پاکستانی نوجوان مواقع کی کمی اور چیلنجز کا سامنا
پاکستان کی آبادی کا ایک بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے اور یہ نوجوان آج کے سماج میں کئی چیلنجز کا سامنا کر رہے ہیں۔ بے روزگاری، تعلیم کا فقدان اور محدود مواقع نے نوجوانوں کو ایک غیر یقینی مستقبل کی طرف دھکیل دیا ہے۔
ہمارے سماجی نظام میں نوجوانوں کی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے اور انھیں ملک کی ترقی کا حصہ بنانے کے بجائے اکثر ان کے مسائل کو نظرانداز کیا جاتا ہے۔ یہ مسئلہ صرف معیشت یا تعلیم تک محدود نہیں ہے بلکہ سماجی رویوں، خاندان کے دباؤ اور حکومتی پالیسیوں کا فقدان بھی نوجوانوں کے لیے رکاوٹیں پیدا کرتا ہے۔
اگر ہم پاکستان کے نوجوانوں کو درپیش سب سے بڑے مسئلے، یعنی بے روزگاری کی بات کریں، تو صورتحال سنگین ہے۔ ملک میں لاکھوں نوجوان ہر سال یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہوتے ہیں، لیکن ان کے لیے مناسب روزگار کے مواقع موجود نہیں ہیں۔
پرائیویٹ سیکٹر بھی اپنے طور پر ملازمتوں کی فراہمی میں ناکام نظر آتا ہے کیونکہ سرمایہ کاری کی کمی اور معاشی بحران نے روزگار کے مواقع کو محدود کر دیا ہے۔ نوجوان جب اپنی تعلیم مکمل کرتے ہیں تو انھیں امید ہوتی ہے کہ وہ جلد ہی اپنی محنت کے صلے میں ایک بہتر زندگی کی شروعات کریں گے، لیکن جب ان کی یہ امیدیں ٹوٹتی ہیں تو وہ مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں۔
بے روزگاری کا مسئلہ نہ صرف انفرادی زندگیوں کو متاثر کرتا ہے بلکہ یہ پورے سماج پر گہرے اثرات چھوڑتا ہے۔ نوجوانوں میں مایوسی بڑھتی ہے اور اس کا نتیجہ اکثر اوقات سماجی انتشار، منشیات کی لت یا جرائم کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ یہ مسئلہ صرف سماجی نہیں بلکہ قومی سطح پر بھی ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے، کیونکہ نوجوان کسی بھی قوم کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں، اگر ان کی صلاحیتوں کو بروئے کار نہیں لایا جائے گا، تو ملک کی ترقی کا سفر رک جائے گا۔
تعلیم کا معیار بھی نوجوانوں کے لیے ایک بڑا مسئلہ ہے۔ پاکستان میں تعلیمی نظام دو مختلف راستوں پر چل رہا ہے۔ ایک طرف سرکاری تعلیمی ادارے ہیں جو وسائل کی کمی، ناقص نصاب اور غیر معیاری تعلیم کے باعث نوجوانوں کی صلاحیتوں کو نکھارنے میں ناکام ہیں۔ دوسری طرف نجی تعلیمی ادارے ہیں جو مہنگی فیسوں کی وجہ سے اکثریتی نوجوانوں کی پہنچ سے دور ہیں۔
اس طبقاتی فرق نے تعلیمی نظام کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے، جہاں امیر طبقہ بہترین تعلیمی اداروں میں داخلہ لے کر ملک و بیرون ملک روشن مستقبل کی طرف بڑھتا ہے، وہیں غریب طبقہ سرکاری اداروں میں ناقص تعلیم حاصل کر کے بے روزگاری کی دلدل میں پھنسا رہتا ہے۔
ایک اور مسئلہ جو نوجوانوں کے لیے خاص طور پر دیہی علاقوں میں سنگین ہے، وہ تعلیم کی عدم دستیابی ہے۔ پاکستان کے کئی دیہی علاقوں میں اب تک بنیادی تعلیمی سہولیات تک موجود نہیں ہیں۔ وہاں کے نوجوانوں کو نہ صرف تعلیم کے فقدان کا سامنا کرنا پڑتا ہے، بلکہ انھیں کام کرنے کے مواقع بھی میسر نہیں آتے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ یا تو کم عمر میں محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں یا ہجرت کر کے بڑے شہروں میں روزگار کی تلاش میں نکلتے ہیں۔
نوجوانوں کے لیے مواقع کی کمی کا مسئلہ صرف تعلیمی یا معاشی نہیں، بلکہ یہ سماجی بھی ہے۔ ہمارا سماجی ڈھانچہ نوجوانوں کو اکثر دباؤ میں رکھتا ہے۔ خاندان کی توقعات، معاشرتی روایات اور مستقبل کی غیر یقینی صورتحال نے نوجوانوں کو مختلف الجھنوں میں ڈال رکھا ہے۔ ہمارے سماج میں اکثر والدین اپنے بچوں پر اپنی مرضی مسلط کرتے ہیں، چاہے وہ تعلیم کا میدان ہو یا پیشے کا انتخاب۔ یہ دباؤ نوجوانوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو دبا دیتا ہے اور وہ اپنی پسندیدہ راہ پر چلنے کے بجائے روایتی راستوں کا انتخاب کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
نوجوانوں کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ سماجی دباؤ سے نکل کر اپنے مستقبل کی منصوبہ بندی خود کریں۔ حکومت اور تعلیمی ادارے نوجوانوں کے لیے انٹرپرینیورشپ کے مواقع پیدا کر سکتے ہیں تاکہ وہ خود روزگار کے مواقع پیدا کریں اور دوسروں کے لیے بھی روزگار کا ذریعہ بنیں۔ دنیا بھر میں کئی ممالک نے نوجوانوں کے لیے مختلف انٹرپرینیورشپ پروگرامز متعارف کروائے ہیں، جس کے ذریعے نوجوان اپنے کاروبار کا آغاز کرتے ہیں اور معیشت کی بہتری میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، لیکن پاکستان میں اس طرح کے پروگرامز کا فقدان ہے، اور جو کچھ پروگرامز موجود بھی ہیں، معلومات کا فقدان اور رسائی کی کمی نوجوانوں کو اس سے فائدہ اٹھانے نہیں دیتی۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ نوجوانوں کے لیے ملازمتوں کے مواقع پیدا کرے، انھیں انٹرپرینیور شپ کی تربیت فراہم کرے، اور تعلیمی اداروں میں ایسی پالیسیز متعارف کرائے جو نوجوانوں کی صلاحیتوں کو نکھارنے میں مددگار ثابت ہوں۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ تکنیکی تعلیم اور ہنر کی تربیت پر بھی زور دینا ضروری ہے تاکہ نوجوانوں کو صرف ڈگریوں کے پیچھے بھاگنے کے بجائے عملی ہنر سیکھنے کا موقع ملے۔ اس سے نہ صرف وہ ملک میں بہتر مواقع حاصل کر سکیں گے، بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا سکیں گے۔
پاکستان کے نوجوانوں کو درپیش مسائل کا ایک اور پہلو منشیات کا استعمال ہے۔ بے روزگاری اور مایوسی کی وجہ سے بہت سے نوجوان منشیات کی لت کا شکار ہو رہے ہیں۔ یہ مسئلہ نہ صرف ان کی صحت کو نقصان پہنچا رہا ہے بلکہ ان کے خاندانوں اور سماجی ڈھانچے کو بھی متاثر کر رہا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس حوالے سے آگاہی مہمات چلائے اور نوجوانوں کو منشیات سے دور رکھنے کے لیے سرگرمیوں کا اہتمام کرے۔
آخر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے نوجوانوں کو اگر درست سمت میں رہنمائی اور مواقع فراہم کیے جائیں تو وہ ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ حکومت، تعلیمی اداروں، اور سماجی تنظیموں کو مل کر نوجوانوں کی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرنے ہوں گے۔ ہمیں اس بات کو سمجھنا ہوگا کہ نوجوان پاکستان کا مستقبل ہیں، اور ان کی ترقی ملک کی ترقی ہے۔
سماجی دباؤ، بے روزگاری، اور تعلیم کے فقدان جیسے مسائل کا حل نکالنا مشکل ضرور ہے، لیکن ناممکن نہیں۔ ہمیں صرف ارادے کی مضبوطی اور نیک نیتی کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے نوجوانوں کو ترقی کے مواقع فراہم کر کے ہی ہم ایک بہتر اور روشن مستقبل کی تعمیر کر سکتے ہیں۔