جدید ادبیات و علمیات کے شناور، ڈاکٹر اسلم انصاری

جس آبائی گھر میں ان کی پرورش ہوئی، وہ اپنے محلے میں ’’ پھولوں والی حویلی‘‘ کے نام سے مشہور تھا

ملتان کی تاریخی، ثقافتی، روحانی، علمی، ادبی اہمیت دنیا بھر میں اپنا مقام رکھتی ہے، یہ سرزمین بصیرت کے نور سے دمکتی ہے۔ بہار کا موسم آتے ہی یہاں ہر طرف خوشبودار پھل اور پھول کھلنے لگتے ہیں، ایسے میں بہائو الدین ذکریا ملتانیؒ کے روضے کی جالیوں سے باہر جھانکنے والی کرنوں سے سورج بار بار آ کر منہ دھوتا تھا، اسی دوران 30 اپریل 1939ء کے ایک مبارک دن بیرون پاک گیٹ ملتان کے ایک پرانی طرزکے مکان میں حاجی قاسم علی کے ہاں ایک بیٹے کی پیدائش ہوئی، جس کا نام محمد اسلم رکھا گیا جو بعد میں ڈاکٹر اسلم انصاری کے نام سے علمی اور ادبی حلقوں میں معروف ہُوا۔

 ان کے آبائو اجداد ملتان کے قدیم باسی تھے، ان کے گھرکا ماحول مذہبی اور ادبی تھا جس آبائی گھر میں ان کی پرورش ہوئی، وہ اپنے محلے میں ’’ پھولوں والی حویلی‘‘ کے نام سے مشہور تھا۔ ان کا کتابیں پڑھنے کا آغاز بھی اسی حویلی سے ہُوا۔ بقول ان کے کہ ’’ میں نے شعور کی آنکھ کھولی تو میرا گھر ہر قسم کی علمی، ادبی تاریخی اور مذہبی کتابوں سے بھرا پڑا تھا لیکن میں نے جس پہلی کتاب کو بغیر اُستاد کی مدد کے خود بہ خود پڑھنا شروع کردیا تھا وہ دارالاشاعت پنجاب ( لاہور) کی شائع کردہ ’’ داستانِ امیر حمزہ‘‘ کی ایک دلچسپ تلخیص تھی جو ابوالاثر حفیظ جالندھری کے زورِ قلم کا نتیجہ تھی۔‘‘

شرارِ زندگی بھی کیا چراغ زیرِ داماں ہے

بہاروں میں بھی گل شعلہ بجاں معلوم ہوتے ہیں

اورینٹل کالج کے دنوں میں ہی ان کی ملاقات ناصر کاظمی سے ہوئی جو بعد میں جلد ہی دوستی میں بدل گئی، ڈاکٹر اسلم انصاری نے ابتدائی طور پر ناصر کاظمی کی غزل سے فریاد کون فن کے سانچے میں ڈھالنے کا اسلوب سیکھا، ناصر کاظمی نے کئی برس جونیئر ہونے کے باوجود انہیں اپنا ہم عصر قرار دیا۔ ناصر کاظمی کے شعری مجموعے ’’ پہلی بارش‘‘ کا نام بھی ڈاکٹر اسلم انصاری نے تجویز کیا۔ اورینٹل کالج میں کچھ عرصہ بطور لیکچرار کے تدریسی امور بھی انجام دیے۔

اسی دوران انہوں نے بی سی ایس کا امتحان بھی پاس کیا لیکن کسی قسم کی کوئی ملازمت اختیار نہ کر سکے۔ 1966ء میں پنجاب پبلک سروس کمیشن کی طرف سے ان کا لیکچرار (اُردو) کی حیثیت سے پہلی بار تقرر ہُوا اور جنوبی پنجاب کے مختلف تعلیمی اداروں میں تدریسی خدمات انجام دیتے رہے۔ 1955ء سے 1959ء تک وہ ملتان آرٹس کونسل کے ریذیڈنٹ ڈائریکٹر بھی رہے۔ 1982ء میں بطور ان کی اسسٹنٹ پروفیسر ترقی ہوئی اور بعد ازاں انہیں گورنمنٹ کالج ملتان ( بوسن روڈ) بھیج دیا گیا۔ تب سے اپنی ریٹائرمنٹ 1999ء تک وہ اسی کالج میں تدریسی امور انجام دیتے رہے۔ معروف شاعر پروفیسر اعتبار ساجد بتاتے ہیں کہ ’’ میں 1993ء میں ڈاکٹر اسلم انصاری سے آشنا ہوں، جب وہ ایک کالج میں خوش پوش لیکچرار تھے اور ٹانگے پر سفرکیا کرتے تھے، وہ بہت عمدہ مترنم شاعر تھے اور بلاشبہ ملتان کے اہم شعراء میں ان کا شمار ہوتا تھا ان کی کہی غزلیں بہت مشہور ہوئی، وہ نہایت ہی نازک مزاج اور ربوط رنج شاعر تھے۔‘‘

ڈاکٹر اسلم انصاری نے شاعری کا باقاعدہ آغاز ساٹھ کی دہائی میں کیا۔ وہ ایک صاحبِ طرز شاعر، بالغ نظر نقاد، سنجیدہ ماہر اقبالیات اور اہم محقق تھے۔ وہ ہمارے عہدکی پہچان، جدید اُردو غزل کی معتبر آواز اور فارسی، اُردو، انگریزی ادبیات و علمیات کے شناور تھے۔ وہ اپنی ذات میں ایک پورا ملتان لیے پھرتے تھے، ڈاکٹر صاحب نے شاعری، تنقید و تحقیق، اقبالیات، کالم نگاری اور ڈراما نگاری کے میدان میں خود کو ملتان کی نمایندہ شخصیت کے طور پر منوایا۔

مجھے ان کے اولین شعری مجموعہ ’’خواب و آگہی‘‘ پڑھنے کا کئی بار اتفاق ہو چکا ہے جسے ۱۹۸۲ء میں ’’ کاروانِ ادب‘‘ ملتان نے شائع کیا، جو دو سو آٹھ صفحات پر مشتمل ہیں، جس میں ان کی انہتر غزلیں اور ستاون نظمیں شامل ہیں۔ یہ شعری مجموعہ خاصی تاخیر کے بعد منظر ِعام پر آیا۔ جس میں ان کی ابتدائی دورکی غزلوں میں ناصر کاظمی کے اثرات محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ ’’ پاکستانی ادب کے معمار‘‘ سیریز ڈاکٹر اسلم انصاری جس کے مصنف محمد شفیع ہے، یہ کتاب ڈاکٹر اسلم انصاری کی شخصیت اور فن کا ہر طرح سے احاطہ کرتی ہے۔

اس کتاب کے صفحہ نمبر چوبیس پر درج ہے کہ ’’ یہ وہی غزلیں ہیں جن سے متاثر ہوکر ناصرکاظمی نے ’’ پہلی بارش‘‘ کے ذریعے اپنے عہد کو سیراب کیا۔ اسلم انصاری کی یہ غزلیں ۱۹۶۲ء کے ماہنامہ ’’ ادبِ لطیف ‘‘ میں شائع ہوئی تھیں۔‘‘ اس شعری مجموعہ میں بہت سی نظمیں مشہور ہوئی، ان نظموں میں سے ’’ تمام شہروں میں گفتگو کے چراغ ہم ہیں‘‘ کے عنوان سے یہ نظم مجھے بے حد پسند ہے۔ اس کتاب کے دیباچہ میں احمد ندیم قاسمی لکھتے ہیں کہ ’’ ہر اہم شاعر کی طرح اسلم انصاری بھی اپنے عہد کی ( ذاتی اور اجتماعی) صداقتوں کا شاعر ہے۔

مگر قدرت نے اسے صداقت کے شعری اظہار کا ایسا بے نظیر سلیقہ ودیعت کر رکھا ہے کہ اس عہد کی صداقت اس کی شاعری میں منتقل ہوکر ہر عہد کی صداقت قرار پاتی ہے۔ دراصل وہ لمحہ موجود یا لمحہ گزراں کو ماضی کی روایات اور مستقبل کے امکانات سے مربوط کے تخلیق شعر کرتا ہے۔ جب اس عہد کی جدید امیجری، جدید علامتیں اور جدید استعارے اسلم کی گہری عصری بصیرت اور آفاق گیر تفکر کے حوالے سے اس کے شعر میں وارد ہوتے ہیں تو اظہار و ابلاغ اور رنگ وآہنگ اور معنی و مفہوم کا وہ معجزہ تشکیل پذیر ہوتا ہے جس کا نام ’’خواب و آگہی‘‘ ہے۔‘‘

ڈاکٹر اسلم انصاری کی نظم میں روحِ عصرکی آواز سنائی دیتی ہے جبکہ ان کی غزل میں حرف، لفظ اور ان سے بننے والی تحریرکو بطور موضوع برتا گیا ہے، جس سے محسوس ہوتا ہے کہ اس کی یہ جہت محض روایت کا حصہ نہیں بلکہ خود اس کی کسی داخلی طلب کی زائیدہ ہے۔ انہوں نے جو غزل میں نقش کھینچے ہیں، وہ کسی صورت رائیگاں نہیں جانے والے بقول اس شعر کہ :

کوئی مرقع ہستی پڑھے تو اس پہ کھلے

کہ نقش کتنے یہاں رائیگاں بنائے گئے

اقبال شناسی وہ علمی روایت ہے، جس کی بنیاد حیات و افکار اقبال کی تفہیم کے سلسلے میں کی جانے والی اب تک کی کاوشوں کو قرار دیا جاتا ہے اور اقبال شناسی کی روایت سے وابستہ اہلِ علم کو اقبال شناس، اقبال اسکالر یا ماہر اقبال کہا جاتا ہے۔ ڈاکٹر اسلم انصاری ہماری فکری تہذیبی روایت کے تخلیقی تسلسل کے صاحبِ اسلوب شاعر اصیل فکر دانشور، عمیق محقق اور ایک متوازن اقبال شناس تھے۔ اس حوالے سے لکھاری جلیل عالی رقم طراز ہے کہ ’’ انہوں نے اقبالیات کے حوالے سے بہت وقیع تحقیقی مقالات بھی تحریر کیے اور اپنے منفرد اسلوب میں اس کے شعر و فکر کی حرکی تفہیم کے زوایے بھی اُجاگر کیے۔ صوفیانہ مزاج رکھنے کی وجہ سے ان کی تجریاتی مطالعات میں کلی تصورِ صداقت کی جھلک نمایاں ہے، وہ ہمارا بہت قیمتی تہذیبی اثاثہ تھے۔‘‘

ڈاکٹر اسلم انصاری کی دیگر تصانیف میں Kafees کے عنوان سے خواجہ غلام فرید کی منتخب کافیوں کا انگریزی ترجمہ ( بہ اشتراک جیلانی کامران)، خواب وآگہی (شعری مجموعہ)، اقبال عہد آفرین ( اقبالیات)، نقش عہد و صال کا (شعری مجموعہ)، فیضانِ اقبال (منظوم اقبالیات)، چراغ لالہ (فارسی مثنوی)، شعر و فکرِ اقبال (اقبالیات)، تکلمات ( ادبی کالم)، بنیری وچ دریا (سرائیکی ناول)، نگارِ خاطر (فارسی مثنوی)، ادبیات عالم میں سیر افلاک کی روایت (تنقید)، اردو شاعری میں المیہ تصورات (مقالہ ڈاکٹریٹ)، چوہدری افضل حق اور ان کی تصنیف ’’ زندگی‘‘ سوانح اور فکری و فنی مطالعہ (تنقید و تحقیق) ، شبِ عشق کا ستارہ، شیشوں کی اوٹ میں (افسانے)، تحریرِ نغمہ، تاریخ و تہذیب ( تنقیدی، تاریخی و تحقیقی مضامین) وہ دیگر شامل ہیں۔ ان کے کلیات شعر و فارسی ’’ گلبانگِ آرزو‘‘ کے نام سے اکادمی ادبیات پاکستان نے شائع کیا، جس کی تعارفی تقریب ہی آخری ثابت ہوئی۔

ان کی علمی، ادبی خدمات کے اعتراف میں بہت سے اعزازت سے بھی نوازا جاچکا ہے، ان کے اعزازت میں ان کی شخصیت اور فن پرکئی مقالہ جات لکھے جا چکے ہیں۔ ڈاکٹر اسلم انصاری جیسی کثیرالجہت تخلیقی شخصیت کا انتقال 22 اکتوبر 2024ء کے دن ہُوا۔ جن کے بچھڑجانے سے ہماری ادبی و فکری دنیا میں ان کی موجودگی کا خلا دیر تک محسوس کیا جاتا رہے گا۔ آخر میں ان کی شہرۂ آفاق غزل کے ان اشعارکے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے۔

میں نے روکا بھی نہیں اور وہ ٹھہرا بھی نہیں

حادثہ کیا تھا جسے دل نے بھلایا بھی نہیں

جانے والوں کوکہاں روک سکا ہے کوئی

تم چلے ہو توکوئی روکنے والا بھی نہیں

Load Next Story