برصغیرکی پہلی فی میل کامیڈین (دوسرا اور آخری حصہ)

ان کا نام ہے خورشید بانو، لیکن عام طور پر وہ ’’خورشید‘‘ کے نام سے جانی جاتی ہیں۔


رئیس فاطمہ November 01, 2024
[email protected]

گزشتہ کالم میں بات ہو رہی تھی اوما دیوی (ٹُن ٹُن) کی موسیقی کے حوالے سے۔ انھوں نے کسی سے موسیقی کی تعلیم حاصل نہیں کی تھی۔ موسیقی تو دورکی بات ہے انھوں نے تو اسکول کی شکل بھی نہ دیکھی تھی۔ ان کے ماں باپ اور بھائی کو رشتے داروں نے جائیداد کے حصول اور قبضے کے لیے قتل کروا دیا تھا، ان کی حیثیت ایک نوکرانی کی تھی، لیکن یہاں ایک بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ کہ اوما دیوی کو سنگر بننا تھا سو اللہ نے ان کی مدد کی اور انھیں بمبئی پہنچا دیا۔ انھیں دلی میں ایک ہمدرد سہیلی بھی مل گئی جس نے اوما کے لیے بمبئی جانے کا راستہ بنایا۔ پھر قدرت نے انھیں نوشاد صاحب کے پاس پہنچایا اور وہ مشہور سنگر بن گئیں۔ واقعی خدا اپنے نیک بندوں کے پاس فرشتوں کو انسانوں کے روپ میں بھیج دیتا ہے۔ کوئی کیسے یقین کرے کہ ایک لاچار یتیم لڑکی جس کی زندگی ظلم سہتے سہتے گزر رہی تھی وہ صف اول کی گائیکہ اور پھر برصغیر کی پہلی فی میل کامیڈین بن جائے گی۔

جی،ہاں آج کے کالم میں آپ کا تعارف برصغیر کی پہلی فی میل کامیڈین ٹُن ٹُن سے کرائیں گے۔ فلم ’’ درد‘‘ 1947 میں ریلیز ہوئی۔ وہ کامیابی کی منزلیں طے کر رہی تھیں، لیکن اختر عباس قاضی کو نہیں بھولی تھیں، ادھر لاہور میں اختر عباس قاضی بھی ریڈیو پر ان کے گانے سن رہے تھے۔ پھر انھوں نے ایک فیصلہ لیا اور بمبئی جا پہنچے اور سیدھے اوما دیوی سے ملے، دونوں نے 1948 میں شادی کر لی، شادی کے بعد اوما نے گانا چھوڑ دیا اور پوری توجہ گھر گرہستی پر دی۔ وہ کھانے پینے کی بہت شوقین تھیں، لہٰذا ان کا وزن بڑھنے لگا، چار بچے ہوگئے۔ دو لڑکے اور دو لڑکیاں۔ اس دوران اوما کا وزن بہت زیادہ بڑھنے لگا۔ اب چھ افراد کھانے والے تھے اور ایک کمانے والا، پریشانیاں بڑھنے لگیں تو شوہرکی اجازت سے اوما ایک بار پھر پہنچیں نوشاد صاحب کے پاس اور انھیں اپنی مشکل بتا کر دوبارہ گانے کی بات کی، اوما کی بات سن کر نوشاد صاحب بولے ’’ اوما! آج کل نئی نئی لڑکیاں آ رہی ہیں، جو موسیقی کی تعلیم لے کر آئی ہیں، ایسے میں دوبارہ تمہارے لیے گائیکی میں جگہ بنانا مشکل ہوگا۔‘‘

نئی نئی لڑکیوں سے مراد ان کی لتا اور آشا سے تھی۔ شمشاد بیگم پہلے سے موجود تھیں لیکن وہ فراخ دل خاتون تھیں، لیکن لتا اور آشا نے اپنے عروج کے دور میں سب سے پہلے شمشاد بیگم کا کیریئر تباہ کیا اور موسیقاروں سے کہہ کر انھیں گوشہ گمنامی میں دھکیل دیا لیکن شمشاد خوش قسمت تھیں کہ انھوں نے اپنے دور میں کبھی پیچھے مڑکر نہ دیکھا جب لتا اور آشا کی وجہ سے انھیں فلمیں ملنا کم ہوگئیں تو وہ افسردہ ہو کر گمنامی میں چلی گئیں۔ اسی طرح پاکستانی گلوکارہ رونا لیلیٰ کا مستقبل بھی لتا نے تاریک کیا۔ خیر بات کہیں اور نکل گئی۔ بات ہو رہی تھی نوشاد صاحب کی۔ انھوں نے اوما سے کہا کہ ’’ تم نے وزن بے تحاشا بڑھا لیا ہے، اس سے بھی گائیکی پہ اثر پڑتا ہے۔ تم ایکٹنگ کیوں نہیں کرتیں، تمہیں پردے پر دیکھتے ہی لوگوں کی ہنسی نکل جائے گی۔ بس فی میل کامیڈین بن جاؤ۔‘‘ نوشاد صاحب کی بات سن کر اوما بولی ’’میں فلم میں کام کروں گی، لیکن دلیپ صاحب کے ساتھ۔‘‘

نوشاد صاحب ہنس پڑے، پھر انھوں نے اپنی ہوم پروڈکشن میں بننے والی فلم ’’بابل‘‘ میں انھیں چانس دیا۔ دلیپ صاحب نے جوں ہی اوما کو دیکھا تو بولے ’’اس لڑکی کا نام ’’ٹُن ٹُن‘‘ ہونا چاہیے۔ بس پھرکیا تھا، اوما دیوی کھتری بن گئی ’’ٹُن ٹُن‘‘ اور اس کا اصل نام سبھی بھول گئے۔

ٹُن ٹُن نے لگ بھگ دو سو فلموں میں کام کیا، فلم ساز اس کے لیے خاص طور پر سین لکھوایا کرتے تھے۔ ٹُن ٹُن نے اس دور کے سبھی کامیڈین کے ساتھ کام کیا، جیسے بھگوان دادا، کیشتو مکرجی، جانی واکر وغیرہ۔ بیشتر فلموں میں وہ دلیپ کمار کے ساتھ نظر آئیں۔ ان کی مشہور فلموں میں سے چند ایک یہ ہیں۔ بابل، انداز، راج پٹ، دل اپنا اور پریت پرائی، مسٹر اینڈ مسز 55، عقل مند، نیا انداز، دل اور محبت، کبھی اندھیرا،کبھی اجالا، ایک پھول چارکانٹے، ایک بار مسکرا دو، کشمیرکی کلی، اُجالا، 120 Clock، جعلی نوٹ، کوہِ نور، نمک حلال، اُڑن کھٹولا، ترانہ، باز، آر پار، قربانی، مس کوکا کولا، آرتی، جیون۔

 1970 کے بعد انھوں نے فلمی دنیا سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔ قربانی اور نمک حلال کے بعد وہ 1990 کی فلم ’’ قسم دھندے کی‘‘ میں نظر آئیں۔

چوبیس نومبر 2003 میں اوما دیوی عرف ٹُن ٹُن نے اس دنیا کو الوداع کہا۔ وہ جب تک زندہ رہیں ہنستی مسکراتی رہیں، فلموں میں وہ سچویشن سے مزاح پیدا کردیتی تھیں۔ ایک فلم میں انھیں ریل کے ڈبے میں چڑھتے دکھایا جاتا ہے۔ پہلی کوشش میں وہ ریل میں چڑھنے میں ناکام ہوجاتی ہیں، بمشکل اوپر چڑھ پاتی ہیں تو کھڑے ہو کر کہتی ہیں کہ ’’یہ ریلوے والے کرایہ تو پورا لیتے ہیں لیکن دروازہ آدھا رکھتے ہیں۔‘‘ اس سچویشن اور ڈائیلاگ پر فلم بینوں کی بے اختیار ہنسی نکل جاتی ہے۔

ایک اورگلوکارہ اور اداکارہ سے آپ کا تعارف کرواتے ہیں جن کا کیریئر انڈیا میں 1930 سے 1940 تک پھیلا ہوا ہے۔ 1948 میں وہ پاکستان آگئیں، لیکن جو پذیرائی انھیں متحدہ ہندوستان میں ملی وہ پاکستان میں نہ مل سکی۔ ان کا نام ہے خورشید بانو، لیکن عام طور پر وہ ’’خورشید‘‘ کے نام سے جانی جاتی ہیں۔ یہ مینا کماری کی بڑی سوتیلی بہن تھیں۔ اللہ بخش صاحب اس لحاظ سے بڑے خوش قسمت تھے کہ اللہ نے انھیں بڑی خوبصورت بیٹیاں عطا کی تھیں۔ اللہ بخش نے دو شادیاں کی تھیں۔ پہلی بیوی سے خورشید اور مدھو تھیں، اور دوسری بیوی سے مینا کماری جن کا اصل نام مہ جبیں تھا۔ مدھو نے بھی فلم ’’پاکیزہ‘‘ میں میناکماری کی بڑی بہن کا رول کیا ہے۔

خورشید بہت جاذب نظر اور خوبصورت تھیں، غیر منقسم ہندوستان میں انھوں نے بے شمار فلموں میں کام کیا۔ فلم ’’تان سین‘‘ ان کی بہت مشہور فلم ہے جس میں وہ سہگل کے ساتھ جلوہ گر ہوئی ہیں اور ’’تانی‘‘ کا لازوال کردار ادا کیا ہے۔ ان کی پہلی فلم ’’لیلیٰ مجنوں‘‘ تھی جو 1931 میں بنی تھی۔ انھوں نے 1930 سے 1947 تک 30 سے زیادہ فلموں میں کام کیا۔ خورشید پاکستان کے شہر قصور میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کا اصل نام ارشاد بیگم تھا، لیکن فلموں میں آنے کے بعد ان کا نام خورشید ہوگیا۔ ان کا بچپن بھاٹی دروازے کے پاس لاہور میں گزرا۔ ان کی معروف فلموں میں تان سین، مفلس عاشق، نقلی ڈاکٹر، مرزا صاحباں، پردیسی، بیٹی، آگے بڑھو، سپہ سالار، ممتاز محل، کیمیاگر، ایمان فروش، مدھر ملن اور ’’ستارہ‘‘ تھیں۔ انھیں صحیح معنوں میں عروج ملا ’’تان سین‘‘ اور ’’بھگت سورداس‘‘ سے جن میں وہ سہگل اور موتی لال کے ساتھ جلوہ گر ہوئیں۔ اسی لیے انھیں ’’ پہلی گلوکار ستاروں کی جوڑی‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ بھارت میں 1948 میں ان کی فلم ’’پپیہارے‘‘ زبردست ہٹ فلم تھی، یہ بھارت میں ان کی آخری فلم تھی۔ پاکستان آ کر وہ کراچی میں مقیم ہوگئیں، لیکن یہاں انھیں صرف دو فلمیں ملیں ’’منڈی‘‘ اور ’’فنکار‘‘۔ منڈی خورشید کی آواز اور رفیق غزنوی کی موسیقی کی وجہ سے کامیاب رہی۔ پاکستان میں انھیں وہ عزت نہ ملی جس کی وہ مستحق تھیں۔ وہ بھی ان فنکاروں میں شامل تھیں جو پاکستان آ کر خوار ہوئے اور انھیں نظرانداز کر دیا گیا۔ وہ 18 اپریل 2001 کو کراچی میں انتقال کر گئیں۔ ان کا یہ گیت بہت مشہور ہے۔

پنچھی باورا چاند سے پریت لگائے

ان کی فلمیں ’’شہنشاہ بابر‘‘ اور ’’ممتاز محل‘‘ بہت مشہور ہوئیں۔

انھوں نے اپنے منیجر لالہ یعقوب سے شادی کی لیکن یہ شادی زیادہ دن چل نہ پائی۔ پھر انھوں نے پاکستان میں بزنس مین محمد یوسف سے شادی کی اور دو فلموں کی ناکامی کے بعد انھوں نے فلموں سے تیاگ لے لیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔