سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں جاری دو روزہ فیوچر انویسٹمنٹ انیشی ایٹیو (ایف آئی آئی) کے آٹھویں ایڈیشن کے اجلاس سے خطاب میں وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ ’’پاکستان ان ملکوں میں شامل ہونے کے لیے تیار ہے جو بڑے خواب دیکھنے کی ہمت رکھتے ہیں۔ ہم آپ کو پاکستان میں اپنی مہارت اور تخلیقی صلاحیتوں کو لانے کے لیے سرمایہ کاری کرنے کی دعوت دیتے ہیں، کیونکہ ہم لچک اور مشترکہ خوشحالی سے جڑے مستقبل کی تعمیر کرتے ہیں۔‘‘
سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں جاری فیوچر انویسٹمنٹ انیشی ایٹیو میں اس برس کا موضوع ’’ لا محدود آفاق :آیندہ کل کی تعمیر کے لیے آج سرمایہ کاری‘‘ ہے، غالب گمان ہے کہ دنیا بھر سے آنے والے ایگزیکٹیو حکام 28 ارب ڈالر سے زائد کے سمجھوتوں کا اعلان کریں گے۔ وزیراعظم شہباز شریف کا دورہ سعودی عرب اور فیوچر انویسٹمنٹ انیشیٹو کانفرنس پاکستان کی معیشت کے لیے امید کی نئی کرن بن گئی۔
وزیراعظم شہباز شریف کی سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے ساتھ دو طرفہ ملاقات میں تجارت اور سرمایہ کاری کو مزید فروغ دینے کے عزم کا اعادہ کیا گیا ہے۔ سعودی حکومت کی ممکنہ مالی امداد اور معاہدے پاکستانی معیشت کو درپیش چیلنجز میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں، پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان مستقبل میں مزید اقتصادی تعاون کے امکانات بڑھ گئے۔ پاکستان میں خصوصی اقتصادی زونز اور تیل و گیس کے شعبوں میں طویل مدتی سرمایہ کاری کے مواقع کھل سکتے ہیں۔اگر پاکستان ادارہ جاتی اور قانونی اصلاحات پر توجہ دے تو یہ تعلقات طویل مدتی اقتصادی ترقی اور عوام کی خوشحالی کے لیے اہم ثابت ہوں گے۔
ایف آئی آئی کو ڈیووس ان دی ڈیزرٹ کے طور پر بھی جانا جاتا ہے اور یہ ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں عالمی رہنما، بڑی کمپنیوں کے سربراہان، کاروباری افراد اور پالیسی ساز صنعتوں،گورننس اور انسانیت کے مستقبل کی تشکیل کے لیے جمع ہوتے ہیں۔ ریاض میں ہونے والی کانفرنس میں مصنوعی ذہانت، روبوٹکس، تعلیم، توانائی، خلا، صحتِ عامہ اور پائیدار ترقی کے حوالے سے دنیا کو درپیش مسائل کے حل کے حوالے سے گفتگو و مشاورت ہوگی۔ ایف آئی آئی کانفرنس 2017میں ایک سالانہ اجتماع کے طور پر شروع ہوئی تھی جو دنیا بھر میں کاروباری رہنماؤں اور سرمایہ کاروں کو اکٹھا کرتی ہے۔
ایف آئی آئی شریک ممالک کو اقتصادی و معاشی صلاحیت کو ظاہر کرنے، غیر ملکی سرمایہ کاری کو اپنی طرف متوجہ کرنے اور ایک پائیدار مستقبل کی تشکیل کے لیے بات چیت میں مشغول ہونے کے لیے پلیٹ فارم فراہم کرتا ہے۔ ایف آئی آئی پائیدار معاشی اور سماجی ترقی کے فروغ اور جدید ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کو اپنی ترجیحات میں شامل کرتا ہے۔
دوسری جانب پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کی سعودی عرب کی دلچسپی ہمارے ملک کے معدنیاتی منظر نامے کو کافی تبدیل کرسکتی ہے۔ سعودی عرب اپنے پبلک انویسٹمنٹ فنڈ جس کی مالیت ایک کھرب ڈالرز سے زائد ہے، اس کے ساتھ اب وہ پاکستان کی مائننگ انڈسٹری کی ترقی میں تعاون کے لیے سرمایہ کاری کرنے کو تیار ہے۔ معدنیات جیسے کاپر لیتھیم بیٹریز کے لیے ضروری ہیں اور توانائی کی منتقلی اور قابلِ تجدید معیشت کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ مخصوص معدنیات بشمول تانبے کے حصول کے لیے عالمی سطح پر کوششیں کی جا رہی ہیں کیونکہ انھیں قابلِ تجدید توانائی کے لیے اہم قرار دیا جا رہا ہے۔
تاہم ان میں سے بہت سی معدنیات ایسی جگہوں پر پائی جاتی ہیں جو جغرافیائی سیاسی طور پر غیر مستحکم ہیں جس کی وجہ سے وہاں کان کنی میں دشواری ہوسکتی ہے۔ پاکستان کے پاس بھی تانبے اور سونے کے ذخائر ہیں جس نے سعودی عرب کی توجہ حاصل کی۔ وہ پاکستان کے وسائل کو عالمی تناظر میں قابلِ تجدید توانائی کے حصول کے لیے ایک اچھی سرمایہ کاری کے طور پر دیکھتا ہے۔ سعودی عرب کا پبلک انویسٹمنٹ فنڈ کان کنی کو اہم سمجھتا ہے اور ان کے نزدیک سرمایہ کاری کے 13 اہم شعبہ جات میں سے کان کنی میں سرمایہ کاری ایک کلیدی اقدام ہے۔ سعودی عرب اور پاکستان دونوں کو مل کر کام کرنے سے مشترکہ فوائد حاصل ہوں گے جب کہ اس سے پاکستان کی کان کنی کی مہارت اور صلاحیتوں کو بھی فروغ مل سکتا ہے۔
ریکوڈک، تانبے اور سونے کی کان کنی کا یہ پروجیکٹ بلوچستان کے معدنیات سے مالامال علاقے میں واقع ہے جو کہ Tethyan Magmatic Arc کا حصہ ہے۔ سعودی عرب جیسے بڑے سرمایہ کار کی شمولیت سے اس منصوبے کے بہترین فوائد حاصل ہونگے۔
سعودی سرمایہ کو پاکستان کے مائننگ سیکٹر میں متعارف کروائیں گے تو یہ متوقع طور پر پاکستان کو معدنیاتی وسائل پر مبنی معیشت کی اہمیت اجاگر کرنے میں اہم ثابت ہوگا۔ اس حوالے سے طویل مدتی فوائد اور کسی بھی طرح کے ممکنہ جغرافیائی سیاسی یا معاشی فیصلوں میں انتہائی محتاط ہونا ہوگا اور یہ صرف سرمایہ کاری اور شیئرز کی تقسیم کی بات نہیں۔ حالیہ تاریخ میں پہلی بار یہ دونوں ممالک مالیاتی امداد یا کمرشل شراکت داری کے بغیر صرف اقتصادی وعدوں کی بنیاد پر باہمی تعلقات کو فروغ دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ یہ پاکستان کی بہت بڑی فتح ہے۔
مستقبل کا سوچیں تو یوں پاکستان کے اقتصادی شعبہ جات میں خلیجی ممالک کی دلچسپی میں اضافہ ہوسکتا ہے جن میں کان کنی کے علاوہ دیگر اہم اقدامات بھی شامل ہوسکتے ہیں جیسے قومی ایئرلائنز کی نجکاری، زراعت، فارمنگ اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبہ جات میں سرمایہ کاری کے امکانات بھی روشن ہوں گے۔ یہ شراکت داری پاکستان کی معیشت کے لیے ایک تبدیلی کے دور کا آغاز ثابت ہوسکتی ہے جس میں مائننگ سیکٹر ممکنہ طور پر اس تبدیلی میں سب سے آگے ہے۔
اس وقت سعودی عرب تیل پر اپنی معیشت کا انحصار گھٹانے اور قابلِ تجدید توانائی کو فروغ دینے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ سات سو ارب ڈالر سے زائد فنڈ کے ساتھ سعودی پبلک انویسٹمنٹ فنڈ دنیا کے چند بڑے سرمایہ کاری فنڈز میں سے ایک ہے اور وژن 2030کے تحت سعودی عرب سرمایہ کاری کے حوالے سے مواقع کی تلاش میں ہے۔ پاکستان ان تمام تقاضوں کو پورا کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ دونوں جانب کے حکومتی عہدیداران میں روابط اور معاشی دلچسپی کے سلسلے میں تیزی نظر آئی ہے۔ پاکستان آنے والے سعودی وفد میں انفارمیشن ٹیکنالوجی‘ میرین، کان کنی، تیل اورگیس، ادویات سازی اور ایوی ایشن کی بڑی سعودی کمپنیوں کے 30 سے زائد سربراہان کی شمولیت سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ سعودی سرمایہ کار پاکستان میں کن شعبوں میں سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں۔
متعلقہ شعبوں میں نئی سعودی سرمایہ کاری سے نہ صرف جدید رجحانات متعارف ہوں گے بلکہ پاکستان کے اقتصادی شعبہ جات میں خلیجی ممالک کی دلچسپی میں بھی اضافہ ہوگا اور بیرونی دنیا پاکستان میں سرمایہ کاری کے پوٹینشل سے آگاہ ہوگی، اگر اس حوالے سے چیلنجز کی بات کی جائے تو امن و امان کی مثالی صورت کے علاوہ ملکی سطح پر سیاسی ہم آہنگی کی بھی اشد ضرورت ہے کیونکہ سیاسی انتشار کے ماحول میں معاشی صلاحیتوں کو بروئے کار لانا ممکن نہیں رہتا۔
ملک اس وقت جس معاشی کساد بازاری سے گزر رہا ہے،اس کے نتیجے میں غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی کے لیے بھی نئے قرضے لینا پڑ رہے ہیں اور یہ ایک ایسا سلسلہ ہے، جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔ وفاقی وزیر اقتصادی منصوبہ بندی کے مطابق حکومت کی آمدن سات ہزار ارب روپے ہے جب کہ آٹھ ہزار ارب روپے کے قرضے ادا کرنے ہیں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ وسائل کا بڑا حصہ کرپشن اور اسمگلنگ کی نذرہو رہا ہے صرف پٹرول کی اسمگلنگ سے قومی خزانے کو سالانہ دو ارب ڈالر نقصان ہوتا ہے۔
ایسے میں پاکستان سعودی عرب اور دوسرے دوست ملکوں اور ذرایع سے سرمایہ کاری حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے تو ملک معاشی ترقی کی راہ پر چل نکلے گا۔ روزگار میں اضافہ ہوگا، مہنگائی میں کمی ہو گی اور غربت کے خاتمے میں مدد ملے گی۔ حکومت کو مکمل یکسوئی کے ساتھ اس معاملے میں اپنا کردار نبھانا پڑے گا۔ حکومت پاکستان اقتصادی اصلاحات لانے کی بھی کوشش کر رہی ہے جن کا مقصد جی ڈی پی کی نسبت سے ٹیکس کی شرح بڑھانا، توانائی کی قیمت کم کرنا، حکومت کی زیر ملکیت اداروں کی نجکاری اور انسانی وسائل کے استعمال میں بہتری لانا ہے، لیکن یہ سب کچھ اسی صورت ممکن ہے جب سرمایہ کاری کے لیے ماحول سازگار بنایا جائے۔
ایسے وقت میں جب ملکی قرضوں کا حجم جی ڈی پی کے 80 فیصد سے بھی بڑھ چکا ہے، حکومت کی ترجیح نئے قرضوں کے بندوبست کے بجائے سرمایہ کاری کے لیے موزوں ماحول کی فراہمی پر ہونی چاہیے تاکہ معاشی عسرت کا مقابلہ دستیاب وسائل سے کیا جا سکے۔ اس سلسلے میں سیاسی قیادت کو بھی اپنی ذمے داریوں کا ادراک کرنا چاہیے اور قومی ہم آہنگی اور یگانگت کو فروغ دینا چاہیے تاکہ ملک میں اندرونی و بیرونی سرمایہ کاری کی راہ ہموار ہو سکے اور معاشی ترقی کی رفتار کو مہمیز دی جا سکے۔