پاکستان کیلیے کون سا امریکی صدر بہتر ہوگا، کملا ہیرس یا ڈونلڈ ٹرمپ؛ ایک تقابل
رواں ماہ کی 5 تاریخ کو امریکا میں ہونے والے صدارتی الیکشن میں دو مضبوط امیدوار آمنے سامنے ہیں۔ حکمراں جماعت ڈیموکریٹ نے موجودہ نائب صدر کملا ہیرس کو میدان میں اتارا ہے جب کہ اپوزیشن جماعت ریپبلکن نے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا انتخاب کیا۔
یوں تو دونوں ہی امیدوار بہت معروف اور کسی تعارف کے محتاج نہیں تاہم ان سیاسی زندگیوں کے کچھ گمشدہ ابواب سے پردہ اُٹھانے کے لیے مختصر اپنے قارئین کو پیش کر رہے ہیں۔
حکمراں جماعت ڈیموکریٹ کی صدارتی امیدوار کملاہیرس
کملا ہیرس 20 اکتوبر 1964 کو ریاست کیلی فورنیا کے اوکلینڈ میں تارکینِ وطن والدین کے ہاں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد ڈونلڈ جے ہیرس جمیکن اکنامکس کے ڈاکٹریٹ کے طالب علم تھے اور ان کی والدہ شیاملا گوپالن، غذائیت اور اینڈو کرائنولوجی پڑھنے کے لیے بھارت سے آئی تھیں۔
ایک متنوع کمیونٹی میں پرورش پانے والی، کملا ہیرس نے شہری حقوق کی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ وہ اکثر بچپن میں ریلیوں اور مارچوں میں شرکت کرتی تھیں۔
کملا ہیرس نے 1986 میں ہاورڈ یونیورسٹی سے گریجویشن کیا اور 1989 میں یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کالج آف لاء، سان فرانسسکو سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔
ان کی سیاسی زندگی ہنگامہ خیز اور جدوجہد سے بھرپور رہی ہے۔ تارکین وطن کی بیٹی ہونے کی وجہ سے کملا ہیرس ان مصائب کو بخوبی جانتی ہیں جن سے کوئی اور رہنما شاید ہی واقف ہو۔
کملاہیرس نے اپنی شخصیت اور طرز سیاست سے خواتین میں بھی کافی مقبولیت حاصل کی ہے۔ وہ اس وقت ملک کی نائب صدر کی ذمہ داریاں میں نبھا رہی ہیں۔
جوبائیڈن کی بھولنے کی عادت، صحت کے مسائل اور بڑھتی عمر کے باعث جب ڈیموکریٹ پارٹی نے ان کی جگہ کسی اور امیدوار کو سامنے لانے کا فیصلہ کیا تو کملا ہیرس متفقہ امیدوار کے طور پر سامنے آئیں۔
کملا ہیرس کی شخصیت اور قائدانہ صلاحیتوں کی وجہ سے ڈیموکریٹ کو ڈونلڈ ٹرمپ کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک بہترین اور متفقہ امیدوار میسر آئیں۔
ٹرمپ کے مقابلے میں چین کے بارے میں کملا ہیرس کا نقطۂ نظر کم جارحانہ سمجھا جاتا ہے جو پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی اور پاک چین اقتصادی راہداری پر بغیر کسی دباؤ کے تعاون جار رکھنے میں معاون ثابت ہوگا۔
کملا ہیرس صدر بننے کی صورت میں پاکستان سے متعلق ممکنہ طور پر جوبائیڈن کی پالسیوں کو جاری رکھیں گی جو بہت حد تک موافق بھی ہے۔
اپوزیشن جماعت ریپبلکن کے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ
ڈونلڈ جان ٹرمپ 14 جون 1946 کو نیو یارک سٹی میں پیدا ہوئے وہ ایک ریئل اسٹیٹ ڈویلپرز خاندان کے پانچ بچوں میں سے چوتھے نمبر پر تھے۔
ٹرمپ نے 1968 میں پنسلوانیا یونیورسٹی کے وارٹن سکول آف فنانس سے گریجویشن کیا اور رئیل اسٹیٹ کے کاروبار میں اپنے والد کا ہاتھ بٹانے لگے اور ایک کامیاب بزنس مین بنے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے لگژری ہوٹلوں اور کیسینو میں سرمایہ کاری کی اور ریئلٹی ٹیلی ویژن شو "دی اپرنٹس" کے ذریعے قومی شہرت حاصل کی، جس نے ان کو ایک برانڈ کے طور پر نمایاں کیا۔
متنازع شخصیت کے حامل ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے لیکن جارحانہ مزاج کے حامل ہونے کے باعث ان کے مخالفین کی تعداد بھی کم نہیں۔
پورن اسٹار کے ساتھ جنسی تعلقات سے اور منہ بند رکھنے کے لیے رقم کی ادائیگیوں سے ڈونلڈ ٹرمپ کی ساکھ کو کافی نقصان پہنچا اور وہ متنازع بن گئے۔
ٹرمپ کے مالیاتی اسکینڈل بھی سامنے آتے رہے اور صدارتی الیکشن میں دھاندلی کے لیے مختلف حربوں کے استعمال کا الزام بھی لگتا رہا لیکن ان کے حامی اب بھی ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔
گزشتہ صدارتی الیکشن میں جوبائیڈن سے شکست کو ٹرمپ نے تسلیم نہیں کیا تھا اور جنوری 2022 میں ایک اشتعال انگیز تقریر کی جس پر ان کے حامی مشتعل ہوگئے اور کیپیٹل ہل پر دھاوا بول دیا۔
امریکی جمہوری تاریخ میں شاید یہ پہلا موقع تھا جب کسی جماعت کے کارکنان نے کیپیٹل ہل کو پر حملہ کیا ہو اور ارکان اسمبلی کو محصور ہونا پڑا ہو۔ اس حملے میں پولیس کے ساتھ جھڑپ اور جلاؤ گھیراؤ میں ہلاکتیں بھی ہوئی تھیں۔
اس واقعے نے ٹرمپ کو مزید متنازع بنادیا تھا اور ان کے مواخذے تک کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ ٹرمپ پہلے صدر ہوں گے جنھیں سزا بھی سنائی گئی تاہم مواخذے سے تاحال محفوظ ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے دورِ حکومت کو دیکھتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ بھارت کی جانب زیادہ جھکاؤ اور پاکستان کے ساتھ مصروفیت میں کمی سے پتہ چلتا ہے کہ ٹرمپ کی دوسری مدت پاکستان کے ساتھ امریکا کے تعلقات کو مزید کمزور کرسکتی ہے۔
اسی طرح چین کے بارے میں ڈونلڈ ٹرمپ کافی سخت مؤقف رکھتے ہیں اور پہلے دور حکومت میں چین کے ساتھ اقتصادی جنگ بھی چھیڑ چکے ہیں۔
جس سے لگتا ہے کہ ٹرمپ کے صدر بننے سے پاک چین اقتصادی راہداری (CPEC) کی تکمیل میں پاکستان کو مشکلات یا کسی حد تک پابندی کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
تحریک انصاف کے رہنما لطیف کھوسہ نے دعویٰ کیا ہے کہ ٹرمپ کے صدر بننے کی صورت میں عمران خان کی جیل سے رہائی ممکن ہے اور پاکستان میں عمران خان سے متعلق منظر نامہ تبدیل ہوسکتا ہے۔