محترمہ بشریٰ بی بی تقریباً 9ماہ جیل میں گزارنے کے بعد ، ضمانت پر، آزاد فضاؤں میں باہر آ چکی ہیں۔ عدالت کی جانب سے ابھی یہ فیصلہ ہونا باقی ہے کہ اُن کی قید و بند کی سزا جائز تھی یا ناجائز۔شائد انھیں بانی پی ٹی آئی کی اہلیہ ہونے کی وجہ سے ان مشکلات سے دوچار ہونا پڑا‘ تاہم وہ اپنے شوہر کے ساتھ پورے قد کے ساتھ کھڑی ہیں۔ بانی پی ٹی آئی نے بھی اپنے عہدِ اقتدار میں اپنے سیاسی حریفوں اور اُن کے خاندانوں و خواتین پر سنگین الزامات عائد کیے ۔ اُن کا اسلوبِ سیاست ہنوز یہی ہے ۔ بہرحال محترمہ بشریٰ بی بی کے خلاف الزامات کا ایک طومار ہے۔عدت کیس سے وہ بری کی جا چکی ہیں ۔ ہیرے کی انگوٹھیوں کا ذکر ازکار بھی کیا گیا اور اُن سے منسوب کچھ مبینہ آڈیوز بھی منصہ شہود پر لائی گئیں ۔حتیٰ کہ اُنہیں جیل بھیج دیا گیا ۔
ہمارے ہاں سیاستدانوں کی خواتین کو مقدمات میں گھسیٹے جانے کی روایت پرانی ہے۔ جنرل ضیاء الحق کے دَورِ آمریت میں سابق خاتونِ اوّل ، محترمہ نصرت بھٹو، اوراُن کی معروف صاحبزادی، محترمہ بے نظیر بھٹو، پر جو تشدد کیا گیا، یہ تاریخِ پاکستان کے صفحات سے مٹایا نہیں جا سکتا ۔ جنرل پرویز مشرف کے دَورِ جبر میں نواز شریف کی اہلیہ اور سابق خاتونِ اوّل، محترمہ کلثوم نواز، سے جو نامناسب سلوک کیا گیا، اِسے بھی ہماری سیاسی تاریخ سے محو نہیں کیا جا سکتا ۔ جنرل ضیاء اور جنرل مشرف تو غیر منتخب حکمران تھے ، مگر بانی پی ٹی آئی تو بظاہر منتخب وزیر اعظم تھے ۔ افسوس مگر یہ ہے کہ اُن کے ساڑھے تین سالہ دَور میں تین بار منتخب ہونے والے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی صاحبزادی، محترمہ مریم نواز ، اور صدرِ مملکت کی ہمیشرہ، محترمہ فریال تالپور، کو زندانوں میں ڈال دیا گیا ۔
اور اب پچھلے 9مہینوں سے سابق خاتونِ اوّل ، محترمہ بشریٰ بی بی، اِنہی سیاسی حوادث کا شکار بنی رہیں۔ بانی پی ٹی آئی اُن کی قید بارے خاصے حساس واقع رہے ۔ وہ قید میں تھیں ، تب بھی الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا میں زیر بحث رہیں ۔ کہا گیا کہ وہ زندان کی سختیوں سے ٹوٹ کر بکھر جائیں گی ۔ ڈِیل کرنے پر مجبور ہو جائیں گی ۔ اور اُن کی پریشانیاں ملاحظہ کر کے شائد بانی پی ٹی آئی بھی ڈَھب پر آجائیں ۔ ایسا مگر(فی الحال) نہ ہو سکا ۔ بشریٰ بی بی استقامت اور خاموشی کے ساتھ قید کاٹ گئیں ۔ اب کئی زبانوں پر یہ الزام ہے کہ وہ ڈِیل پر رہا کی گئی ہیں ۔ سچی بات یہ ہے کہ یہ الزام اُن کی 9ماہی جیل کی توہین ہے ۔ وہ جہاں جہاں جاتی ہیں ، قیافہ شناس اُن کے تعاقب میں نئی داستانیں گھڑتے ہیں ۔ اب رہائی کے بعد وہ پی ٹی آئی اقتدار کے گڑھ، پشاور، پہنچی ہیں، تب بھی نئے قصے سامنے لانے کی کوششیں ہو رہی ہیں ۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ وہ پارٹی وزیر اعلیٰ کو کنٹرول کریں گی، پارٹی کی کمان سنبھالیں گی اور علی امین گنڈا پور کی مشاورت سے بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے لیے کوئی سبیل نکالیں گی ۔
پاکستان کی پچھلی تیس ، بتیس سالہ انتخابی ، غیر انتخابی اور سیاسی تاریخ سامنے رکھئے۔ یہ زیادہ تر تلخ ہی رہی ہے۔ تیس ، بتیس سالہ اس تاریخ میں ہمارے ہاں کئی وزرائے اعظم تشریف لائے: زیڈ اے بھٹو، محمد خان جونیجو، میاں محمد نواز شریف، چوہدری شجاعت حسین، ظفراللہ جمالی، شوکت عزیز،یوسف رضا گیلانی ، راجہ پرویز اشرف! اِن سب میں ایک بات مشترک رہی ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ اِن وزرائے اعظم میں سے کسی کی بھی اہلیہ محترمہ ، یعنی خاتونِ اوّل ، نے کبھی کسی ٹی وی یا اخبار کو براہِ راست انٹرویو نہیں دیا۔مَیں نے محض اپنی تسلّی اور تشفّی کے لیے تحقیق کی ہے کہ آیا کسی بھارتی خاتونِ اوّل نے کبھی پریس یا میڈیا کے سامنے آکر باالتفصیل بات چیت کی ہے؟ مجھے اس سوال کا جواب نفی میں ملا ہے۔ پاکستان میں بھی یہی رِیت، روائت رہی ہے۔ کسی خاتونِ اوّل کا کسی اخبار نویس کو انٹرویو دینا غیر آئینی ہے نہ غیر قانونی۔ ہمارے ہاں مگر یہ روائت مستحکم رہی ہے کہ ہماری خواتینِ اوّل پسِ پردہ رہ کر ہی اپنا کوئی چھوٹا موٹا کردار ادا کرتی ہیں۔
یہ روائت مگر بانی پی ٹی آئی کے وزیر اعظم بنتے ہی ٹوٹ گئی ۔ اِس روائت شکنی کا آغاز بانی پی ٹی آئی کی اہلیہ، محترمہ بشریٰ بی بی، سے اُس وقت ہُوا جب اُنھوں نے ایک نجی ٹی وی کو تفصیلی انٹرویو دیا۔پھرکئی اُردواور انگریزی معاصر میں اِس انٹرویو کے مندرجات بھی شائع ہُوئے ۔نتیجے میں سوشل میڈیا پر اِس کے مخالف اور موافق کئی تبصرے اور تجزئیے بھی سامنے آئے۔ ہمارے سوشل میڈیا پر چونکہ کسی کا کوئی اختیار ہے نہ یہ کسی کے کنٹرول میں ہے، اس لیے مذکورہ تبصروں میں بھی احتیاط کا دامن سنبھالا نہ جا سکا۔ سوشل میڈیا پر جس بے احتیاطی اور بے لگامی کے مظاہر سامنے آ رہے ہیں، یہ دراصل کسی سخت قانون کو دعوت دے رہے ہیں ۔ سابق بنگلہ دیشی وزیر اعظم، شیخ حسینہ واجد، نے تنگ آکر ایک ایسا ہی قانون لاگو کر دیا تھا۔ یوں ٹوئٹر، فیس بک، وٹس ایپ اور ای میل پر بد زبانی کرنے والے کئی بنگلہ دیشی شہریوں اور صحافیوں کو سخت سزائیں بھی دی گئیں، جرمانے کی بھی اور جیل کی بھی۔ کیا ہمارے Key Warriersبھی کسی ایسے ہی سخت قانون کو دعوت ِ نفاذ دے رہے ہیں؟
حیرت کی بات ہے کہ سابق وزیر اعظم ، محترمہ بے نظیر بھٹو شہید، چہرے پر نقاب نہیں کرتی تھیں تو بھی اُنہیں ہدفِ تنقید بنایا جاتا تھا اور اب سابق خاتونِ اوّل، محترمہ بشریٰ بی بی چہرہ بھی نقاب میں رکھتی نظر آتی ہیں تو تب بھی اُن کے پردے اس انداز کو عجب معنی دینے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ ہم بھی عجب لوگ ہیں۔ ہماری قومی نفسیات یونانی فلسفی ، ایسپ ، کی اُس کہانی کی مانند ہے جس میں باپ بیٹا گدھے پر سوار ہو کر سفر پر نکلے تھے ۔ اب کہا جارہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی بشریٰ بی بی صاحبہ کو پارٹی کی قیادت سونپنے اور اُنہیں اپنا جانشین بنانے جا رہے ہیں ۔ اور اگر واقعی معنوں میں وہ ایسا کرتے بھی ہیں تو کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے ؟ اگر بھٹو صاحب کبھی اپنی اہلیہ کو اور کبھی اپنی صاحبزادی کو اپنی پارٹی کی قیادت و سیادت سونپ سکتے تھے ، نواز شریف جیل میں رہ کر نون لیگ کی زمام و لگام اپنی اہلیہ ، محترمہ کلثوم نواز، کے ہاتھ میں دے سکتے تھے اور کئی مذہبی رہنما اپنی اپنی سیاسی و مذہبی جماعتوں کی گدی پر اپنے اپنے صاحبزادگان کو بٹھا سکتے ہیں تو بانی پی ٹی آئی اپنی جماعت کی جملہ ذمے داریاں بشریٰ بی بی کو کیوں نہیں تفویض کر سکتے ؟؟ اگرچہ اب تک محترمہ بشریٰ بی بی خود کو غیر سیاسی ثابت کررہی ہیں۔پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل، سلمان اکرم راجہ، نے بھی کہا ہے کہ بشریٰ بی بی صاحبہ کا پی ٹی آئی سیاست میں کوئی کردار نہیں ہے۔ پھر بھی نجانے یار لوگوں کو یقین کیوں نہیں آ رہا؟