پاکستان میں صحت کی سہولتوں تک رسائی ایک خواب
صحت ہر شہری کا بنیادی حق ہے، لیکن پاکستان میں یہ حق عام آدمی کی پہنچ سے کوسوں دور ہے، شہریوں کو صحت کی سہولتوں تک رسائی میں جو رکاوٹیں ہیں، وہ نہ صرف سماجی بلکہ اقتصادی اور سیاسی عوامل کا نتیجہ ہیں۔ پاکستان میں صحت کا نظام ایک پیچیدہ مسئلہ بن چکا ہے، جہاں ایک طرف سرکاری اسپتالوں کی حالت زار ہے، تو دوسری طرف نجی اسپتالوں میں علاج معالجہ عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہے۔
اگر ایک متوسط طبقے کے فرد کی بات کی جائے تو اسے صحت کی بنیادی سہولتوں کے حصول کے لیے کئی طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سب سے پہلے سرکاری اسپتالوں کا حال دیکھ لیں، جہاں مریضوں کی تعداد دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے، لیکن ان کا علاج کرنے والے ڈاکٹروں اور عملے کی تعداد اس کے مقابلے میں کم ہوتی جا رہی ہے۔
ایک عام شہری جب بیماری میں مبتلا ہوتا ہے، تو سب سے پہلے وہ سرکاری اسپتال کا رخ کرتا ہے، لیکن وہاں اسے لمبی قطاروں اور طبی عملے کی عدم موجودگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ڈاکٹرز یا تو چھٹی پر ہوتے ہیں یا پھر ان کے آنے کا وقت مقرر نہیں ہوتا۔ یہ صورتحال مریض کے لیے انتہائی پریشان کن ثابت ہوتی ہے۔ دوسری طرف، نجی اسپتالوں کا منظرنامہ بالکل مختلف ہے۔
یہ اسپتال جدید مشینری اور بہترین سہولتوں سے لیس ہوتے ہیں، لیکن ان کی فیسیں عام شہریوں کے لیے ناقابل برداشت ہوتی ہیں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ شہری جو معاشی طور پر مستحکم نہیں ہیں، اپنے علاج کے لیے کہاں جائیں اورکیا کریں؟ انھیں کیا مرنے کے لیے چھوڑ دیا جائے کیونکہ وہ علاج کرانے کی سکت نہیں رکھتے۔
پاکستان میں صحت کی سہولتوں تک رسائی کا ایک اور سنگین پہلو دیہی علاقوں کی حالت زار ہے۔ شہر میں رہنے والے لوگ شاید اس بات کا تصور بھی نہیں کرسکتے کہ دیہاتوں میں صحت کی سہولتیں کتنی ناقص ہیں۔ ان علاقوں میں بنیادی صحت مراکزکی کمی، ڈاکٹرزکی عدم موجودگی اور سہولتوں کا فقدان ایک ایسا مسئلہ ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ دیہی علاقوں میں رہنے والے افراد کو اپنے علاج کے لیے میلوں سفرکرنا پڑتا ہے اور اکثر اوقات وہ اپنی بیماری کی سنگینی کو سمجھنے سے پہلے ہی موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ حکومت کہاں ہے؟ حکومت نے صحت کی سہولتوں کے نام پر جو منصوبے بنائے تھے، وہ کہاں تک پہنچے؟ اگرچہ حکومت کی طرف سے ہر سال صحت کے شعبے میں بجٹ مختص کیا جاتا ہے، لیکن اس کا زیادہ تر حصہ یا تو بدعنوانی کی نذر ہوجاتا ہے یا پھر ان منصوبوں پر خرچ ہوتا ہے، جو عام آدمی کی رسائی میں نہیں ہوتے۔
پاکستان کے صحت کے نظام میں ایک اور اہم مسئلہ ادویات کی عدم دستیابی ہے۔ سرکاری اسپتالوں میں مفت ادویات کا وعدہ توکیا جاتا ہے، لیکن مریضوں کو اکثر اوقات باہر سے مہنگی دوائیں خریدنی پڑتی ہیں۔ فارمیسیز میں ادویات کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہوتی ہیں اور عام آدمی کے لیے دوا خریدنا تقریبا ناممکن ہوتا ہے۔ اس صورتحال میں لوگ عطائی ڈاکٹروں اور جعلی حکیموں کا سہارا لیتے ہیں، جو ان کی بیماری کو مزید بگاڑ دیتے ہیں۔
حکومت نے مختلف ادوار میں صحت کے شعبے میں اصلاحات کے دعوے کیے ہیں۔ صحت انصاف کارڈ جیسے پروگرامز متعارف کروائے گئے ہیں، جن کا مقصد یہ تھا کہ ہر شخص کو معیاری صحت کی سہولتوں تک رسائی حاصل ہو، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان پروگرامزکا فائدہ صرف چند فیصد افراد تک محدود ہے، وہ لوگ جو ان پروگرامز سے مستفید ہو سکتے ہیں، ان تک معلومات ہی نہیں پہنچ پاتیں اور جن کے پاس کارڈ موجود ہوتا ہے، انھیں مطلوبہ علاج نہیں ملتا۔اس تمام صورتحال میں پاکستان کا صحت کا نظام ایک کھوکھلی عمارت کی طرح لگتا ہے، جس کی بنیادیں کمزور ہیں اور جسے کسی بھی وقت گرنے کا خطرہ ہے۔ عوام کا اعتماد سرکاری اسپتالوں پر سے ختم ہو چکا ہے، اور نجی اسپتالوں میں جانے کی استطاعت صرف اشرافیہ کو حاصل ہے۔ اس ستم ظریفی کا شکار وہ عام شہری ہوتا ہے جو اپنی بیماری کا علاج کروانے کی سکت نہیں رکھتا۔
صحت کے شعبے میں بہتری کے لیے ہمیں اپنے نظام کو ازسرنو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے تو سرکاری اسپتالوں میں عملے کی تعداد میں اضافہ کرنا چاہیے تاکہ مریضوں کو بروقت علاج مل سکے۔ دیہی علاقوں میں صحت مراکز کا قیام اور ان میں ضروری سہولتوں کی فراہمی لازمی ہے تاکہ دیہی عوام بھی معیاری علاج کی سہولت سے مستفید ہوسکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ادویات کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لیے مناسب اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ صحت انصاف کارڈ جیسے منصوبوں کو مزید بہتر بنائے اور عوام کو اس بارے میں آگاہی فراہم کرے تاکہ ہر شہری اس سہولت سے فائدہ اٹھا سکے۔ صحت کی سہولتوں کو عام کرنے کے لیے نجی شعبے کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ حکومت اور نجی شعبے کے درمیان شراکت داری کے ذریعے صحت کے نظام میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔
ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ صحت کی سہولتوں تک رسائی صرف ایک سماجی مسئلہ نہیں ہے، بلکہ یہ ایک بنیادی انسانی حق بھی ہے۔ یہ ریاست کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو یہ حق فراہم کرے۔ اس وقت پاکستان میں صحت کے شعبے میں جو خلا موجود ہے، اسے پر کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے۔
پاکستان کے عوام کو معیاری صحت کی سہولتیں فراہم کرنے کے لیے نہ صرف بجٹ میں اضافہ کرنا ہوگا بلکہ اس بجٹ کو صحیح طریقے سے خرچ کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ سرکاری اسپتالوں کی حالت کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ نجی شعبے کو بھی عوامی فلاح کے منصوبوں میں شامل کرنا ضروری ہے تاکہ پاکستان کے ہر شہری کو علاج کی سہولت میسر ہو۔یہ وقت ہے کہ ہم اپنے صحت کے نظام کی بہتری کے لیے آگے بڑھیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ ہر شہری کو صحت کی بنیادی سہولتوں تک رسائی حاصل ہو۔
پاکستان کو صحت کے شعبے میں ترقی کے لیے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری، بہتر منصوبہ بندی اور دیہی علاقوں پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے تاکہ ملک کا ہر شہری معیاری اور قابل رسائی صحت کی سہولتوں سے مستفید ہوسکے۔عام انسان کی زندگی کو آسان بنانا اور ان کو زندگی کی بہتر سہولتیں فراہم کرنا حکومت کی ذمے داری ہوتی ہے، المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں کسی بھی حکومت نے اس طرف کوئی توجہ نہیں دی۔
یہی وجہ ہے کہ لوگ پھر پیر فقیر اور عاملوں کے چکر میں پھنس جاتے ہیں اور ٹھیک تو کیا ہی ہوں گے الٹا بیماری میں اضافہ ہوجاتا ہے اور کیس مزید خراب ہوجاتا ہے یا بعض دفعہ مریض جان سے ہی چلا جاتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت سنجیدگی کے ساتھ صحت کا بجٹ نہ صرف بڑھائے بلکہ اس کو دیانت داری کے ساتھ عوام پر خرچ کرے اور ایسی پالیسیاں بنائے جس سے عام آدمی کو فائدہ ہو اور اس کے لیے اپنا علاج کروانا ممکن ہو۔