پشتو میں ایک حکایت ہے کہ پشاور کے کسی سوداگر کو خبر ملی کہ ’’باجوڑ‘‘ میں نمک کی بہت مانگ ہے چنانچہ اس نے فوراً دس بارہ گدھوں پر نمک لادا اور چل پڑا لیکن یہ افواہ اور بھی بہت سارے لوگوں نے سنی اور سب ہی نمک لاد کر باجوڑ پہنچے تھے اس لیے نمک کو مٹی کے بھاؤ لینے کے لیے بھی کوئی تیار نہیں تھا ، مجبور ہوکر اس نے نمک مفت لٹا دیا اور گدھے لے کر واپس آگیا۔
کوئی پوچھتا کہ وہ باجوڑ کا پھیرا کیسے رہا تو کہتا باجوڑیوں نے نمک کھایا اور گدھوں نے باجوڑ کی ’’سیر‘‘ کی۔ ہماری بھی جو شامت آئی تو تین ریڈیو کے ساتھیوں کے ساتھ سوات کی سیر کا پروگرام بنایا، ان دنوں والیٔ سوات کے ایک مشیر خاص سے شناسائی ہوگئی جو شاعر تھا اور اس کی ایک غزل ریڈیو پر ہٹ ہوگئی، ہٹ تو گلوکارہ کی آواز ہوئی تھی لیکن ساتھ شاعر کا نام بھی مشہور ہوگیا۔اور یہ غلطی بھی ہم نے کی تھی اور اس شناسائی کے بھروسے پر ہم نے یہ حماقت کی کہ سیدھے اس کے پاس پہنچے اس نے نہایت گرم جوشی سے ہمارا استقبال کیا اور تھوڑی دیر بعد اپنے گھر لے گیا، اس نے اپنے گھر ٹیلی فون کیا ہوگا اس لیے کھانے میں نہایت تکلف سے کام لیاگیا تھا۔ویسے بھی شاہی آدمی تھا سب میسر تھا اتنا زبردست کھانا ہم نے زندگی میں اس سے پہلے نہیں کھایا تھا، ہم تینوں دوست پھولے نہیں سما رہے تھے۔
اس بات سے قطعی بے خبر کہ یہ قربانی کے بکروں کو کھلایا یا پلایا جارہا ہے، کھانے کے بعد اس کا ملازم ایک موٹا سا تقریباً پانچ سو اوراق کا ایک رجسٹر لے آیا۔جو اس کے کلام بے لگام سے بھرا ہوا اس کا بیاض شریف تھا۔پھر کیا تھا پورے تین گھنٹے وہ اپنا کلام سناتا رہا اور ہمارے دماغ ابلتے رہے بلکہ یوں کہیے کہ اس میں اب تک دنیا بھر کی زبانوں میں ہونی والی شاعری کا نچوڑ تھا۔لیکن اتنے بھونڈے انداز میں کہ سمندر کو کوزے میں بند کرنے کی بجائے کوزے کو سمندر میں تیرایا گیا۔آخرکار ایک موقع ہمیں رسہ تڑانے کا مل ہی گیا کہ ہم ذرا بازار کا چکر لگانا چاہتے ہیں، یہ تو ہمیں معلوم تھا کہ وہ وہاں کا بڑا آدمی تھا اس لیے بازار ہمارے ساتھ نہیں جائے گا۔اور ہم اپنے دلوں میں جمع ہونے والی بھڑاس آپس میں نکال کر کچھ ہلکے ہوجائیں گے۔
اس نے اپنے دفتر کا ایک کاتب (بابو) ہمارے ساتھ کردیا کہ ان کو بازار میں پھرا لاؤ لیکن شام آٹھ بجے واپس پہنچنا کہ ان کو’’کبل‘‘ لے جانا ہے وہاں موسیقی کا پروگرام ہے۔موسیقی کے پروگرام کا سن کر بدمزگی دور ہوئی اور ہم خوشی خوشی اس کے ساتھ ہولیے۔ کاتب صاحب ہمیں ایک ایسی جگہ لے گئے جہاں ایک پارک کے گرد بہت سارے کوارٹر تھے، ایک کوارٹر کے پاس پہنچ کر اس نے ہمیں باہر ٹھہرایا اور خود کوارٹر میں گھس گیا، تھوڑی دیر بعد اس نے ایک مددگار کے ساتھ تین چارپائیاں اور ایک میز لاکر ہمیں پارک میں بٹھادیا۔وہ دراصل اس کا گھر تھا،ہمیں بٹھاکر وہ اندر گیا تو ایک کاپی نکال لایا وہ بھی ہماری شامت سے شاعر نکلا تھا۔
ساتھ ہی اس نے چائے کا جھانسہ بھی دیا۔اسلیے ہم بیٹھے رہے،مار کھاتے رہے وہ مذہبی قسم کا آدمی تھا اس لیے کلام میں نعتیں، حمدیں اور مناقب تھے خاص طور والیٔ سوات کے جدامجد سوات باباجی پر لمبے لمبے قصیدے تھے۔کیا کرتے مروت آڑے آرہی تھی،پشتو میں ایک کہاوت بھی ہے کہ مہمان میزبان کا بیل ہوتا ہے جو چاہے اس سے کروائے۔ اس نے ہم پر کاپی خالی کی تو شام ہونے لگی تھی واپس مشیر کے پاس پہنچنے کا وقت ہوگیا تھا ہاں اس شریف آدمی نے اتنی مہربانی ضرور کی کہ ہمیں بازار سے گزار لایا کہ
دنیا میں ہوں دنیا کا طلب گار نہیں ہوں
بازار سے گزرا ہوں خریدار نہیں ہوں
واپس مشیر صاحب کے پاس پہنچے تو گاڑیاں تیار تھیں ایک میں سازندے اور خواندے تھے دوسری میں ہمیں بٹھایا گیا۔اور ہم عازم کبل ہوئے۔ کبل سیدو شریف سے ایک گھنٹے کی مسافت پر ایک قصبہ ہے جو مشیرصاحب کا آبائی قصبہ تھا۔وہاں بھی اچھے مرغن کھانے کا انتظام تھا اور اب تو موسیقی کے پروگرام کی خوشی بھی تھی لیکن موسیقی کا پروگرام شروع ہوا تو پتہ چلا کہ یہاں بھی بکروں کو حلال کرنے کا پورا پورا بندوبست کیا گیا تھا۔
بھدی آواز والے اس گلوکار کے سامنے مشیر صاحب کا وہی بیاض دیکھ کر ہمارے پسینے چھوٹ گئے جو ہم دوپہر کو’’جھیل‘‘ چکے تھے۔ظاہر ہے کہ اس محفل میں‘‘موسیقی‘‘کم اور خواندی زیادہ تھی کبھی کبھی گلوکار کہیں اٹک جاتا ہے یا کوئی لفظ غلط بولتا تھا تو مشیر صٓحب ’’فتحہ‘‘ دینے کو تیار رہتے تھے۔کلام کے پتھر تو ہم پر برابر برس رہے تھے اور ہم پشتو کہاوت’’بھینس‘‘ بنے رہے تھے۔ کہاوت یہ ہے کہ
خدائے چہ چاتہ پیخہ کڑی
نوزان دے ورتہ میخہ کڑی
یعنی سر پر پڑجائے تو خود کو بھینس بنالو لیکن یہاں ایک اور حملہ دوسری طرف سے بھی تھا جن چارپائیوں میں ہم بیٹھے تھے ان میں کھٹملوں کی پوری پوری آبادیاں نہ جانے کب سے ہمارے انتظار میں فاقے کررہی تھیں۔دماغ اگر کلام کے بے پناہ حملوں کی زد میں تھے تو جسم کھٹملوں کے شب خون کا شکار تھے۔نیم بے ہوشی، نیم بیزاری اور مکمل عذاب کی اس رات کو ہمارے دلوں سے جتنی گالیاں مشیرصاحب کے لیے نکلی تھیں اتنی گالیاں پوری زندگی میں نہیں نکالی ہونگی۔
مشیر صاحب تو دو بجے واپس سیدو شریف چلے گئے اور ہمیں کھٹملوں اور ڈرائیور کے سپرد کرگئے، جسے صبح مشیر صاحب کے پاس پہنچانا تھا۔ناشتے کے بعد گاڑی میں سوار ہوئے تو ہم تینوں نے اپنی دفاعی سٹرٹیجی تیار کرلی تھی، منگورہ اڈے کے قریب پہنچے تو ہم نے ڈرائیور سے کہا تم جاؤ ہم ذرا بازار کا چکر لگاکر آتے ہیں راستہ ہمیں معلوم ہے وہ چلا گیا تو ہم اڈے کی طرف دوڑ پڑے۔اچھا ہوا بس چل پڑی ورنہ خطرہ تھا کہ پکڑے جائیں گے کیونکہ مشیر صاحب نے رات کو کہا تھا کہ اس نے دس بارہ افسانے بھی لکھے ہیں جن پر ریڈیو کے ڈرامے بنائے جاسکتے ہیں۔
جان بچی سو لاکھوں پائے
خیر سے بدھو گھر کو آئے