اسرائیل نواز آکٹوپس کی میڈیا پرگرفت (قسط چہارم)

کیمرا اسرائیل مخالف جذبات کو لگام دینے کے لیے موقر اخبارات میں پورے پورے صفحے کے اشتہارات شایع کرواتی ہے۔


وسعت اللہ خان October 26, 2024

امریکی میڈیا میں یہود دشمنی اور اسرائیل پر نکتہ چینی کے تدارک اور عرب مسائل کے کوریج کو ایک خاص حد سے آگے نہ بڑھنے دینے کا کام ایک علیحدہ میڈیا مانیٹرنگ این جی او کرتی ہے۔ اس کا نام ہے ’’ دی کمیٹی فار ایکوریسی ان مڈل ایسٹ رپورٹنگ ان امریکا ( کیمرا )۔

کیمرا کے لگ بھگ پینسٹھ ہزار ارکان ہیں۔ اس کی شاخیں اسرائیل اور برطانیہ میں بھی ہیں۔کیمرا کی ویب سائٹ پر مقاصد کے باب میں لکھا ہے ’’ اسرائیل کی متوازن میّڈیا کوریج کا مشن ‘‘۔

اس نگراں تنظیم کا قیام انیس سو بیاسی میں اخبار واشنگٹن پوسٹ میں لبنان پر اسرائیلی فوج کشی اور صابرہ و شتیلا کے پناہ گزین کیمپوں میں اسرائیلی نگرانی میں قتلِ عام کی نسبتاً آزادانہ رپورٹنگ کے ردِعمل میں اسرائیل مخالف جذبات کے توڑ کے لیے عمل میں آیا۔تاکہ میڈیا میں اسرائیل کے بارے میں ’’ متعصبانہ ‘‘ رپورٹنگ کا محاسبہ ہو سکے اور ’’ اصل حقائق و سچائی‘‘ کو اجاگر کیا جا سکے۔

کیمرا اسرائیل مخالف جذبات کو لگام دینے کے لیے موقر اخبارات میں پورے پورے صفحے کے اشتہارات شایع کرواتی ہے۔ناپسندیدہ میڈیا اداروں کو اشتہار دینے والی کمپنیوں اور اداروں پر اشتہاری بائیکاٹ کے لیے دباؤ ڈالتی ہے۔متعصب اخبارات و جرائد اور الیکٹرونک میڈیا کے خلاف احتجاج منظم کرتی ہے ، عربوں کے حق میں مضامین اور کالم لکھنے اور لیکچر منظم کرنے والوں کا گھیراؤ کرتی ہے۔

ہدف زدہ نیوز چینل یا اخبار پر اپنے ارکان اور رضاکاروں کے ذریعے فون کالز ، ای میلز اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے تب تک ’’ حرفی بمباری ‘‘ کرواتی ہے جب تک ہدف زدہ نیوز چینل ، اخبار یا میگزین غلطی کا اعتراف کر کے ’’ مثبت راہ ‘‘ پر نہ آ جائے۔کیمرا کا دعوی ہے کہ اس کی مہم کے نتیجے میں چھیالیس امریکی میڈیا ادارے ’’ راہِ راست ‘‘ پر آ چکے ہیں۔

( امید ہے اب آپ شکوہ نہیں کریں گے کہ مغربی بالخصوص امریکی میڈیا اسرائیل کے بارے میں اتنا جانبدار اور ریشہ خطمی کیوں ہے )۔

نیویارک میں قائم اسرائیلی قونصل خانے کے ایک سابق ترجمان کے بقول منظم لابنگ کا فائدہ یہ ہے کہ صحافی ، میڈیا مالکان اور سیاستداں اسرائیل پر نکتہ چینی کرنے سے پہلے دس بار سوچتے ہیں کہ چند ہی گھنٹوں میں ہزاروں معاندانہ کالز اور ای میلز کا سامنا کون کرے۔

سٹیفن زیونز جو کہ خود یہودی ہیں۔ان کا شمار مشرقِ وسطی پر لکھنے والے سرکردہ امریکی اسکالرز میں ہوتا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل نواز لابی کی جڑیں کچھ اس طرح پھیلی ہوئی ہیں کہ امریکا میں کسی سیمینار ، کانفرنس یا کیمپس کے مباحثے میں حقیقت پسند معروضی گفتگو تقریباً محال ہو گئی ہے۔اسرائیلی پالیسیوں پر نکتہ چینی رفتہ رفتہ یہود دشمنی کے برابر قرار دے دی گئی ہے۔جب پوچھا جائے کہ کسی ریاست کی سیاسی پالیسیوں پر تنقید کسی مذہبی یا نسلی گروہ سے تعصب کے برابر کیسے قرار دی جا سکتی ہے ؟ تو اس کے جواب میں یہ دلیل پیش کی جاتی ہے کہ اسرائیل پر نکتہ چینی بالاخر یہود دشمنی پر ہی منتج ہوتی ہے۔اسی لیے اسرائیل کے ناقدوں پر نگاہ رکھنا ضروری ہے کہ جانے وہ کب ریاستی پالیسی پر تنقید کرتے کرتے یہود دشمنی کی حد میں داخل ہو جائیں۔گویا گربہ کشتن روزِ اول۔

اب تو نوبت یہ آ گئی ہے کہ فلسطینیوں کے لیے حقِ خود اختیاری کی بات کرنا بھی یہود دشمنی کے دائرے میں شامل ہے۔سٹیفن زیونز لکھتے ہیں کہ میں جس یونیورسٹی میں پڑھاتا رہا ہوں۔مشرقِ وسطی کے موضوع پر میرے ہر مضمون کی اشاعت کے بعد یونیورسٹی انتظامیہ کو میرے خلاف ای میلز کا طوفان جھیلنا پڑ جاتا تھا۔کئی بار تو میرے بچوں کو بھی کال کر کے ہراساں کیا جاتا رہا ہے۔

سابق امریکی صدر جمی کارٹر نے اخبار گارڈین میں اپنے ایک مضمون میں لکھا کہ امریکی سیاست و صحافت میں فلسطینی مسئلے کو کبھی بھی مساوی وقت یا کوریج نہیں ملی۔خوف کا یہ عالم ہے کہ جمی کارٹر نے دو ہزار چھ میں جب ’’ فلسطین : پیس ناٹ اپارتھائیڈ ‘‘ کتاب لکھی تو انھیں کئی یونیورسٹی کیمپسز میں اپنی کتاب پر طلبا سے بات کرنے کی بہت مشکل سے اجازت ملی۔

موقر اسرائیلی اخبار ہاریٹز کے مطابق امریکی کانگریس میں جب بھی اسرائیل زیرِ بحث آتا ہے تو سیکڑوں جعلی اکاؤنٹس سے بھی ارکانِ کانگریس اور سینیٹرز کو طرح طرح کی تجاویز جاتی ہیں تاکہ کانگریس کا ’’ قبلہ ’’ درست رہے۔امریکی سی آئی اے کے ایک سابق اہلکار مائلز کوپ لینڈ کے بقول ہمارے اکثر سفارت کار اور انٹیلی جینس اہلکار صیہونیت کے اثرات کے سبب اپنے فرائص کے بارے میں فکرمند رہتے ہیں اور اکثر فیصلے پھونک پھونک کے کیے جاتے ہیں۔

محقق مشیل بارڈ نے انیس سو پینتالیس سے انیس سو چوراسی تک امریکا کے سات سو بیاسی خارجہ پالیسی فیصلوں کے مطالعے سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ساٹھ فیصد فیصلوں پر اسرائیلی لابی نے اطمینان کا اظہار کیا اور جب کسی فیصلے میں کانگریس اور وائٹ ہاؤس ہم آہنگ نظر آئے تو ایسے پچانوے فیصد فیصلوں کا اسرائیلی لابی نے خیرمقدم کیا۔

اکتوبر دو ہزار چھ میں رائے عامہ جانچنے کے ادارے زوگبی انٹرنیشنل نے دو ہزار تین کی جنگِ عراق کے بارے میں ایک عمومی سروے کروایا۔چالیس فیصد امریکی شہریوں کا خیال تھا کہ امریکا اس جنگ میں اسرائیلی لابی کے دباؤ کے سبب کودا۔

معروف دانشور نوم چومسکی کہتے ہیں کہ اسرائیلی لابی سے بھی زیادہ طاقتور تیل کمپنیوں اور اسلحے کی صنعت کی لابیاں ہیں۔دونوں صنعتوں کا روزگاری مستقبل مشرقِ وسطی بالخصوص خلیج سے وابستہ ہے اور دونوں لابیوں کے مفادات جب اسرائیلی لابی کے ساتھ مشترک ہو جاتے ہیں تو پھر ان کے سائے کی اجتماعی طاقت سے بچتے ہوئے خطے کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ غیر جانبداری کے ساتھ امریکی قومی مفادات کے مطابق کرنا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔

دی نیویارکر میگزین سے منسلک صحافی جیفری گولڈ برگ کے بقول ’’ لابی رات کی تاریکی میں کھلنے والا وہ پھول ہے جو دن کی روشنی میں مرجھا جاتا ہے ’’۔یعنی رائے عامہ اور فیصلہ سازوں کو تاریکی میں رکھنا ہی لابی کی زندگی ہے۔

اگلے مضمون میں ہم امریکا میں عرب لابی کے کردار و اثرات کے بارے میں جاننے کی کوشش کریں گے   (جاری ہے)۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں