کاتب تقدیر کے فیصلے
عدل کا فلسفہ بہت وسیع ہے، یہ تنہائی سے لے کر حشر کے میدان تک پھیلا ہوا ہے، کوئی شخص اگراپنی تنہائی سے بھی عدل نہیں پاتا، وہ عملی زندگی میں کیا عدل کرے گا۔ اگر خیال عادل نہ ہو تو عمل عادل نہیں ہو سکتا۔ ظاہر و باطن میں فرق رکھنے والا عادل نہیں ظالم ہوتا ہے، عادل ہمہ وقت عادل ہوتا ہے۔ اس کی بات عدالت، اس کی خاموشی عدالت، اس کی گواہی عدالت، اس کے فیصلے عدالت، اس کی زندگی عدالت اور اس کی رخصتی بھی ایک بڑی عدالت ہوتی ہے۔
حکم ہے کہ میزان میں ڈنڈی نہ مارو، حق کو باطل کا لباس نہ پہناؤ، حق حق ہے، اسے بیان ہونا چاہیے۔ عدالت امانت گاہ ہے۔ یہاں سے عادل ہو کر گزرتا ہے۔ سچ کو سچ کہو جھوٹ کو جھوٹ، دودھ کو دودھ اور پانی کو پانی کہو۔ دن کو دن اور رات کو رات کہو۔ سچ اور جھوٹ کو ملا کر دو رخی بات کرنے والا خوب صورت مکانوں کے اندر عذاب کی زندگی بسر کرتا ہے۔
عدل کرنا صرف خوف خدا اور فضل خدا سے ہی ممکن ہے۔ عادل کی زندگی پل صراط ہے۔ عادل کے لیے ضروری ہے کہ وہ نگاہ کا بھی عادل ہو اور زبان کا بھی۔ وہ حقوق اور حدود سے آشنا ہو۔ اسے معلوم ہو کہ وہ کیا کہہ رہا ہے، کیوں کہہ رہا ہے، کس کے بارے میں کہہ رہا ہے اور کس سے کہہ رہا ہے۔ کلام کے پیچھے کلیم کی پوری شخصیت کی عکاسی ہوتی ہے۔ گفتگو میں عدل کرنے والے اپنے فیصلوں میں بھی عدل کرتے ہیں۔ گھر ہو یا عدالت وہ ہر صورت عدل قائم رکھتے ہیں۔ ان کے فیصلے عدل کی نظیر اور تاریخ کا حوالہ بن جاتے ہیں۔
اگر ہماری سیاست میں بھی عدل آ جائے تو وطن عزیز کہاں سے کہاں ترقی کر جائے۔ افسوس کہ سیاسی رہنما اپنی سیاست میں عدل نہیں کرتے۔ اقتدار کا لالچ اور اپنے سیاسی مفادات کے تحفظ کی خاطر قرآن، حدیث، اقبال اور رومی کے حوالے تو دیتے ہیں لیکن ان کا عمل کا ہوتا ہے، وہ سیاست میں سب کچھ جائز سمجھتے ہیں۔ یہی بات عدل میں ناجائز ہے۔ ہم اپنے نظام مملکت کو آئین پاکستان کے موافق بنانے کے بجائے اپنے اقتدار کی طوالت اور اپنے سیاسی مفادات کی حفاظت کے مطابق بنانے میں تمام حدیں عبور کر جاتے ہیں۔
ہمارے اکابرین سیاست کے اس بودے کردار کا ایک تازہ عملی مظاہرہ 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے وقت دیکھنے میں آیا۔ حکومت کو بخوبی علم تھا کہ آئینی ترمیم کے لیے دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہوتی ہے جو حکمران اتحاد کے پاس نہیں ہے۔ اتحادی حکومت کو جے یو آئی، بی این پی اور پی ٹی آئی کے اراکین کی حمایت درکار تھی۔ سپریم کورٹ نے ایک فیصلے میں آئین کے آرٹیکل 63۔اے کی اپنے فیصلے میں تشریح کر رکھی تھی، کہ منحرف ارکان پارلیمان پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ نہیں ڈال سکتے اور اگر ووٹ ڈالیں گے تو وہ شمار نہیں ہوں گے، یہ بھی حکومت کے لیے نمبر پورے کرنے کی راہ میں رکاوٹ تھی۔اسی دوران سپریم کورٹ نے اپنے ایک اور فیصلے میں آرٹیکل تریسٹھ اے کو اپنی پرانی حیثیت میں بحال کردیا۔ لیکن حکومت کو پی ٹی آئی کے کسی رکن اسمبلی کی حمایت کی ضرورت ہی نہیں پڑی اور حکومت نے سینیٹ و قومی اسمبلی کی دو تہائی اکثریت سے آئینی ترمیم منظور کرا لی ہے۔ سوشل میڈیا پر اس حوالے سے بہت سے سوالات اٹھائے جارہے ہیں ۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم سے عدلیہ کی آزادی کمپرومائز ہوئی ہے۔
حکومتی اتحاد کی خواہش تھی کہ سرکاری ملازموں کی ریٹائرمنٹ ایج میں اضافے کی شق حالیہ آئینی ترمیم کا حصہ بن جاتی لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ بعض تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ حکمران اتحاد کی خواہش تھی کہ جسٹس فائز عیسیٰ کو آئینی عدالت کا سربراہ بنا دیں لیکن مولانا فضل الرحمن نے سخت موقف اختیار کرتے ہوئے حکومتی خواب پورا نہ ہونے دیا جو مولانا کی سیاسی بصیرت و ذہانت کا عکاس ہے۔ البتہ حکومت سینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ کا راستہ روکنے میں کامیاب ہوگئی ۔ کاتب تقدیر کے فیصلے سب سے الگ ہوتے ہیں۔ نہ حکومت کی فوجی اور وفاقی آئینی عدالت کی خواہش پوری ہوئی، نہ ریٹائرمنٹ ایج کی مدت میں اضافہ ہوسکا، یوں حکومت جو قاضی فائز عیسیٰ کو برقرار رکھنا چاہتی تھی، اس کا خواب پورا ہوا اور نہ ہی پی ٹی آئی و جسٹس منصور علی شاہ کی چیف جسٹس بننے کی آرزو پوری ہو سکی بلکہ قرعہ فال جسٹس یحییٰ آفریدی کے نام نکل آیا۔ اب وہ منصف اعلیٰ پاکستان ہیں۔ قوم کو ان سے امید ہے کہ وہ آئین و قانون کے مطابق فیصلے کریں گے ۔