با کمال لوگ ناہموار پرواز
ہم بھی عجیب لوگ ہیں۔ ایک ہیلمٹ ہاتھ آنے پر موٹر سائیکل خریدنے کی مبارکبادیں وصول کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ رشتہ طے نہیں ہوتا لیکن آتش بازی کی تفصیلات پہلے طے کر لیتے ہیں۔ یہی تماشہ ملکی سطح پر مختلف انداز میں بہت باقاعدگی سے کھیلا جاتا ہے۔
تازہ ترین تماشہ پی آئی اے کی نجکاری کا ہے۔ حکومت نے اقتدار سنبھالا تو آئی ایم ایف قرض کے راستے میں اک اگ کا دریا تھا جسے شرائط کے ساتھ ڈوب کر پارجانا لازم تھا۔ان میں ایک شرط نقصان زدہ سرکاری کارپوریشنز کی نجکاری بھی تھی۔ اس سلسلے میں پہلی نج کاری کے طور پر پی آئی اے سے آغاز کیا گیا لیکن پیچیدہ عمل اور بھرپور کوریج میں رہنے والی اس نج کاری کے ہاتھ آخر میں صرف ایک بولی آئی۔
وہ بھی 85 ارب روپے کی ریزرو قیمت کے مقابلے میں ایک رئیل اسٹیٹ کمپنی نے فقط دس ارب روپے کی حامی بھری۔ کہاگیا کہ جناب بولی بڑھائیے۔ جواب ملا کہ اس سے اگے صرف نیک خواہشات ہی ہیں۔
پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کے چھ شارٹ لسٹڈ خریداروں میں سے پانچ نے چپ سادھے رکھی۔عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز نے ان میں سے تین سے چپ سادھ کر الگ ہونے کی وجہ پوچھی تو رازداری کی شرط پر جواب ملا۔ انھیں پی آئی اے کے لیے کیے گئے طویل مدت معاہدوں پر عمل درآمد کرنے کی حکومتی صلاحیت کے حوالے سے خدشات ہیں۔
پالیسی کے تسلسل کے حوالے سے بھی تشویش ہے، ان کے بقول موجودہ حکومت کی بقا مختلف سیاسی جماعتوں کے اتحاد اور ان کی حمایت پر منحصر ہے۔ اگلی حکومت سے ان معاہدوں کی پاسداری کے بارے میں انھیں خدشات ہیں۔ یہ ہے انجام اس شاندار ادارے کا جس کا 60 کی دہائی میں ایک عالم میں نام گونجتا تھا، "باکمال لوگ لاجواب پرواز" جس کا سلوگن تھا۔پی آئی اے کے عروج و زوال کی کہانی میں کئی سبق پنہاں ہیں، کمرشل ادارے جب تک کمرشل بنیادوں اور مسابقتی انداز میں چلائے جائیں، نئے ٹرینڈ اور ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ رہیں، وہ ترقی کا سفر طے کرتے رہتے ہیں۔
تاہم جب اداروں میں سیاسی مداخلت، کرپشن ،بدعنوانی اور لوٹ کھسوٹ کا چلن عام ہو جائے تو ادارے زمین بوس ہوتے دیر نہیں لگتی۔ اس پر مستزاد جب کبھی جس حکومت نے پی آئی اے کی حالت کو بدلنے کی کوشش کی ، اسے سیاسی مخالفت کے تیروں کی بوچھاڑ کے سامنے پسپا ہونا پڑا۔ نتیجہ سامنے ہے، صرف پی آئی اے پر قرضوں کا بوجھ ساڑھے چار سو ارب روپے سے زائد ہے۔ یہی عالم پاکستان اسٹیل ملز کا بھی ہے جس پر اربوں روپے کا قرض ہے، آپریشنز مدت سے بند ہیں لیکن ملازمین کی تنخواہیں لشٹم پشٹم خزانے سے ادا کی جا رہی ہیں۔ ریلوے سمیت اور بہت سے سرکاری اداروں کا بھی یہی عالم ہے۔
کہاں تک سنو گے کہاں تک سنائیں۔ایک طرف یہ عالم ہے اور دوسری طرف حکمران ملکوں ملکوں دورے کر رہے ہیں۔ حکومتوں اور نجی سرمایہ کاروں کو دعوت عام دے رہے ہیں کہ پاکستان سرمایہ کاری کے لیے جنت ہے، حکومت ہر طرح کی سہولت فراہم کرنے کو تیار ہے، ایم او یوز پر ایم او یوز کیے جا رہے ہیں لیکن نتیجہ ڈھاک کے تین پات نہ سہی لیکن اس سے بہتر بھی نہیں۔
حکومت سنبھالنے کے بعد وزیراعظم نے کم از کم تین مرتبہ چین، سعودی عرب ، قطر اور عرب امارات سے سرمایہ کاری کے حصول کے لیے دورے کیے، سیمینار منعقد کیے گئے، کانفرنسز برپا کی گئیں، روڈ شوز کیے گئے، تالیوں کی گونج میں درجنوں ایم او یوز کیے گئے لیکن سرمایہ کاری کے اربوں ڈالرز کے اعلانات کی صورت انگریزی محاورے کے مصداق چاروں طرف پانی کی یلغار ہے مگر پینے کو ایک گھونٹ بھی میسر نہیں۔ یعنی
water water everywhere, nor any drop to drink
پی آئی اے کی نج کاری کے عمل سے معروف ملکی سرمایہ کاروں کی علیحدگی اس امر کی غماض ہے کہ کہیں نہ کہیں "سرمایہ کاری کے جنت ملک " کے نظام میں کچھ نہ کچھ ایسا ضرور ہے جو باکمال لوگوں کو ناہموار پرواز کے سبب شامل پرواز ہونے سے روکے ہوئے ہے۔ ملکی معاشی نظام میں مقامی صنعتی و زرعی پیداوار اور برآمدات کو از سر نو بنیادی اہمیت دیے اور مقامی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کیے بغیر بیرونی سرمایہ کاری کا خواب شاید ہی شرمندہ تعبیر ہو سکے گا۔