبحان اللہ کہہ کر خاموش بیٹھ جاؤ، بلکہ اس حکم کا مقصد تھا کہ اس کو سمجھ کر اس کی صحیح معنوں میں تعمیل کی جائے۔
فلاح یاب ہونا ہے تو دین کو سمجھنا ہوگا، پڑھنا ہوگا۔ قرآن و حدیث کو تراجم کے ساتھ پڑھیں، سمجھیں اور پھر اس پر عمل کریں۔ اپنی کمزوریوں کی بنا پر اپنے رب سے اس کی رحمت کے امیدوار رہیں۔ یہ ہے اسلام، دین عمل۔ اسلام ایک پریکٹیکل دین ہے۔ اگر ہم پر آج غیر مسلم حقوق و فرائض کے معاملے میں ہی سوال اٹھاتے ہیں تو ضروری ہے کہ اس کو دین کی روشنی میں جواب دیں، اپنی رائے کے مطابق نہں۔ اور دین کے تحت آپ تب ہی جواب دیں گے اگر آپ دین کو سمجھتے ہوں گے، آپ کا اپنا ذہن کلیئر ہوگا۔ اگر آپ خود ہی کنفیوز ہیں تو دوسروں کو مطمئن کیسے کریں گے؟ دین اسلام ابدی روشنی ہے، اس کی روشنی میں سب واضح ہے۔ اگر آپ کہیں کسی معاملے میں بھٹک گئے ہیں تو یہ آپ کی کم علمی ہے، دین کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔
دین کو سمجھنا ہوگا۔ یہ ہر مسلم مرد و عورت پر فرض ہے۔ علم حاصل کریں اور اپنے روزمرہ معاملات میں دین کا کیا حکم ہے، اس کو سمجھیں۔ یقین کیجئے جتنا دین کو آپ سمجھیں گے اتنا ہی اس کی حقانیت آپ پر واضح ہوگی۔ اگر دین دلیل کے ساتھ ہے تو پھر اس کی مخالفت ہے ہی نہیں۔ مخالفت وہیں ہوگی جہاں پر دلیل (قرآن و حدیث) کا فقدان ہوگا۔ کیونکہ سچ دلیل کے ساتھ ہوتا ہے، دلیل کے بنا کوئی سچ نہیں ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔