چھبیسویں ترمیم، عدلیہ کی آزادی
آئین میں ترامیم لانا، پارلیمنٹ کا استحقاق ہے، اب وہ ترامیم ضرر رساں ہوں یا فائدہ مند۔ پارلیمان ہو یا عدلیہ یا پھر مقننہ یہ تمام اداروں کے دائرہ اختیار، دائرہ کار اور اختیارات کی تقسیم آئین میں درج کردی گئی ہے اور ان تمام کے اختیارات کی نوعیت الگ الگ ہے اور یہ نوعیت یقینی طور پر برقرار رہنی چاہیے۔ عدلیہ کے آئین کی تشریح کا پاور، عدالتِ عظمیٰ کا فیصلہ آخری اور حتمی ہوتا ہے۔
اس پاور کا دائرہ کار اپنی مثال آپ ہے۔ یہ اختیار پارلیمان کے پاس نہیں، اگر اس اختیار کا استعمال درست ہو تو سوسائٹی مضبوط اور آئین کی بالادستی قائم ہوتی ہے لیکن اگر اس کا استعمال غلط ہو تو سوسائٹی میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ دنیا کے کئی ممالک بشمول امریکا کی اعلیٰ عدالتوں نے آئین کی تشریح کرتے ہوئے ایسے فیصلے صادر کیے ہیں جن کے نتائج معاشرے کے لیے دیرپا ثابت ہوئے۔Roe v. Wade (1973) اس کیس کے امریکا کی سوسائٹی پر فیصلہ کن اثرات مرتب ہوئے۔
بلآخر سپریم کورٹ نے abortion کے حقوق دیے، کیونکہ حقوق کے لیے ایک طویل جدوجہد کی گئی تھی۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے زمانے میں یہ کوشش کی گئی کہ امریکا کے سپریم کورٹ کی2022 کی ججمنٹ Dobbs VS Jackson 2022 کو اوور رول کرنے کے لیے امریکا کے آئین میں ترمیم لائی جائے کیونکہ اس ججمنٹ میں (1973) میں دیے گئے abortion کے حقوق واپس لیے گئے۔ ڈیمو کریٹس اور ریپبلکنز کے درمیان ایسے کئی تضادات ہیں جن میں عدالتیں خود بھی بٹی ہوئی ہیں۔
امریکا میں اس وقت ڈیموکریٹس کی حکومت ہے اور عدالتوں میں فائز جج صاحبان قدامت پسند نظریات رکھتے ہیں اور یہ سوچ ریپبلکن پارٹی کے نزدیک ترین ہے۔ ڈیموکریٹک سوچ رکھنے والے جج سپریم کورٹ میں اقلیت میں ہیں، اس لیے ڈیموکریٹس یہ چاہتے ہیں کہ آئین میں ترامیم لائی جائیں اور سپریم کورٹ کے جج صاحبان کی نامزدگی اور تقررکے طریقہ کار میں بھی تبدیلی لائی جائے اور اب جب بھی امریکا کے آئین میں تبدیلی لائی گئی تو اسی حوالے سے ہوگی۔
امریکا کے آئین میں ترامیم کا طریقہ کار انتہائی پیچیدہ اور مشکل ہے بلکہ ناممکن ہے۔ 1973 سے لے کر اب تک پچاس سال گزر چکے ہیں لیکن اب تک امریکا کے آئین میں صرف ایک ترمیم ہوئی۔ امریکا کا آئین تو وہ ہی ہے مگر وہاں آئین کی تشریح وہ جج جو ریپبلکن سوچ رکھتا ہے وہ مختلف تشریح کرتا ہے اور وہ جج جو ڈیموکریٹک سوچ رکھتا ہے وہ اس کی الگ تشریح کرتا ہے۔
ذوالفقارعلی بھٹو کے کیس نے ہمیں یہ بتایا کہ آئین کی تشریح ایک آنکھ سے کی جائے جو وفاقی ہو۔ جسٹس دراب پٹیل بھی یہی کہتے تھے کہ آئینی عدالت الگ ہونی چاہیے اور ایسا ہی دنیا کے کئی ممالک میں رائج ہے۔ قائد ِاعظم اور ہمارے ملک کی دو بڑی پارٹیاں بھی اسی نتیجے پر پہنچیں اور میثاقِ جمہوریت رقم کیا گیا۔ اس عدالت کو آئینی بھی کہا جاسکتا ہے اور وفاقی بھی کیونکہ تمام صوبوں کی برابر نمایندگی ہوئی ہے جیسا کہ سینیٹ میں ہے۔
آئین میں ترامیم، پارلیمان کا کام ہے مگر ایسے کئی مقدمات ہیں جن کے فیصلے صادر کرتے ہو ئے سپریم کورٹ نے آئین میں ترامیم کر ڈالیں جیسا کہ آرٹیکل 63A ۔ یہ بھی غنیمت جانیے کہ کورٹ نے ریویو میں درستگی کردی، ورنہ امریکا کی طرح ہمیں بھی جھیلنا پڑتا کیونکہ امریکا کے آئین میں ترمیم لانا تقریباً ناممکن ہے۔
امریکا میں اب یہ کام کورٹ کرتی ہے، کورٹ فیصلے صادر کرتی ہے اور وہ فیصلے سب پر واجب ہیں۔ امریکا میں ان معاملات پر ایک بحران دستک دے رہا ہے،کیونکہ ڈیفیکٹو پاور آئین کو تحریر کرنے کا کورٹ کے پاس ہے اور اس طرح اس اختیار conservative سوچ رکھنے والوں یعنی ٹرمپ کی پارٹی کے پاس ہے۔
انیسویں ترمیم کے بعد جو کہ عدالتِ عظمیٰ یا پھر ایسا کہیے کہ اس وقت کے انتہائی طاقتور چیف جسٹس افتخار احمد چوہدری نے زبردستی کرائی تھی اور یہ وہ زمانہ تھا کہ ایک آمر کو ہٹانے میں تمام سیاسی جماعتیں ناکام ہوئیں اور وکلاء تحریک کامیاب ٹھہری۔ اب آئین کے اندر یہ چھبیسویں ترمیم ) 26th Amendment ( ہوئی ہے جو بنیادی طور پر انیسویں ترمیم کے پیدا کیے ہوئے عدم توازن کو توازن میں لا رہی ہے اور ساتھ ہی عدلیہ کی آزادی کو محدود بھی کر رہی ہے۔
ایسے ہی فیصلوں سے عدلیہ کی ساخت اور اخلاقی حیثیت پر منفی اثر پڑا۔ پاکستان میں یہ سلسلہ جسٹس منیر سے چلا اور پھر جسٹس ثاقب نثار سے جسٹس عمر عطا بندیال تک خطرناک صورتحال اختیار کرگیا۔ آرٹیکل63A میں جو ترمیم کی گئی تھی، سپریم کورٹ نے خود Review میں ختم کردی اور یوں پارلیمنٹ کا وقار بلند ہوا ۔
اب حاضر ہے چھبیسویں ترمیم! اگر دیکھا جائے تو یہ حالات بھی عدلیہ نے خود پیدا کیے تھے۔ پہلے ہائی کورٹ سے سینیارٹی کے اصول کو روندتے ہوئے اپنی مرضی کے جج صاحبان کو سپریم کورٹ میں لائے۔ ان کو ایک طاقتور سیاسی آواز بھی درکار تھی جو پی ٹی آئی دے رہی تھی ، یوں ایک نئے انداز سے آمریت قوم پر مسلط کی گئی۔ یوں سمجھیے کہ یہ طویل سفر ہم نے Military Coup سے لے کر Judicial Coup تک کیا۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا چھبیسویں ترمیم اس ملک میں نئے سفرکا آغاز کرتی ہے؟ یقینا یہ ایک نئی سمت ہے۔انیسویں ترمیم کے ذریعے جج صاحبان کی تقرری کا اختیار عدلیہ کو دیا گیا،لیکن جج صاحبان نے کوئی معیار نہیں بنایا، نہ ہی ہائی کورٹ میں اور نہ ہی ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ تک۔ یقینا بہت اچھے جج صاحبان آئے مگر ایسے بھی آئے جن کی ڈگری پر سوال اٹھے۔ یہ عدلیہ کا اختیار تھا کہ الزام لگنے کے بعد ایسے جج صاحبان کے کام کو روک کر انکوائری بٹھانی چاہیے تھی مگر ایسا ہو نہ سکا۔
ایک یہ جو کہا جارہا ہے کہ چھبیسویں ترمیم سے عدلیہ کی آزادی سلب ہوئی ہے مگر چھبیسویں ترمیم کے لیے حالات عدلیہ نے خود بنائے۔ آرٹیکل 63Aکو دوبارہ لکھ دیا گیا، دراصل یہی وہ فیصلے تھے جنھوں نے سیاسی عدم استحکام پیدا کیا، ملک کی معیشت کو کمزور بنایا اور باور یہی کروایا گیا کہ ایک مخصوص گروہ ہے جو تمام سیاہ و سفید کا مالک ہے اور یہی وہ گروہ ہے جس نے ملک کو اس نہج تک پہنچایا ہے۔
امریکا میں Roe v. Wade (1973) ایک آزاد خیال سوچ کی جیت ہے جس کو آپ ڈیموکریٹک پارٹی کہیے یا مارٹن لوتھرکنگ کی سوچ کہیے اور 2022 جو فیصلہ سپریم کورٹ نے سنایا Dobbs VS Jackson 2022 وہ ٹرمپ یا کنزرویٹو سوچ کی فتح ہے۔
اب عدلیہ کی آزادی کی جدوجہد ایک دفعہ پھر شروع کرنی ہوگی۔ 2007 میں لڑی گئی عدلیہ کی آزادی کی جنگ خود عدلیہ نے اپنے فیصلوں اور اسٹبلشمنٹ نے خراب کی۔ اب ایک نئی سوچ کے ساتھ اس جدوجہد کو شروع کرنا ہوگا، چھبیسویں ترمیم کو مستقبل میں تحلیل کرنا ہوگا ، نئی ترمیم کے ذریعے ججز کو نہیں بلکہ عدلیہ کو مضبوط کرنا ہوگا، جج کو نہیں آئین کو ٹھیک کرنا ہوگا۔
جو لوگ قاضی فائز عیسیٰ سے نالاں ہیں، تاریخ انھیں غلط ثابت کرے گی۔ چھبیسویں ترمیم پارلیمنٹ نے کی ہے۔ قاضی فائز عیسیٰ نے صرف 63A کی ججمنٹ کو ریویو میں ختم کیا جو ڈھائی سال سے زیرِ التواء تھا، وہ فیصلہ غلط تھا۔ قاضی فائز عیسیٰ نے عدالت کی تمام کارروائی کو براہِ راست نشر کرایا۔ وہ اپنے Master of Roster کے اختیارات سے دستبردار ہوئے، جن پر عمر عطا بندیال نے حکمِ امتناع صادرکیا تھا۔
یہ شخص تاریخ میں سنہرے حروف میں لکھا اور یاد کیا جائے گا کیونکہ اس نے پارلیمنٹ کو اپنا کھویا ہوا وقار واپس دلوایا ہے اور کہا ہے کہ آئین بالاتر ہے اور آئین میں ترمیم کا حق صرف پارلیمنٹ کا ہے۔ marbury v madison 1803 کیس کی یاد دلانا ضروری ہے جس میں Judicial Review کی بنیادیں ڈالی گئیں، مگر ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ Judicial Review کی آڑ میں جو Judicial Activism کیا گیا اور سوموٹو ایکشن لیے گئے وہ بھی عدلیہ کے تاریک پہلو ہیں۔