ملک میں نوجوان طلبہ میں بے چینی بڑھ رہی ہے۔گزشتہ دنوں لاہور میں ایک طالبہ کے ریپ کی خبر جعلی ہونے کے باوجود پنجاب کے مختلف شہروں میں طلبہ کے احتجاج سے ثابت ہوتا ہے کہ نوجوان طلبہ اور ریاست کے درمیان فاصلے خاصے گہرے ہیں، اگر حکومت نے طلبہ کے مسائل پر فوری توجہ نہ دی تو اس بات کے امکانات بڑھ رہے ہیں کہ نوجوان نسل کا غصہ کسی بھی مسئلے پر پھٹ پڑے گا۔
ایک انگریزی اخبار کے رپورٹر نے راولپنڈی کی مجسٹریٹ کی عدالت میں آنکھوں دیکھا حال یوں بیان کیا کہ پولیس نے ہنگاموں میں ملوث ہونے کے الزام میں 300 طلبہ کو عدالت کے سامنے پیش کیا تھا۔ یہ طلبہ اپنے کندھوں پر اسکول کے بیگ لادے ہوئے تھے۔ یہ طلبہ جن میں سے بیشترکی عمریں 18سال سے کم ہیں، اسکول کالج سے مظاہروں کا حصہ بن گئے تھے اور پولیس نے انھیں پکڑ لیا تھا۔
پولیس افسر نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ ان طلبہ کو جیل بھیج دیا جائے مگر دور اندیش مجسٹریٹ نے پولیس افسرکی اس درخواست کو رد کردیا۔ مجسٹریٹ صاحب نے ان طلبہ کے والدین کو اپنی ذمے داریوں کا احساس دلایا اور طلبہ کو مستقبل میں رویہ بہتر بنانے کی تلقین کی اور یہ طلبہ گھروں کو چلے گئے۔ ایسی ہی صورتحال باقی شہروں میں بھی رونما ہوئی۔ طلبہ نے کراچی اور حیدرآباد میں بھی یکجہتی کے لیے مظاہرے کیے۔ حکومت نے جعلی خبر کے وائرل ہونے کو طلبہ کے احتجاج کا سبب قرار دیا اور ایف آئی اے نے کچھ گرفتاریاں کیں۔ وزیر اطلاعات نے اس صورتحال کی ذمے داری تحریک انصاف کے سوشل میڈیا کے جنگجوؤں پر عائد کی۔ یہ ایک حقیقت تو ہے مگر طلبہ کے احتجاج کی وجوہات میں سے صرف ایک ہے۔
بائیں بازو کی طلبہ تنظیمیں پروگریسو اسٹوڈنٹس کلیکٹو اور ریوولیشنری اسٹوڈنٹس فرنٹ کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ پرائیوٹ تعلیمی اداروں میں طلبہ کے ساتھ برا سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ یہ ادارے ہر سمسٹر کے بعد فیسوں میں اضافہ کرتے ہیں اور جو طالب علم کسی بناء پرکسی سمسٹر میں فیس ادا نہیں کرپاتے ان کے ساتھ ناروا سلوک کیا جاتا ہے۔
ان پرائیوٹ اداروں میں طلبہ کو کسی قسم کی آزادی دینے کا تصور نہیں ہے۔ طلبہ اگر کسی مسئلے پر انتظامیہ کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کے خلاف مختلف نوعیت کی تادیبی کارروائیوں ہوتی ہیں۔ ان تادیبی کارروائیوں میں جرمانہ ،کسی سمسٹر میں کلاس کے حق سے محروم کرنا اورکسی طالب علم کے جرم کو زیادہ خطرناک سمجھا جائے تو اس کو تعلیمی ادارے سے برطرف کیا جاتا ہے۔ طلبہ کوکسی قسم کی اپیل کا حق نہیں ہوتا۔ ان پرائیویٹ اداروں میں کسی مستحق طالب علم کی فیس کی معافی کا تصور تو بہت پہلے ختم ہوچکا ۔
برطانوی دورِحکومت سے ایک اسکول میں ایک سے زیادہ بھائی بہن تعلیم حاصل کررہے ہوں تو ان میں سے ایک کی فیس معاف کردی جاتی تھی۔ بعض اساتذہ کا کہنا ہے کہ پرائیویٹ اسکولوں کا ذکر تو چھوڑیں سرکاری تعلیمی اداروں میں بھی یہ سہولت ختم ہوچکی ہے۔ حکومت نے یہ قانون بنایا تھا کہ بھارت کی طرح پاکستان میں بھی پرائیویٹ تعلیمی ادارے 10فیصد نشستیں میرٹ کی بنیاد پر غریب طلبہ کے لیے مختص کریں گے، مگر اس قانون پرکبھی عمل درآمد نہیں ہوا۔
ایک اہم مسئلہ جنسی ہراسگی کے بڑھتے ہوئے واقعات کا بھی ہے۔ طلبہ رہنماؤں کا کہنا ہے کہ سرکاری یونیورسٹیوں میں تو ہراسمنٹ کمیٹیاں کافی عرصہ پہلے قائم ہوچکی ہیں مگر بیشتر پرائیویٹ اداروں میں یہ کمیٹیاں قائم نہیں ہیں۔ طالب علموں کا کہنا ہے کہ ہر تعلیمی ادارے میں اس طرح کی کمیٹی قائم ہونا ضروری ہے۔ محض کمیٹی کے قیام سے مسئلہ حل نہیں ہوتا بلکہ اس کمیٹی میں طلبہ کی نمایندگی بھی ضروری ہے۔ گزشتہ دنوں پنجاب یونیورسٹی کے ہوسٹل میں ایک طالبہ کی خودکشی کی خبر بھی شایع ہوئی تھی۔
اس لیے ضروری ہے کہ ایک آزاد کمیشن قائم کیا جائے جوگزشتہ کئی برسوں سے اس قسم کے واقعات کی تحقیقات کرے۔ اس آزادانہ کمیشن میں طلبہ کو بھی نمایندگی دی جائے۔ ان تنظیموں کا بھی مطالبہ ہے کہ طلبہ یونین کو بحال کیا جائے تاکہ طلبہ کی تعلیمی اداروں کے معاملات میں حقیقی نمایندگی ہوسکے۔ گزشتہ ہفتہ ریٹائر ہونے والے چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جب قائد اعظم یونیورسٹی کی سنڈیکیٹ کے اجلاس میں شرکت کی تو انھوں نے واضح طور پر اس بات کا اظہار کیا تھا کہ مارشل لاء کے خاتمے کے بعد طلبہ یونین کا قانون کالعدم ہوچکا ہے۔ اس بناء پر طلبہ یونینز عملی طور پر بحال ہوچکی ہیں۔
اس لیے طلبہ یونیورسٹیوں کے بنیادی اداروں میں شمولیت کے لیے طلبہ یونین کے انتخابات کا انعقاد ضروری ہے۔ قائد اعظم یونیورسٹی کی انتظامیہ نے طلبہ یونین کے انتخابات کرانے کا اعلان کیا تھا مگر اس فیصلے پر عملدرآمد نہ ہوسکا۔ سینیٹ نے بھی وفاق کے زیر انتظام یونیورسٹی میں طلبہ یونین کی بحالی کے لیے قانون سازی کی تھی۔
تحریک انصاف کی سابقہ حکومت میں بائیں بازو کی طلبہ تنظیموں نے پورے ملک میں طلبہ یونین کی بحالی کے لیے ریلیاں منعقد کیں۔ اس وقت کے وزیر اعظم نے طلبہ کے ان مطالبات کو تسلیم کرنے اور طلبہ یونین کے انتخابات کے لیے مثبت اعلان کیا تھا مگر پھر تحریک انصاف کی حکومت ختم ہوگئی اور وعدہ وفا نہ ہوا۔
پیپلزپارٹی کے چیئرپرسن بلاول بھٹو زرداری نے اعلان کیا تھا کہ سندھ میں طلبہ یونین کی بحالی کے لیے قانون سازی عمل میں لائی جائے گی۔ بلاول بھٹو نے وعدے کا پاس کیا اور سندھ اسمبلی سے کورونا کی وباء پھیلنے سے پہلے طلبہ یونین کا نیا قانون منظورکیا گیا۔ سول سوسائٹی کے مسلسل آوازیں بلند کرنے پر اس قانون کے قواعد و ضوابط بھی تیار کر لیے گئے۔
ایک زمانے میں بائیں بازو کے رہنما فاضل راؤکے صاحبزادہ اسماعیل راؤ جوکہ سندھ یونیورسٹی اینڈ بورڈز کے امور پر مامور تھے، تو انھوں نے سندھ کی یونیورسٹی کے وائس چانسلروں کا اجلاس طلب کیا اور طلبہ یونین کی بحالی پر رائے طلب کی تھی۔ اس کمیٹی کی روداد جو اخبارات سے پتہ چلا کہ صرف ایک وائس چانسلر کے علاوہ کوئی اور وائس چانسلر طلبہ یونین کی بحالی کے حق میں نہیں تھا۔ جونیئر اساتذہ کا کہنا ہے کہ بیشتر وائس چانسلر 80ء کی دہائی میں طلبہ یونین پر پابندی کے بعد یونیورسٹی میں داخل ہوئے تھے اور اب اہم عہدوں پر پہنچ گئے ہیں مگر ان کے پاس طلبہ کی اجتماعی دانش کا تصور نہیں ہے اور پھر انھیں یہ بھی خوف ہے کہ طلبہ یونین بحال ہوگئی تو پھر طلبہ نمایندوں کو یونیورسٹی کے بنیادی اداروں میں نمایندگی ملے گی، اس طرح طلبہ نمایندے یونیورسٹی انتظامیہ کی پالیسیوں کے خلاف زیادہ مؤثر انداز میں مخالفت کرسکیں گے۔ سندھ میں قانون بننے کے باوجود اس قانون پر عملدرآمد نہیں ہوسکا۔ پیپلز پارٹی کے سینیٹر مسرور احسن نے سینیٹ میں تقریرکرتے ہوئے طلبہ یونین کی بحالی کا مطالبہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وفاقی یونیورسٹیاں بحران کا شکار ہیں اور طلبہ کی نمایندگی نہ ہونے کے سبب طلبہ میں ہیجان پیدا ہو رہا ہے۔
پالیسی ساز اداروں کے ماہرین کو تاریخ سے سبق سیکھنا چاہیے کہ جنرل ایوب خان کے خلاف پہلے طلبہ ہی نے تحریک شروع کی تھی اور اس وقت کی حکومت نے اس تحریک کو سنجیدگی سے نہیں لیا تھا، یہی وقت ہے کہ طلبہ کے مسائل پر سنجیدگی سے غورکیا جائے اور طلبہ یونین بحال کی جائے۔