قطر کی سرمایہ کاری، نئے زاویے

قطرسے اسلامی اخوت کے رشتے کے علاوہ پاکستان کے ہمیشہ بہترین تعلقات رہے ہیں۔

وزیراعظم شہباز شریف کی دوحہ میں قطری ہم منصب شیخ محمد بن عبدالرحمان الثانی سے ملاقات ہوئی۔ دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کے عزم کا اعادہ کیا گیا۔ دوسری جانب وزیر اعظم شہباز شریف نے قطری تاجروں کو پاکستان میں توانائی اور انفرا اسٹرکچر اور دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری کی دعوت دی۔ قطری وفد نے پاکستان کے اقتصادی منظر نامے اور منصوبوں میں دلچسپی کا اظہار کیا اور روزگار کی تخلیق، اختراعات اور پائیدار ترقی میں مددگار ممکنہ تعاون کا جائزہ لیا گیا۔

 وزیراعظم شہباز شریف کی موجودہ حالات میں امیر قطر سے ملاقات میں دوطرفہ باہمی مفاد کے وسیع تر امور اور دونوں ممالک کے درمیان معیشت و سرمایہ کاری سمیت دیگر شعبوں میں پہلے سے استوار بہترین دوطرفہ تعاون کو مزید مضبوط بنانے اور دوطرفہ سرمایہ کاری، تجارت اور پاکستان سے ہنرمند افراد کی قطر برآمد کے طریقوں اور ذرایع بڑھانے پر بات چیت بلاشبہ پاکستانی معیشت کے حوالے سے ایک اہم پیش رفت ہے۔

پاکستان جس شدید معاشی بحران کا شکار ہے وہ اس امر کا متقاضی ہے کہ اپنے دوست ممالک سے تجارتی و اقتصادی تعلقات کو زیادہ سے زیادہ فروغ دیا جائے۔ قطرسے اسلامی اخوت کے رشتے کے علاوہ پاکستان کے ہمیشہ بہترین تعلقات رہے ہیں۔ پاکستان موخر ادائیگی پر ایل این جی بھی لیتا رہا ہے اور عالمی معاملات پر بھی دونوں ممالک یکساں موقف کے حامل ہیں۔ پاکستان کو قطر جیسے دوست ممالک سے تمام شعبہ ہائے زندگی بالخصوص تجارتی و اقتصادی شعبوں میں مراسم بڑھانے پر بھر پور توجہ دینی چاہیے۔

سعودی عرب کے بعد وزیراعظم کے دورہ قطر سے بھی توانائی سمیت متعدد شعبوں میں سرمایہ کاری اور آیندہ نجکاری کے عمل میں شرکت کے حوالے سے اہم پیشرفت سامنے آئی ہے، جب کہ قطر میں پاکستانی کارکنوں کے لیے ملازمتوں کے زیادہ مواقع پیدا کرنے اور قطری سرمایہ کاروں سے ملاقاتوں کے بھی مثبت نتائج کی توقع مستقبل قریب میں کی جاسکتی ہے۔

اس وقت پاکستان میں بجلی کی کھپت میں کمی واقع ہونے سے توانائی کی پیداوار میں ایل این جی کے استعمال میں کمی آئی ہے۔ سوئی ناردرن پہلے ہی مایع گیس کی درآمدات میں کمی کی درخواست کر چکی ہے، لہٰذا اس دورے میں یہ معاملہ طے پانے کا امکان ہے۔ قطری سرمایہ کاروں کے ساتھ مزید شعبوں میں اقتصادی تعلقات استوار ہونے کی توقع ہے۔ الغرض یہ صورتحال حوصلہ افزا پیشرفت کو ظاہر کرتی ہے، تاہم اس حوالے سے داخلی سطح پر بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔

قطر کی خود اعتمادی میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے وہ اور زیادہ طاقتور ریاست بن کر ابھرا ہے۔ خوراک، ادویات کی فراہمی کے لیے نئے اور متبادل وسائل اور اسباب ڈھونڈے گئے۔ قطر نے اس عرصے میں اقتصادی تعاون کے لیے نئے معاہدے کیے تاکہ اپنی معیشت کو جدید تقاضوں کے ہم پلہ بناکر پروان چڑھائے، تیل پر انحصار کم کرنے کی طرف پیش رفت کی۔ گزشتہ اکتوبر میں آئی ایم ایف نے اعتراف کیا کہ قطر خلیج میں سب سے تیزی سے ترقی کرنے والی معیشت بن گیا ہے۔

روس اور ایران کے بعد عملی طور پر قطر کے پاس دنیا کا سب سے بڑا گیس کا ذخیرہ ہے اور ظاہر ہے یہ دونوں ممالک آبادی اور رقبے کے لحاظ سے قطر سے بہت بڑے ہیں۔ نارتھ فیلڈ تقریباً چھ ہزار کلومیٹر کے رقبے پر محیط ہے، جو پورے قطر کے نصف کے برابر ہے۔ قطر گیس وہ کمپنی ہے جو دنیا میں سب سے زیادہ مایع قدرتی گیس پیدا کرتی ہے۔ اس صنعت کی ترقی کو قطری اقتصادی ترقی میں ایک اہم عنصر سمجھا جاتا ہے۔قطر کو 2024 کی عالمی امن اشاریہ میں میں خطے کا دوسرا سب سے زیادہ امن پسند ملک اور دنیا میں 29 ویں درجہ دیا گیا ہے۔

فٹ بال ورلڈ کپ 2022کی میزبانی کے باعث مشرقِ وسطیٰ کی چھوٹی سی لیکن معدنی تیل اور گیس کے ذخائر سے مالامال ریاست ’ قطر‘ پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بن گئی تھی، کم لوگ جانتے ہیں کہ 30لاکھ نفوس آبادی پر مشتمل مشرقِ وسطیٰ کا یہ چھوٹا سا ملک صرف ایک صدی قبل یعنی 1922میں عملی طور پر ایک غیر آباد سرزمین تھی؟ بہت سے لوگوں کے لیے یہ حیرانی کی بات ہوگی لیکن حقائق یہی ہیں۔

12ہزار کلومیٹر سے بھی کم رقبے پر مشتمل یہ چھوٹی خلیجی ریاست ماہی گیروں اور موتی جمع کرنے والوں کی ایک بستی تھی، جہاں کے باشندوں کی اکثریت جزیرہ نما عرب کے وسیع صحراؤں سے آنے والے خانہ بدوش مسافروں پر مشتمل تھی۔ مزید ستم ظریفی یہ ہوئی کہ 1930 اور 1940 کے عشرے میں جاپانیوں نے موتیوں کی فارمنگ ایجاد کرکے اور بڑے پیمانے پر اس کی پیداوار یقینی بنا کر قطر کی رہی سہی معیشت کو تباہ کر دیا۔

اس دہائی میں قطر اپنے 30 فیصد باشندوں سے محروم ہوگیا جو بیرونِ ملک معاشی مواقع تلاش کرنے چلے گئے تھے۔ دس سال بعد1950 میں اقوامِ متحدہ کے مطابق یہاں 24 ہزار سے بھی کم باشندے رہ گئے تھے۔ 1950 کے قطر اور آج کے قطر کا موازنہ کیا جائے تو عقل دنگ رہ جاتی ہے، کیوں کہ ایسا صرف کسی معجزے کی صورت میں ہی ممکن ہے۔ قطر کی تبدیلی ایک معجزے کا ہی نتیجہ ہے کیوں کہ اسی دوران وہاں تیل کے ذخائر دریافت ہوئے جن میں سے ایک کا شمار دنیا میں تیل کے سب سے بڑے ذخائر میں ہوتا ہے۔

اس کے بعد قطری خزانہ تیزی سے بھرنا شروع ہوا اور یہ اس کے باشندوں کے لیے دنیا کے چند امیر ترین شہریوں میں شامل ہونے کا نقطہ آغاز بھی ثابت ہوا۔قطر میں جس وقت خام تیل کے ذخائر دریافت ہوئے تھے، اس وقت تک وہ ایک قوم کے طور پر وجود نہیں رکھتا تھا اور یہ انگریزوں کے زیرِ انتظام تھا۔ قطر میں تیل کے اولین ذخائر 1939 میں ملک کے مغربی ساحل پر اور دوحہ سے تقریباً 80 کلومیٹر دور دخان میں دریافت ہوئے۔

تاہم اس تلاش سے فائدہ اُٹھانے میں مزید چند سال لگے۔ یہ دریافت دوسری عالمی جنگ کے آغاز میں ہوئی، جس کی وجہ سے 1949 تک تیل کی برآمد تعطل کا شکار رہی اور فوری طور پر اس دریافت سے فائدہ نہیں اٹھایا جاسکا۔ تیل کی بڑھتی ہوئی صنعت کی کشش نے تارکین وطن اور سرمایہ کاروں کو قطر کی طرف متوجہ کیا اور یوں اس کی آبادی میں اضافہ ہونے لگا۔ اس کے نتیجے میں 1950 میں 25ہزار سے کم آبادی کے مقابلے میں 1970 تک یہ آبادی بڑھ کر ایک لاکھ سے تجاوز کر گئی۔21ویں صدی کی آمد کے ساتھ ہی قطری اقتصادی ترقی میں تیزی دیکھنے کو ملی۔ صرف 2003 اور 2004کے درمیان جی ڈی پی تین اعشاریہ سات فیصد کی شرح سے بڑھ کر 19.2 فیصد پر چلی گئی۔

2006 میں معیشت میں 26.2 فیصد اضافہ ہوا۔ ماہرین کے مطابق، اس کے بڑے ذخائر کی مجموعی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے انھیں نکالنے، مایع میں تبدیل کرنے اور ڈسٹری بیوشن انفرااسٹرکچر سرمایہ کاری میں کئی گنا اضافہ ہوا اور اس کے باعث برآمدات میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔یہ1996کی بات ہے جب قدرتی گیس سے بھرا ایک کارگو قطر سے جاپان کے لیے روانہ ہوا۔ یہ قطری گیس کی پہلی بڑی برآمد اور اربوں ڈالر کی صنعت کا آغاز تھا جس نے قطریوں کو عالمی دولت کے عروج پر پہنچا دیا۔ 2021میں قطر میں فی کس جی ڈی پی 61ہزار276 ڈالر تھی۔ اگر ہم قوت خرید کو بھی مدنظر رکھیں تو عالمی بینک کے مطابق یہ 93 ہزار 521 امریکی ڈالر تک پہنچ جاتی ہے جو کہ دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔

اس کی آبادی کی کم تعداد اس حوالے سے بہت زیادہ فرق ڈالتی ہے۔ اس وقت ملک میں قطریوں کی تعداد صرف تین سے ساڑھے تین لاکھ کے لگ بھگ ہے جو ملک کی کل تیس لاکھ آبادی کا صرف 10 فیصد ہے۔ ان افراد میں زیادہ تعداد غیر ملکیوں کی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ آبادی جنھیں ریاست کے یہ عظیم فوائد ملنے ہیں، وہ بہت کم ہے۔ یہی وجہ تھی کہ فی کس جی ڈی پی اتنی تیزی سے بڑھنے لگی۔ قطری ریاست، اعلیٰ اجرتوں کی ضمانت دینے کے علاوہ، مضبوط تعلیمی اور صحت کا نظام بھی فراہم کرتی ہے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ، قطر ابھی تک گیس یا تیل کی برآمدات پر منحصر معیشت میں جدت نہیں لاپایا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ نجی شعبے کو بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے اور ہائیڈرو کاربن پر اپنا انحصار کم کرنے کے لیے دنیا بھر میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ اس کوشش کی ایک اچھی مثال قطر انویسٹمنٹ اتھارٹی کی لندن یا نیویارک جیسے شہروں میں متعدد مشہور جائیدادوں میں موجودگی ہے۔ قطر کی جانب سے فٹ بال ورلڈکپ میں دو لاکھ ملین امریکی ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری اس کی معیشت کی وسعت کی عکاسی کرتی ہے۔ یہ تاریخ کا سب سے مہنگا ورلڈ کپ ہے، جس میں آٹھ اسٹیڈیم، ایک نیا ہوائی اڈہ اور ایک نئی میٹرو لائن بنائی گئی۔

حکومت غیر ملکی سرمایہ کاروں کو ملک میں سرمایہ کاری پر آمادہ کر رہی ہے مگر سرمایہ کاری کے ہر منصوبے کی نوعیت منفرد ہے اور اسے عملی صورت دینے کے لوازم بھی جدا ہیں، تاہم جو چیز سبھی معاملات میں یکساں موثر ہے وہ سرمایہ کاری کے لیے مناسب ماحول، درپیش رکاوٹوں کا خاتمہ اور عزم اور خلوص کے ساتھ کام کرنے کا جذبہ ہے۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ ملک میں سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے محض سرمایہ کاروں کو ہی راغب نہ کیا جائے بلکہ متعلقہ منصوبوں کو عملی شکل دینے میں بھی بھرپور عزم کے ساتھ کام کیا جائے۔ پاکستان اور قطر ایک دوسرے کے مسائل میں بہت اہم شراکت دار بن سکتے ہیں۔ ان کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے۔ ایک دوسرے کا مضبوطی سے ہاتھ تھامنے سے اسلامی دنیا کے مفادات کا بھی تحفظ ہوسکتا ہے اور پاکستان اور قطر اپنے اپنے مفادات کو بھی بہتر انداز سے انجام دے سکتے ہیں۔

Load Next Story