وزیراعظم کی معاون برائے موسمیاتی تبدیلی رومینہ خورشید عالم نے 20-v ممالک کوکلائمیٹ ڈیٹا بینک کرنے کی تجویز دیتے ہوئے کہا ہے کہ ڈیٹا بینک کا قیام واقعی ماحولیاتی خطرات ، اقتصادی نقصانات اور وی ٹونٹی گروپ کے رکن ممالک کی مالیاتی لچک پیدا کرنے کی ضروریات کے اعدادوشمار کو یکجا کرنے کی جانب اہم قدم ہوگا ۔
درحقیقت ماحولیاتی خطرات نے اس دنیا کو ہلا کے رکھ دیا ہے اور اس کے اثرات اتنے شدید ہیں کہ ماحولیات کے ماہرین، اقوام متحدہ اور دیگر ادارے اور تنظیمیں اپنے اپنے دائرہ کار میں متحرک و فعال ہو چکی ہیں۔ اس سطح پر سرگرمیاں اگر دو عشرے پہلے شروع ہو جاتیں تو شاید ہماری زمین اس زبوں حالی کا شکار نہ ہوتی۔کسی بھی مسئلے کو حل کرنے کے لیے درست ڈیٹا کی ضرورت ہوتی ہے جو دنیا کے بیشتر ممالک کے پاس نہیں ہے، اسی حوالے سے پاکستان کی تجویز صائب ہے ،جس پر یقیناً عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے گا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہماری کوششیں زمین کو اس کا حسن اور درجہ حرارت واپس دلانے میں بار آور ثابت ہوں گی؟ اس سوال کا جواب دنیا کو مل کر ڈھونڈنا ہے۔
ترقی یافتہ ممالک میں فوسل فیول یعنی حیاتیاتی ایندھن کے بڑے پیمانے پر استعمال ہونے والے کاربن کے اخراج میں اضافے کی وجہ سے زمین کے درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کی وجہ سے دنیا کے ایک بڑے حصے میں پانی کی قلت اور اس کے نتیجے میں زرعی پیداوار میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ جنگلوں میں آگ لگنے کے بڑھتے ہوئے واقعات بھی اسی صورت حال کا نتیجہ ہیں۔ سائنسدان مسلسل انتباہ کر رہے ہیں کہ کرہ ارض نے ٹپنگ پوائنٹس کی ایک سیریز کو عبور کر لیا ہے جس کے تباہ کن نتائج ہو سکتے ہیں، آرکٹک کے علاقوں میں پرما فراسٹ پگھلنا، گرین لینڈ کی برف کی چادر غیر معمولی شرح سے ختم ہونا ہماری پریشانی کے لیے کافی ہے۔
ماہرین اقتصادیات اور ماحولیات کے ماہرین نے برسوں سے پالیسی سازوں پر زور دیا ہے کہ وہ ایسی سرگرمیوں پر بھاری ٹیکس عائد کریں جو گرین ہاؤس گیسز خارج کرتی ہیں۔ کاربن ٹیکس اس وقت دنیا کے 27 ممالک میں لاگو ہے، جس میں یورپی یونین، کینیڈا، سنگاپور، جاپان، یوکرین اور ارجنٹائن کے مختلف ممالک شامل ہیں۔ہماری دنیا جانے کیوں پلاسٹک کی اس قدر عادی ہوگئی۔ ہر سال 300 ملین ٹن پلاسٹک کا فضلہ پیدا ہوتا ہے۔ سائنسی جریدے نیچر کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس وقت تقریباً 14 ملین ٹن پلاسٹک ہر سال سمندروں میں پہنچتا ہے ، جس سے جنگلی حیات کی رہائش گاہوں اور ان میں رہنے والے جانوروں کو نقصان پہنچتا ہے۔ نیشنل جیوگرافک کے مطابق اب تک بنائے گئے تمام پلاسٹک کا 91% ری سائیکل نہیں کیا گیا۔
اس کو گلنے اور ختم ہونے کے لیے صدیاں درکار ہوتی ہیں۔دنیا کے سیکڑوں سائنسدانوں نے 8 برس کی محنت سے تیار کر دہ رپورٹ میں کہا ہے کہ کلائمیٹ چینج کے باعث فوسل فیول انڈسٹریز میں مرحلہ وار کمی نہ ہونے اور کاربن کا اخراج روکنے میں عزم کی کمی، قحط، خشک سالی، سیلاب، سطح سمندر میں اضافے، ماحولیاتی عدم مساوات، غذائی عدم تحفظ، ورلڈ فوڈ مارکیٹ کے بحران، خوراک اور خصوصاً زرعی پیداوار میں کمی، آبادیوں کی نقل مکانی، پانی اور توانائی کی سپلائی چین متاثر ہونے اور گلیشیئرز پگھلنے سے دنیا کے لیے خطرات بڑھ گئے ہیں۔ متوقع اثرات پہلے سے زیادہ شدید ہیں اور دنیا تیزی سے خطرناک نتائج کی طرف بڑھ رہی ہے۔
عالمی سطح پر سیکیورٹی خدشات بھی پیدا ہو رہے ہیں۔ سادہ اور آسان الفاظ میں اس طرح سمجھا جا سکتا ہے کہ مستقبل میں کلائمیٹ چینج کے نتیجے میں خوراک، پانی اور توانائی کی فراہمی متاثر ہو گی، قدرتی وسائل کے حصول کے لیے ممالک اور خطوں کے درمیان مقابلہ شروع ہو جائے گا، معیشتیں شدید خسارے میں چلی جائیں گی، قدرتی آفات کے تسلسل سے مختلف خطوں اورعلاقوں کے لوگ ہجرت پر مجبور ہوں گے۔ یہ مہاجرین غریب ممالک سے ہجرت کرتے ہیں اور قریبی غریب ملکوں میں ہی جاتے ہیں۔ کم آمدنی والے معاشروں میں وسائل کی کمی کے باعث مناسب ڈیٹا مرتب نہیں ہو پاتا، اسی وجہ سے مہاجرین کی آڑ میں ایسے عناصر بھی دوسرے ملکوں میں چلے جاتے ہیں، جو بعد میں ان ممالک میں سیکیورٹی کے مسائل پیدا کر دیتے ہیں۔
ورلڈ میٹرولوجیکل آرگنائزیشن کے مطابق کرہ ارض پر دستیاب 0.5 فیصد قابل استعمال پانی کے معاملے پر بھی مختلف خطوں کا تناؤ ہے، موسمیاتی تبدیلی سے عالمی سطح پراس کی فراہمی شدید متاثر ہو رہی ہے۔ غیر متوقع بارشیں ہو رہی ہیں، برف کی تہہ سکڑتی جا رہی ہے، سطح سمندر میں اضافہ ہو رہا ہے اور سیلاب و خشک سالی بڑھ رہی ہے۔ ماہرین وسائل کی تیزی سے کمی کے باعث سماجی، اقتصادی اور ماحولیاتی عوامل کے بگاڑ کے بارے میں فکر مند ہیں۔
پاکستان ارضیاتی طور پر ایک ایسے خطے میں واقع ہے جہاں موسمیاتی تبدیلیاں پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد کی آمدنی، رہائش، خوراک اور سلامتی کو خطرے میں ڈال چکی ہیں۔ اس سنگین صورتحال کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کو عالمی اوسط کی نسبت زیادہ اوسط درجہ حرارت کا سامنا ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ آفات کے خطرے کی سطح کو ماپنے کے نظام انفارم رسک انڈیکس کی طرف سے 2023میں جاری کی گئی رینکنگ کے مطابق پاکستان191ممالک میں سے 16ویں نمبر پر ہے۔ماہرین کے مطابق سال 2024 میں بھی ماحولیاتی آلودگی اوراسموگ کے مسائل کا سامنا پاکستان کو رہے گا۔ ماہرین تسلیم کرتے ہیں کہ پنجاب میں بسنے والے شہریوں کی اوسط عمر کم از کم سات برس کم ہوسکتی ہے۔
اسموگ اور فضائی آلودگی شہریوں کی صحت کے لیے دوسرا سب سے بڑا خطرہ ہے جو برقرار رہے گا۔ ہمارے پاس اسموگ بڑھنے کی وجوہات کی مستند ریسرچ ہی نہیں، ہم صرف سنی سنائی باتوں اور قیاس آرائیوں کے ذریعے اسموگ پر قابو نہیں پا سکتے۔ عوام کی صحت کے تحفظ کے لیے مستند ڈیٹا سے ہی اسموگ سے نمٹنے کے لیے جامع اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ ماحولیاتی سائنس کے ماہرین کہتے ہیں کہ سڑکوں پر پانی چھڑکنے یا اسکول ہفتے میں تین دن بند کرنے سے کچھ بہتری تو آتی ہے مگر حکومت کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ماحولیات سے جڑے مسائل کو حل کرنے کے لیے مربوط منصوبہ بندی کیسے کرنی ہے اور طویل عرصے کے لیے کیا اقدامات ہوں جو واقعی ہی کار آمد ثابت ہوں۔ پانی کے محفوظ ذخائر کی طلب و رسد میں فرق سے معاشروں میں تناو بھی بڑھ رہا ہے جو کسی بھی وقت بدامنی کا سبب بن سکتا ہے۔ میٹھے پانی، آبپاشی کے پانی کی کمی اور پن بجلی کی ضروریات پر تنازعات جنم لے سکتے ہیں۔ قدرتی آفات کے باعث کھیت کھلیان تباہ اور ساحلی علاقوں میں ماہی گیری کو لاحق خطرات سے خوراک کی پیداوار بھی متاثر ہو رہی ہے۔ یوں خوراک کی بلند قیمتیں اور افلاس معاشرے میں عدم مساوات کو جنم دیتی ہے جس سیامن و امان کوخطرہ ہو سکتا ہے۔عالمی سطح پر کاربن کے اخراج میں اضافے سے دنیا بھر میں لوگوں کا بے گھر ہونے کا رجحان بھی زیادہ ہو گیا ہے۔
پاکستان اور جمہوریہ کانگو میں تباہ کن سیلاب سے لے کر افغانستان، مڈغاسکر اور افریقا میں مسلسل خشک سالی تک، لاکھوں افراد گھر چھوڑچکے ہیں۔ غیر معمولی بارشوں، طویل خشک سالی، ماحولیاتی انحطاط، سطح سمندر میں اضافہ کے نتیجے میں ہونے والے خطرات اور طوفانوں سے متاثر ہو کر سالانہ 20 ملین سے زیادہ لوگ اپنے ملک چھوڑ کر دوسرے علاقوں میں جانے پر مجبور ہیں۔غریب ترین ممالک کی آبادی کا بڑا حصہ براہ راست کلائمیٹ چینج سے متاثر ہو رہا ہے۔ ان میں سے بھی زراعت، جنگلات اور ماہی گیری پر گزر بسر کرنے والے باسی زیادہ پریشان ہیں۔ پانی پر تناو براعظم ایشیاء کا بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔
ماضی میں امریکی سینیٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی بھی پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کے تنازع کو انتہائی تشویشناک قرار دے چکی ہے۔ ماہرین متفق ہیں کہ اس وقت دنیا بھر میں تقریباً پونے 8 کروڑ افراد بھوک و افلاس کا شکار ہیں۔ اگر ماحولیاتی تبدیلی کے خطرات کو کنٹرول اور عالمی درجہ حرارت میں اضافہ نہ روکا گیا تو مزید تقریباً 2 کروڑ لوگ بھوک کی وادی میں چلے جائیں گے۔ماحولیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والے بحران کے باعث عالمی امن اور سلامتی کو بھی خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ غریب یا کم آمدنی والے ممالک تو شاید اس حساسیت کو فی الحال نہ سمجھ سکیں لیکن اپنے عوام کی سیکیورٹی، فلاح و بہبود اور وسائل کے درست استعمال کو ترجیح بنانے والے ممالک کے لیے یہ سب سے بڑا مسئلہ بن کر سامنے آیا ہے۔
ان عوامل سے اقوام متحدہ خود بھی فکر مند ہے۔ اسی لیے ہر روز دنیا کو احساس دلایا جا رہا ہے کہ تمام ممالک کوسوچ بچار کر کے متحد ہو کر آگے بڑھنا ہو گا۔ موسمیاتی تبدیلی کی تخفیف کے اقدامات اکثر غیر متناسب طور پر سب سے زیادہ پسماندہ افراد کو متاثر کرتے ہیں۔ اس لیے ہمیں ہر ممکن طریقے سے موسمیاتی تبدیلی کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے متحرک ہونے اور آگاہ رہنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے جہاں وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے لے کر مقامی حکومتوں تک کی سطح پر عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے وہیں ہمیں اسے اسکولوں کی سطح پر نصاب کا بھی حصہ بنانا ہو گا تاکہ ہماری نئی نسل موسمیاتی تبدیلیوں کو سمجھنے اور ان کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہو سکے۔