اسلامی قانونِ وراثت

’’یہ اﷲ کی طرف سے مقرر کردہ حدود ہیں، اور جو اﷲ اور اس کے رسول (ﷺ) کی اطاعت کرے گا، اﷲ اسے جنّتوں میں داخل کرے گا۔‘‘


ارشاد باری تعالی ہے: ’’ جب کوئی پکارنے والا مجھے پکارتا ہے یا بلاتا ہے، میں فورا اُس کی پکار کے جواب میں لبیک فرماتا ہوں۔ اکیلے میں پکارتا ہے تو اس کا جواب اکیلے میں دیتا ہوں اور جماعت میں پکارتا ہے تو اس کا جواب بھی فرشتوں کی جماعت میں ہی دیتا ہوں۔‘‘ ۔ فوٹو : فائل

اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جو انسانی زندگی کے ہر پہلو کی راہ نمائی کرتا ہے، اور انہی پہلوؤں میں سے ایک اہم موضوع وراثت کا ہے۔ اسلام نے وراثت کی تقسیم کا ایک منصفانہ اور جامع نظام وضع کیا ہے تاکہ مرنے والے کے قریبی رشتے داروں کو ان کا حق ملے اور معاشرتی انصاف قائم رہے۔ قرآن و حدیث میں وراثت کے احکامات کو خصوصی اہمیت دی گئی ہے، اور ان میں کسی قسم کی تبدیلی یا غفلت کو منع کیا گیا ہے۔

وراثت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن مجید میں اﷲ تعالیٰ نے وراثت کے اصول نہایت تفصیل کے ساتھ بیان کیے ہیں۔ وراثت ایک ایسا حق ہے جو مرنے والے کے مال و جائیداد کو اس کے قریبی رشتے داروں میں تقسیم کرنے کے بارے میں وضاحت فراہم کرتا ہے، تاکہ کوئی محروم نہ ہو اور عدل و انصاف قائم ہو۔ وراثت کا نظام معاشرتی استحکام اور خاندانوں کے درمیان امن و محبت کو فروغ دیتا ہے۔ اسلام نے ہر شخص کو اس کے جائز حق کی ضمانت دی ہے، اور کسی بھی وارث کا حق مارنے یا تقسیم میں ناانصافی کرنے کو بہت بڑا گناہ قرار دیا ہے۔ وراثت کا منصفانہ نظام رشتے داروں کے درمیان محبت اور بھائی چارے کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

قرآن مجید میں وراثت کے احکامات سورۃ النساء میں تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے وراثت کی تقسیم کے لیے مختلف اصول وضع کیے ہیں تاکہ معاشرے میں انصاف اور توازن قائم ہو۔ وراثت کے احکامات میں والدین، اولاد، شریک حیات، اور دیگر قریبی رشتے داروں کے حقوق کا ذکر ہے۔ قرآن مجید میں فرمایا گیا، مفہوم:

’’اﷲ تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں حکم دیتا ہے کہ بیٹے کا حصہ دو بیٹیوں کے برابر ہے، اور اگر (مرنے والے کی) صرف بیٹیاں ہوں، دو یا زیادہ، تو انہیں مال کا دو تہائی ملے گا۔‘‘

اس آیت میں اﷲ تعالیٰ نے وراثت کی تقسیم کے اصول واضح کر دیے ہیں، جن کے مطابق بیٹیوں اور بیٹوں دونوں کو حصہ دیا جائے گا۔ یہ احکام اﷲ تعالیٰ کی طرف سے متعین ہیں اور ان میں کوئی کمی بیشی کرنا جائز نہیں ہے۔

نبی کریم ﷺ نے بھی وراثت کے حقوق اور تقسیم کے اصولوں کو وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اﷲ عنہ کی روایت ہے کہ وہ شدید بیمار ہوئے تو رسول اﷲ ﷺ ان کی عیادت کے لیے تشریف لائے۔ حضرت سعدؓ نے عرض کیا کہ وہ اپنا سارا مال خیرات کرنا چاہتے ہیں، تو نبی ﷺ نے انہیں اس بات سے منع کیا اور فرمایا، مفہوم: ’’ایک تہائی سے زیادہ مال خیرات نہ کرو اور وہ بھی زیادہ ہے۔‘‘(بخاری)

اس حدیث میں یہ اصول بیان کیا گیا ہے کہ وراثت کے حق دار افراد کو ان کا حصہ دیا جائے اور وصیت کے ذریعے صرف ایک تہائی مال کو کسی اور مقصد کے لیے مختص کیا جا سکتا ہے۔

کچھ لوگ شادی کے اخراجات کو بہانہ بنا کر بیٹیوں یا بہنوں کو وراثت سے محروم کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن شریعت میں یہ عمل ناجائز ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق، شادی کے اخراجات والدین اور والد کی وفات کی صورت میں بھائیوں کی ذمہ داری میں شامل ہیں اور اس کا وراثت سے کوئی تعلق نہیں۔ شادی پر خرچ کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ وراثت کا حق ختم ہو جائے گا۔ قرآن و حدیث میں وراثت کے حقوق کو ہر حالت میں محفوظ رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ’’اﷲ تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں حکم دیتا ہے کہ بیٹے کا حصہ دو بیٹیوں کے برابر ہے۔‘‘ (النساء)

بیٹیوں اور بہنوں کا وراثت میں حق شریعت کا حصہ ہے اور اسے کسی بھی وجہ سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔

اسلامی وراثت کے قوانین میں عدل و انصاف کو یقینی بنانے کے لیے کچھ اہم اصول ہیں:

1: قریبی رشتے داروں کا حق: سب سے پہلے قریبی رشتے داروں کا حق متعین کیا جاتا ہے، جیسا کہ والدین، اولاد اور شریک حیات۔

2 : مرد اور عورت کا حصہ: بیٹے اور بیٹی دونوں کو وراثت میں حصہ دیا جاتا ہے، البتہ مرد کا حصہ دگنا ہوتا ہے کیوں کہ مرد کو خاندان کی کفالت کی ذمہ داری اٹھانی ہوتی ہے۔

3 : وصیت کا حق: مرنے والا شخص اپنے مال کا ایک تہائی حصہ وصیت کے طور پر کسی بھی مقصد کے لیے مخصوص کر سکتا ہے، لیکن باقی مال وارثین میں شریعت کے اصولوں کے مطابق تقسیم کیا جائے گا۔

4 : یتیموں اور کم زوروں کا تحفظ: اسلام نے خاص طور پر یتیموں اور کم زور افراد کے حقوق کی حفاظت کا حکم دیا ہے تاکہ ان کے حقوق ضایع نہ ہوں۔

اسلامی معاشرت میں وراثت کی تقسیم کا ایک بنیادی مقصد عدل و انصاف کو فروغ دینا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا، مفہوم: ’’یہ اﷲ کی طرف سے مقرر کردہ حدود ہیں، اور جو اﷲ اور اس کے رسول (ﷺ) کی اطاعت کرے گا، اﷲ اسے جنّتوں میں داخل کرے گا۔‘‘ (النساء)

غور فرمائیں! اﷲ تعالی نے وراثت کو ’’حدود‘‘ قرار دیا ہے آج کس طرح وراثت کی تقسیم میں لیت و لعل سے کام لیتے ہیں، کیسے کیسے بہانے بناتے اور کیسے کیسے عذر تراشتے ہیں، کہ اگر مکان بیچ کر وراثت تقسیم کی گئی تو ہمارے بچوں کے سر سے چھت چھن جائے گی، ہم کہاں جائیں گے؟ کیسے اور کہاں سے کھائیں گے؟ یہ سارے شیطانی وسوسے ہیں اﷲ تعالی فرماتا ہے، مفہوم:

’’بے شک! شیطان تمہیں مفلسی سے ڈراتا ہے اور بُری باتوں کا حکم دیتا ہے۔‘‘

قرآن کا حکم یہ نہیں کہ مال دار ہو تو وراثت تقسیم کرو، غریب ہو تو خود قابض ہوجاؤ، قرآن تو کہتا ہے کم ہو یا زیادہ، اﷲ کے حکم کے مطابق تقسیم کردو۔

اکثر یہ بھی ہوتا ہے کہ اولاد میں سے جو بیٹا باپ کے ساتھ کاروبار کررہا ہوتا ہے، باپ کی وفات کے بعد وہی کاروبار پر قابض ہوجاتا ہے، کہیں خواتین تمام جائیداد کی مالک بن جاتی ہیں جس کا جہاں بس چلتا ہے وہ وہاں اپنا قبضہ پکا کرلیتا ہے۔

ہمارے معاشرے میں جہاں حج اور عمرے کا بھی رواج ہے، تبلیغ و دعوت، نماز و روزہ اور مذہبی محافل و تقریبات کا چلن بھی ہے لیکن دین داری کا یہ حال ہوگیا ہے کہ وراثت کی تقسیم میں تاخیری حربے استعمال کیے جاتے ہیں، یہاں تک کہ اگر کوئی وراثت کی شرعی تقسیم کی بات کر دے تو خاندان ٹوٹنے اور بھائی بہن میں ہمیشہ کے لیے افتراق اور رشتہ ختم ہونے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ یہ سب امور اﷲ تعالی کی حدود سے ٹکرانے کے مترادف ہیں۔

زمانہ جاہلیت کی مثالیں آج بھی ہمارے معاشرے میں نظر آتی ہیں کہ جس طرح اس جاہلی معاشرے میں وراثت کے حق دار صرف وہ جوان ہوتے تھے جو طاقت ور ہوتے اور میدان جنگ میں بہادری کے جوہر دکھا سکتے، بوڑھے، بچے اور خاص طور پر عورتوں کو وراثت سے محروم رکھا جاتا آج بھی یہی ہورہا ہے۔

شیخ الحدیث مولانا یوسف کشمیری لکھتے ہیں : ’’اگر وراثت میں تاخیر نہ کی جائے اور جس کا جو حصہ بنتا ہے وہ اس کو دے دیا جائے، چاہے تھوڑا ملے یا زیادہ، وہ اپنا کاروبار کرسکتا ہے، اپنے پاؤں پر کھڑا ہو سکتا ہے، میرے سامنے ایسے کئی کیسز آئے ہیں، متعدد جھگڑے دیکھے ہیں، بعض اوقات فریقین میں صلح کروانے سے عاجز آجاتا ہوں، وراثت بروقت تقسیم نہ کرنا بہت بڑی کوتاہی ہے جتنا معاملہ تاخیر کا شکار ہوتا ہے اختلافات، تنازعات، شکوک و شبہات مسائل اور حساب کتاب بڑھتا چلا جاتا ہے۔ ایسا متعدد مرتبہ دیکھا گیا ہے کہ ہماری عدالتیں بھی درخواست گزار کو کسی عالم دین سے فتویٰ لینے بھیج دیتی ہیں اور پھر اس کے مطابق فریقین کے مابین جھگڑے کا فیصلہ کردیا جاتا ہے۔ دوسرا اہم پہلو یہ بھی ہے کہ مختلف مسالک کے مابین فروعی اختلافات پائے جاتے ہیں تاہم وراثت کے مسائل ان کے درمیان تقریباً متفقہ ہیں۔‘‘

سورہ النساء کی آیت نمبر گیارہ، بارہ اور سورہ کی آخری آیت میں احکام وراثت تفصیل سے بیان کرنے کے بعد اﷲ تعالی نے فرمایا کہ یہ اﷲ تعالی نے ایک حد بیان کردی ہے گویا ایک لکیر کھینچ دی ہے جو اس حد کو پار کرے گا وہ ظالم ہے اور حرام کھا رہا ہے۔

صحیح بخاری و مسلم کی حدیث ہے کہ نبی صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: ’’جو شخص ظلم و زیادتی کرتے ہوئے کسی کی ایک بالشت جگہ غضب کرلے گا تو کل قیامت کے دن اﷲ تعالی سات زمینوں کا طوق بناکر اس کے گلے میں ڈال دے گا۔‘‘

وراثت کے اصول اﷲ کے مقرر کردہ ہیں اور ان پر عمل کرنا مسلمانوں پر فرض ہے۔ کسی وارث کا حق مارنا یا تقسیم میں کمی بیشی کرنا بڑا گناہ ہے۔

حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’اﷲ نے ہر حق دار کو اس کا حق دے دیا ہے، لہٰذا کسی وارث کے حق میں وصیت جائز نہیں ہے۔‘‘ (سنن ابوداؤد)

نبی کریم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’جو شخص کسی وارث کو اس کا حق دینے سے روکے گا، اﷲ قیامت کے دن اسے جنّت سے محروم کرے گا۔‘‘ (ابن ماجہ)

اس سے معلوم ہوا کہ اسلامی نظامِ وراثت ایک منصفانہ اور کامل نظام ہے، جو ہر وارث کو اس کا حق پہنچانے کی ضمانت دیتا ہے۔ شادی یا دیگر اخراجات وراثت کا متبادل نہیں بن سکتے اور نہ ہی یہ وراثت کے حق کو ختم کرتے ہیں۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں وراثت کے اصولوں پر عمل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے تاکہ معاشرت میں انصاف قائم رہے اور اﷲ کی رضا حاصل ہو۔ وراثت میں کسی قسم کی ناانصافی نہ صرف دنیاوی نقصان کا باعث بن سکتی ہے بل کہ آخرت میں بھی سخت عذاب کا سامنا ہو سکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔