کنول اور چنبیلی کو مہکنے دو
کنول کی فطری صلاحیت حشرات اور پانی کے ضرر رساں کیڑوں سے لڑ کر جدوجہد کے نتیجے میں سارے منفی کرداروں کی روک تھام یا ٹانگ کھینچنے کے عمل سے بچتے بچاتے اپنے اعتماد اور صلاحیت سے نمو پا کر دنیا میں خوبصورتی اور عزم کا نشان بن کر’’کنول‘‘ بننا ہے۔ اسی طرح ’’چنبیلی‘‘ کے پھول کی بھینی بھینی خوشبو شام سمے سے رات کے خنک پہر تک انسانی تخلیق کے وہ گوشے وا کر دیتی ہے جن سے دوستی، محبت، امن اور سنگی سے محبت بھرے جذبات کی آمیزش انسان پر وہ سحر طاری کردیتی ہے جو سب کے لیے امن و سکون کی شانتی کا پیغام ہوتا ہے۔
سوچتا ہوں کہ ہم ’’کنول ‘‘ کی خوبصورت جدوجہد اور چنبیلی کی جہان کو معطر کردینے والی صلاحیت کو نجانے کیوں اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے سے گریز پا ہیں، ہمارے ہاں جانے کیوں ماضی کی دانش کو کریدنے اور اس میں چھپے ہوئی زندگی کو دیکھنے اور غورکرنے کا رجحان کیوں تنزلی کی طرف جارہا ہے، کیا ٹیکنالوجی کی جدت نے واقعی ہماری دانش پرکاری ضرب لگادی ہے کہ ہم ماضی کی دانش پر غور و فکرکو مکمل بھول چکے ہیں، لگتا ایسا ہی ہے کہ آج کی نسل کو ٹیکنالوجی کی ترقی کی آڑ میں جہاں دانش پر غور و فکر سے روکا جا رہا ہے، وہیں نوجوان نسل جدید ٹیکنالوجی کے پیچھے ایسا سرپٹ دوڑ رہی ہے کہ نہ اس میں سماج کو بنانے کی فکر ہے اور نہ ہی اہل دانش کے ان مثبت رویوں کو دیکھنے کی فرصت ہے جن پر غور و فکر پیدا کرنا آج کے سماج کا نہ صرف فرض ہے بلکہ اہل دانش کی فکر میں تحقیق کے بعد اس میں مزید وسعت پیدا کرنے کی ضرورت ہے،
اب تو نوجوان نسل سماجی بیگانگی کے ایسے پھیرے میں مبتلا ہو چکی ہے جہاں وہ جھوٹ کو سچ، ملامت کو مزاحمت اور انتشار کو جدوجہد سمجھنے لگی ہے۔ اس مرحلے پر جب سماج سیاسی اور معاشی بے راہ روی کا شکار رہے گا تو خطے کی ترقی اور آپسی ہم آہنگی کے تخلیقی سوتے کیونکر پھوٹیں گے؟ ایسے ماحول اور جاں سوز لمحات میں میرے دیس میں شنگھائی سربراہی کانفرنس نے ایک مرتبہ پھر دو روٹھے پڑوسیوں کو ایک دوسرے سے باہمی ربط اور آپسی رشتوں کو مضبوط کرنے کا بہانہ فراہم کیا ہے، جس سے فائدہ اٹھایا جانا دراصل دانش کی فتح کہلایا جاسکتا ہے۔
پاکستان میں شنگھائی سربراہ کانفرنس کے اس اہم موقعے پر تو یہ ممکن ہو ہی گیا کہ بھارت اپنے قومی پھول ’’ کنول‘‘ ایسا اور پاکستان اپنے قومی پھول ’’چنبیلی‘‘ ایسی مہک امن کی خاطر خطے کے امن پرور عوام میں ایسی بکھیر دے کہ دونوں ممالک کے عوام آپسی رشتوں کو ’’کنول‘‘ اور ’’چنبیلی‘‘ کی خوبصورتی اور تازگی مانند استوار کریں، خطے میں ’’چنبیلی‘‘ اور ’’کنول‘‘ کی سیوا کر کے ان دونوں قومی پھولوں ایسے رویے اپنی زندگی اور اپنے رہن سہن کا شعار بنا لیں۔ دونوں ممالک کے امن پرور عوام ہمیشہ سے ایک دوجے کے دکھ سکھ کے ساتھی اور ساجھے دار رہے ہیں اور ایسا ہونا آج بھی ممکن ہے،
جب دس برس کے وقفے کے بعد شنگھائی سربراہ کانفرنس میں بھارت کے وزیر خارجہ جے شنکر جی اسلام آباد آسکتے ہیں، بلاول بھٹو بطور وزیر خارجہ بھارت جاسکتے ہیں تو پاکستان اور بھارت کے بیچ اہل دانش، صحافی، فن و ثقافت کے مہان فنکار اور کرکٹ، ہاکی، فٹبال کے کھلاڑی کیوں نہیں ایک دوسرے سے مل کر خطے کے ان دو ممالک کی معاشی، سیاسی اور امن و شانتی کی آشا کو ایک دوسرے کے عوام میں تقسیم کرسکتے ہیں، ایسا ہوسکتا ہے، ہوتا رہا ہے، پردھان منتری واجپائی کے امن کو بھارت کی سرکار خطے کی ترقی اور محبت میں تقسیم در تقسیم کرسکتی ہے،
کیونکہ ایسا ہوتا رہا ہے جب پاکستان اور بھارت کے بچھڑے خاندان ویزے کی سہولت کے تحت ملے ہیں، ایک دوجے کے دکھ سکھ کی ساجھے داری اور رشتہ داری کی ہے۔ یہ ماضی قریب ہی کی بات ہے کہ پاک انڈیا فورم، سارک ممالک کے طلبہ وفود، اہل دانش اور صحافی ایک دوسرے کے ممالک میں آسانی سے آتے رہے ہیں اور محبتوں کو بڑھاتے رہے ہیں اور ایک دوجے کے ساتھاری رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا دونوں ممالک کی سرکار اور وزارت خارجہ کے بس میں یہ بات نہیں کہ معاشی محرومی کے شکار خطے کے دو پڑوسی ممالک کے عوام کی خوشحالی کو ’’کنول‘‘ مانند خوبصورت اور ’’چنبیلی‘‘ مانند امن اور محبت سے معطر کردیں؟ ایسا ہونا اس وقت ہی ممکن ہے جب عملی اقدامات کیے جائیں اور متنازعہ امور اور بیانات سے پرہیزکیا جائے۔