آئین اتحاد کا ضامن

حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف دونوں کی اِس معاملے میں انتہائی غیر معمولی دلچسپی لازمی تھی جس کا کھل کراظہار ہوا۔

S_afarooqi@yahoo.com

 

  ایک طویل عرصے سے جاری 26 ویں آئینی ترمیم کے موضوع پر بحث و تمحیص کا سلسلہ بالآخر ختم ہوگیا۔

 کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے

 اِس مباحثہ کا طول پکڑنا فطری امر تھا کیونکہ بحث کا موضوع انتہائی حساس اور نازک تھا۔ ایک فریق کی یہ خواہش اور امید تھی کہ یہ معاملہ جلد از جلد طے پا جائے لیکن دوسرے فریق کے علاوہ گھاگ قسم کے سیاستدانوں کی کوشش تھی کہ بال کی کھال نکالی جائے۔ سچ پوچھیے تو اُن کی یہ کوشش 100 فیصد حق بجانب تھی۔ نتیجتاً اِس موضوع کا پوسٹ مارٹم کیا گیا۔

 آئین میں اِس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ آئینی ترمیم کوئی معمولی بات نہیں ہے،کیونکہ آئین ایک اہم دستاویز ہے۔ حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف دونوں کی اِس معاملے میں انتہائی غیر معمولی دلچسپی لازمی تھی جس کا کھل کراظہار ہوا۔ ایک انگریزی کہاوت ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ چائے کی پیالی کو ہونٹوں سے لگانے کے درمیان پھسل جانے تک بہت سے امکانات موجود ہوتے ہیں اور یہ کہاوت آئینی ترمیم پر حرف بہ حرف منطبق ہوئی۔ ترمیم سے متعلق مسودے کی تیاری بھی کچھ کم کٹھن کام نہ تھا۔ حکومتی فریق نے اِس میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔ صرف یہی نہیں اِس کی جملہ متعلقین کو فراہمی بھی ایک مسئلہ بنی رہی۔ حسبِ اختلاف تو درکنار خود حکومتی حلقوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو پوری طرح علم نہ تھا کہ یہ ہے کیا چیز؟ سچ پوچھیے تو یہ ایک معمہ تھا جو تادمِ آخر ناقابلِ فہم رہا۔ ترمیم کے پیش کیے جانے سے پہلے طرح طرح کی قیاس آرائیاں اور چہ مگوئیاں ہو رہی تھیں اور جس کے جو جی میں آرہا تھا کہہ رہا تھا۔ غرض جتنے منہ اتنی باتیں۔ حساب کتاب لگایا جا رہا تھا کہ حزبِ اقتدار کا دعویٰ تھا کہ ہمارے پاس جیتنے کے لیے کافی نمبرز ہیں جب کہ اس کے برعکس حزبِ اختلاف قطعی یقین سے یہ بھڑکیں مار رہی تھی کہ اس کھیل میں فتح اسی کو حاصل ہوگی۔

سب سے دلچسپ بات یہ تھی کہ مولانا فضل الرحمٰن جو سیاسی شطرنج کے منجھے ہوئے کھلاڑی ہیں، فریقین کے درمیان براجمان ہو کر اپنی سیاسی بصیرت اور مہارت کا لوہا منوا رہے تھے۔ حکومت اور حزبِ اختلاف کی اہم شخصیات کی حیثیت ان کے سامنے طفلِ مکتب کی تھی اور وہ دن رات ان کے اشارہ ابرو کے منتظر تھے اور ان کے دربار میں بار بار حاضریوں پر حاضریاں لگا رہے تھے۔ یہ پورا منظر انتہائی دلچسپ اور دیدنی تھا اور دیکھنے والے اسے انتہائی دلچسپی کے ساتھ دیکھ رہے تھے۔ ہم بھی اس کو دیکھ رہے تھے اور مولانا کی کارکردگی کی داد دے رہے تھے۔

اس سیاسی ڈرامے میں لمحہ بہ لمحہ تبدیلیاں آرہی تھیں اور ہر کوئی سوچ رہا تھا کہ کب پردہ اٹھے گا اور اس طویل ڈرامے کا ڈراپ سین کیا ہوگا، پھر وہی ہوا جو ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے، یعنی نتیجہ حزبِ اقتدار کے حق میں نکلا۔ یہ کوئی انہونی یا انوکھی بات نہیں تھی۔ حکومت چاہے جس کی بھی ہو اور وہ چاہے جیسی بھی ہو بالا دستی اسی کی ہوتی ہے۔

26 ویں آئینی ترمیم کا ایک ہی مقصد تھا اور وہ یہ کہ کسی بھی طرح عدلیہ کے پَر کترے جائیں تاکہ مقننہ کی قطعی بالادستی قائم ہو اور وہ بلا روک ٹوک جو بھی قانون منظورکریں سپریم کورٹ اس کی راہ میں رکاوٹ نہ بنے۔ ماضی کا تجربہ یہ بتاتا ہے کہ سپریم کورٹ کو حاصل اختیارات اس کے فیصلوں میں مزاحم ہوسکتے ہیں۔ اصل مسئلہ یہ تھا کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ریٹائر ہونے والے تھے اور ان کے بعد ان کی جگہ سنبھالنے والا سپریم کورٹ کا سینئر جج چیف جسٹس بن سکتا تھا کیونکہ روایت کے مطابق چیف جسٹس کے عہدے پر ترقی کی بنیاد سینیارٹی بنتی تھی۔ لیکن 26 ویں آئینی ترمیم کی روح سے ایسا نہیں ہوا ۔ یاد رہے کہ ریٹائر ہونے والے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا تقرر سینیارٹی کی بنیاد پر ہی ہوا تھا۔

آئین کوئی معمولی دستاویز نہیں ہے بلکہ یہ کسی بھی جمہوری ریاست کی اساس ہے۔ پیپلز پارٹی کے عظیم رہنما ذوالفقار علی بھٹو شہید نے پاکستان کا آئین بنانے کے لیے بڑی تگ و دو کی تھی کیونکہ یہ آئین اپوزیشن کے رہنماؤں کے مکمل اور بھرپور اتفاقِ رائے سے تیار کیا گیا تھا جس میں دیگر سیاسی جماعتوں کے علاوہ مولانا فضل الرحمٰن کے والد گرامی مفتی محمود بھی شامل تھے۔ 1973 کے آئین کی تیاری میں ایک دو ماہ کا نہیں 9 ماہ کا طویل عرصہ لگا تھا جس کا مقصد یہ تھا کہ اس میں کوئی کمی یا سقم باقی نہ رہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد آنے والے حکمرانوں نے 73 کے آئین میں من مانی ترامیم کر کے اس کے خد و خال بُری طرح مسخ کر دیے۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے لیکن جس عجلت میں 26 ویں آئینی ترمیم کو منصف اعلیٰ قاضی فائز عیسیٰ کی ریٹائرمنٹ سے قبل پارلیمنٹ سے منظور کرایا گیا ہے اس نے بہت سے سوالوں کو جنم دیا ہے۔

1973 کا آئین ذوالفقارعلی بھٹو کے وِژَن، تدبر اور جدوجہد کا ثمر ہے اور ہمارے اتحاد کا ضامن ہے۔ اس دستور میں اگر ترامیم کے بجائے اس کی حقیقی روح کے مطابق عمل کرتے ہوئے نظام انصاف کو چلنے دیا جاتا تو بہت سے قومی مسائل حل ہوسکتے تھے لیکن نظام میں پہلے سے موجود خامیوں کو جوں کا توں رکھ کر نئی ترامیم لانا نئے ابہام کو جنم دینے کا سبب بن جائے گا۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے نوآموز رہنما جنھیں کوچہ سیاست میں قدم رکھے ہوئے ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں 26 ویں آئینی ترمیم پر پھولے نہیں سما رہے۔؟

Load Next Story