نوشاد نوری نے اپنا تعارف کراتے ہوئے لکھا تھا۔۔۔ہندوستان میں گیارہ پشتوں پر مشتمل ہمارے شجرۂ نسب میں ایسا کوئی نام نہیں ملتا جس کی ادب میں دل چسپی ہو۔
شمالی بہار میں 1934میں زلزلہ آیا تھا، جس میں ایک لاکھ سے زیادہ جانیں تلف ہوئی تھیں۔ ایک آٹھ سالہ بچہ اپنے نانا کے ساتھ بیٹھا تھا، زلزلے کے جھٹکے، خوف ناک گڑگڑاہٹ، زمین کی کپکپاہٹ نے اسے خوف زدہ کردیا۔ وہ بدحواس ہوکر صحن سے متصل کمرے کی طرف دوڑا اور وہاں ایک کونے سے لگ کر بیٹھ گیا، جہاں بجنور کے مدینہ اخبار کے شماروں کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔ جھٹکے بڑھتے گئے نوشادنوری جو اس زمانے میں معصوم کے نام سے بلائے جاتے تھے، ایک کونے میں سہمے بیٹھے تھے۔ الماریوں میں قرینے سے کتب سجی تھیں۔ اسی گوشے میں جہاں نوشاد صاحب دبکے بیٹھے تھے ایک الماری گرتے گرتے معلق ہوگئی۔
مسجد کا مینار دروازے پر آکر گرا، دروازے بند ہوگئے۔ کوٹھڑی کا ایک حصہ دب گیا۔ الماری میں پردادا کے زمانے کی جمع کی ہوئی قلمی کتابیں تھیں، تقریباً سب ہی فارسی میں تھیں۔ جھٹکے سے الماری کے دروازے کھل گئے اور عمرخیام، شمس تبریزی، عطار، حافظ اور رومی کے قلمی نسخوں نے الماری سے نکل کر نوشاد صاحب کو چاروں طرف سے اپنے حصار میں لے لیا۔ نوشاد صاحب بے بسی سے سامنے پڑے مدینہ اخبار پر نظر جمائے ’’جگر پارے‘‘ اور ’’محسوسات ماہر‘‘ کے عنوان تحت لکھی ہوئی نظمیں پڑھ رہے تھے۔
یہ نوشاد صاحب کا کتابوں سے پہلا تعارف تھا۔ وہ نانا کی کتابوں کی الماری سے ہر کتاب نکال کر پڑھتے گئے ، بڑھتے گئے اور شعوروآگاہی کی منزل تک پہنچ گئے۔
بچپن سے دو چیزیں ان کی فطرت میں نمایاں تھیں، ایک بغاوت دوسرے انقلابی سوچ۔ سولہ سترہ برس کی عمر میں یہ قبول نہیں کیا کہ آم کے موسم میں سارے آم باغوں سے اتار کر بابو لوگ اپنے گودام میں رکھ دیتے ہیں سارا سال جو دیکھ بھال کرتے ہیں ان کے حصہ میں بہت کم آم آتے ہیں۔ اس لیے ایک آم کے موسم میں فصل جب پک کر تیار ہونے کو تھی چند روز پہلے انہوں نے رات کے تین بجے گاؤں کے غریب مزدوروں کو جمع کیا اور سارے آم اتار لیے گئے، جس پر بزرگوں نے کافی واویلا مچایا۔
آپ کا پورا نام محمد مصطفی معصوم ہاشمی اور قلمی نام نوشاد نوری تھا۔ نوشاد نوری ادب کی دنیا میں اسی نام سے جانے جاتے ہیں۔ وہ 21 اکتوبر 1926 کو ضلع دربھنگہ صوبہ بہار پیدا ہوئے۔ دادا زمیندار تھے۔ خوش حال گھرانا تھا۔ والد عبد الکافی ہاشمی نے وکالت پڑھی شہر چلے گئے اور وکالت کے پیشے سے وابستہ ہوگئے۔
زمانہ 1944/ 45 کا تھا، ترقی پسند تحریک اپنے عروج پر تھی۔ نوشاد نوری بھی ترقی پسند مصنفین کی صف میں شامل ہوگئے۔ ترقی پسند مصنفین کی ادبی محافل میں نوشادنوری بھی پیش پیش رہتے۔ اس زمانے میں بہار کے صف اول کے ترقی پسند مصنفین سے ان کے گہرے تعلقات تھے، جن میں مختارالدین آرزو، سہیل عظیم آبادی، اختراورینوی، قاضی عبدالودود، انجم مانپوری ڈاکٹر یوسف حسن شامل ہیں۔ یوسف حسن کی بنگلا کی لسانی تحریک اور آزادی بنگلادیش کے لیے خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ یوسف حسن شیخ مجیب کے بے حد قریب تھے۔
نوشاد نوری 1950 میں ترک وطن کرکے ڈھاکا چلے گئے۔ وزیراعظم ہند کے دورۂ امریکا پر انہوں ایک نظم کہی تھی۔ نہرو 1949میں مالی امداد کی غرض سے امریکا کے دورے پر گئے تھے۔ نظم کا عنوان تھا، ’’بھکاری‘‘ جس پر ان کے گرفتاری کے وارنٹ جاری ہوگئے۔ یہی نظم پاکستان میں ان کی شہرت اور شناخت کی سبب بنی۔
نوشاد نوری نے 1952 سے 1963 تک حکومت پاکستان کے ’’آڈٹ اینڈ اکاؤنٹس‘‘ کے محکمے میں کام کیا، اور ڈھاکا، کوئٹہ اور کراچی میں رہے۔ کراچی اور کوئٹہ کے ادبی حلقوں میں انہوں نے اپنی شناخت بنالی۔ ان کے ادبی دوستوں کی ایک لمبی فہرست ہے۔ ڈھاکا آکر بھی انہیں ادبی ماحول ملا۔ میں عندلیب شادانی، نظیر صدیقی، احسن احمد اشک، آصف بنارسی، احمد الیاس، اختر پیامی، خواجہ ریاض الدین عطش کے ان سے بہت اچھے مراسم تھے۔ بنگالی اور اردو ادیبوں کو قریب لانے میں ان کا کردار بہت اہم تھا۔
انیس سو باون سے اس وقت کے مشرقی پاکستان میں لسانی تحریک شروع ہو گئی۔ بنگالی بنگلا کو قومی زبان کا درجہ دینے پر مُصر تھے، اردو بہ طور قومی زبان انہیں قبول نہیں تھی۔ نوشاد نوری نے 52 میں ایک معرکتہ آرا نظم کہی جس کا عنوان تھا ’’موہن جودڑو‘‘، جسے بنگلا ادب میں بھی ایک خاص مقام حاصل ہے۔
لسانی تحریک اپنے عروج پر تھی، اسے کچلنے کی کوشش کی جارہی تھی۔ اس وقت مشرقی پاکستان میں مقیم اردو ادبا نے اس تحریک کا بھرپور ساتھ دیا۔ دوسرے شہروں میں تحریک کا آغاز کیا۔ اردو میں احتجاجی پوسٹر لکھ کر شہر درشہر دیواروں پر چپکائے گئے۔ موہن جودڑو جیسی مزاحمتی، انقلابی نظم وجود میں آئی۔
میرے شہر کے رہنے والو!
اپنی پوتھی، اپنی گیتا
اپنی اپنی لوک کتھائیں
اپنی اپنی گیتی مالا
اپنا اپنا حرف تہجی
اپنی اپنی بولی بھاشا
پتے، پتھر، پوست، پپائرس
تانبے لوہے پر لکھ رکھنا
وہی وبا پھر پھوٹی ہے
وہی بلا پھر ٹوٹی ہے
نوشاد نوری نے لسانی تحریک میں بنگالیوں کا بھر پور ساتھ دیا۔
انیس سو باون سے انیس سو اکہتر تک سیاسی منظرنامے پر تبدیلیاں آتی گئیں۔ پاکستان پر آمریت کا غلبہ رہا۔ نوشاد نوری کا قلم چلتا رہا۔ وہ مزاحمتی نظمیں کہتے رہے۔ وہ بنگلادیش کے قیام کی تحریک میں بھی شامل رہے۔ وہ جس اخبار کے ایڈیٹر تھے اس کا نام، جریدہ،، تھا۔ سیاسی انتشار نے ملک کو عجیب دو راہے پر لا کھڑا کیا تھا۔
1947 میں جو لوگ ہجرت کرکے مشرقی پاکستان آئے تھے، ایک بار پھر سے ان کا مستقبل داؤ پر لگا تھا۔ اردو بولنے والی کمیونیٹی میں کوئی سیاسی جماعت یا انفرادی سیاسی شخصیت ایسی نہیں تھی جو ان حالات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔کوئی ایسا سیاست کو سمجھنے والا اعلٰی دماغ نہیں تھا جو آنے والے کٹھن وقت میں کمیونٹی کی قیادت کرے اور اردو بولنے والوں کو یہ بتائے کہ اس آگ کے دریا سے کیسے گزرنا ہے۔
نوشاد نوری صحافی تھے، سیاست پر گہری نظر رکھتے تھے۔ انہوں نے اپنے اخبار جریدہ کے ذریعہ فوجی آمریت کا کردار اجاگر کیا اور شیخ مجیب الرحمٰن کے چھ نکات کی بھرپور حمایت کی۔ انہوں نے اپنے اخبار میں سرخی لگائی:
ہماری نجات، تمہاری نجات
چھ نکات چھ نکات
شیخ مجیب کی حمایت کی پاداش میں ان کے آفس پر بم مارا گیا۔ وہ کافی عرصے تک روپوش رہے۔
نوشاد صاحب کا خیال تھا اردو اسپیکنگ طبقہ بھی شیخ صاحب کے ساتھ مل جاتے تو شاید یہ خون کی ندیاں جو بہائی گئیں یہ نہ سب نہ ہو۔
آمر کو ادب سے بھی بغض ہوتا ہے۔ ایوب خان کے مارشل لا کے زمانے میں جب مرکزی وزیر خواجہ شہاب الدین نے اسمبلی میں ٹیگور کے خلاف اہانت آمیز اور برے کلمات کا استعمال کیا تو بنگالی عوام میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ شدید احتجاجی مظاہرے ہوئے جن میں نوشاد نوری بھی پیش پیش تھے۔
نوشاد نوری ایک حساس شاعر ہی نہیں ایک باشعور صحافی بھی تھے۔ پچیس مارچ کو مشرقی پاکستان میں آپریشن سرچ لائٹ شروع ہوگیا۔ جب آپریشن ہوگا ظلم بھی ہوگا بے گناہ بھی مارے جائیں گے۔ نوشاد نوری کی نظم ہے پچیس مارچ کے حوالے سے عنوان بھی ، پچیس مارچ،، ہے۔
یہ جو ہر سمت رواں خون کا ہے فوارہ
یہ جو لب بند ہیں اور موت کی خاموشی ہے
یہ جو اکھڑے ہوئے ماحول کی سرگوشی ہے
کاگ ماری ہو کہ سنتوش کہ تنگی پاڑہ
نوشاد نوری کی ہر نظم کا ایک پس منظر ہے، جو کہ ہر شاعر کا ہوتا ہے۔ اسرائیل نے لبنان پر حملہ کیا نوشاد نوری نے ’’رہگزر آشنائی‘‘ لکھی، یہ 1979 کی نظم ہے، ’’پشمینہ فروش‘‘ افغانستان میں حفیظ اللّہ امین کے سیاسی دور کی کشمکش پر لکھی گئی نظم ہے۔ 1990 میں لکھی نظم گئی ’’الف لیلہ‘‘ عرب ریاستوں کے امریکی امداد پر انحصار، مراکش میں آزادی، عرب تحریک نسواں کے پس منظر میں ’’دشت میں بہار‘‘ کہی:
کہیں پہ حوا کہیں پہ بلقیس کے حوالے
کہیں پہ زلیخا کہیں پہ مریم کے تذکرے ہیں
کہیں کہیں حاجرہ کے ذوق عمل کے چرچے
یہ دشت تہذیب پھر سے کتنے ہرے بھرے ہیں
نوشاد نوری نے شیخ مجیب کے قتل پر ’’سر چشمہ نمو‘‘ کے عنوان سے نظم کہی تھی۔ کہا جاتا ہے یہ مجیب کے قتل پر پہلی نظم تھی جو کسی بنگالی شاعر نے نہیں لکھی تھی۔
نوشاد نوری ساری زندگی اس انقلاب کا خواب دیکھتے رہے جو ہر انسان کے خواب کو تعبیر دے سکے، طبقاتی نظام ختم نہیں ہو توکم ازکم اس کی زنجیریں ڈھیلی پڑجائیں۔ ہر شخص خاص کر جن کے ہاتھوں میں قلم ہوتا ہے ان کے زندگی کے بارے میں کچھ نظریات ہوتے ہیں، فکر اور فلسفہ ہوتا ہے۔ بہت کم لوگ ہیں جو عام طبقے جسے ہم مزدور طبقہ کہتے ہیں ان کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلے۔ نوشاد نوری تا عمر ایسے لوگوں کے ساتھ کھڑے نظر آئے۔
انہوں نے بیچ کا راستہ نہیں چنا اس کنارے پر چلتے چلے گئے جہاں، بھوک، افلاس، بیماری ساتھی ہوتی ہے اور زندگی بوجھل اور بے معنی۔ انھوں نے ساری عمر لٹھے کا سفید کرتا پے جامہ پہنا، ہونٹوں پر پان کی لالی اور بے ساختہ قہقہہ کے ساتھ محفلوں میں نظر آتے۔ راستے سے یتیم بچوں کو اٹھا کر بیگم کے حوالے کرکے بے فکر ہوجاتے۔ اس طرح کتنے ہی بچے ان کے گھر سے پل کر زندگی کے ساتھ قدم سے قدم ملا اور سر اٹھا کر زندگی کی شاہ راہ پر آگے بڑھ گئے۔
بنگلادیش میں مقیم جو لوگ خود کو پاکستانی کہتے تھے ان کی آنکھیں پتھرا گئیں جب پاکستان کئی دہائیوں کے بعد بھی انہیں اپنانے کے لیے راضی نہیں ہوا۔ ان کی اپنی شناخت کھو گئی، نہ زمین ان کی رہی نہ آسمان، نوشاد نوری نے نظم ’’قبلۂ اول‘‘ لکھی۔
نسل و تاریخ و تمدن کے سپہ سالارو!
حفظ اجزا کی جنوں خیز گھڑی آ پہنچی
یہی مٹی جو مرا پاؤں دھرے بیٹھی ہے
اس پہ سجدے کی دل آویز گھڑی آ پہنچی
آج اردو کمیونٹی اسی نصیحت پر عمل پیرا ہے۔ ان کی شاعری کے بارے میں ان ہی کی زبانی کہا جا سکتا ہے:
میرے مخطوطۂ کمیاب کو محفوظ رکھو
اس حوالے کی مورخ کو ضرورت ہوگی
اس کٹھن دور کی ناگفتہ صداقت لوگو!
میرے ہی ذات گرامی سے روایت ہوگی
18 جولاء 2000 کو یہ بے لوث شخص اپنے خواب اپنی آنکھوں میں بسائے اللّہ کے دربار میں پیش ہوگیا۔ اللّہ اپنی بے شمار رحمتوں سے نوازے، آمین۔