ورلڈ جسٹس پروجیکٹ ایک آزاد تحقیقاتی ادارہ ہے جو قانون کی حکمرانی کے زاویے سے پوری دنیا کے مختلف ممالک کو حد درجہ احتیاط سے پرکھتا ہے اور ان کی داخلی صورتحال پر رپورٹ شایع کرتا ہے۔ William H Neukom نے 2006 میں یہ پروجیکٹ امریکی بار ایسوسی یشن کے توسط سے شروع کیا اور جلد ہی اس پروجیکٹ میں اکیس مزید اہم ادارے شامل ہو گئے۔ اس کے دفاتر واشنگٹن‘ سنگا پور اور میکسیکو میں موجود ہیں ۔ دوبارہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اس ادارے میں دنیا کے ممتاز ترین لوگ شامل ہیں۔ پینتیس سو ماہرین نے یہ سروے مکمل کیا ہے ۔
وضاحت یہ بھی کرنی ہے کہ اس میں سابقہ امریکی صدر سے لے کر ممتاز ماہرین قانون اور ہر شعبے کے ایسے مستند لوگ موجود ہیں جن کی رائے کا احترام کیا جاتا ہے۔ پروجیکٹ نے 2024 میں چند ہفتے پہلے پاکستان اور پوری دنیا کے142 مختلف ممالک کے متعلق جو رپورٹ شایع کی ہے وہ ہمارے حوالے سے پڑھنے کے قابل ہے ۔ اس سے پہلے کہ جزئیات کی طرف آپ کی توجہ دلاؤں صرف یہ عرض کروں گا کہ ہمارے ملک کے متعلق یہ رپورٹ صرف اور صرف ایک مرثیہ ہے۔ ہمارے بلند قامت نظر آنے والے وزراء اعظم اور وزراء اعلیٰ کی مجموعی کارکردگی جو کہ پاکستانی میڈیا کے حساب سے حد درجہ بہترین ہے۔
اس کی اصل تصویر اس ادارے نے سب کے سامنے پیش کر دی ہے۔ کوئی بھی سنجیدہ آدمی اس رپورٹ کو پڑھنے کے بعد تشویش میں مبتلا ہو جائے گا ۔ مگر آفرین ہے ہمارے حکمرانوں پر جنھوں نے اس رپورٹ کا تذکرہ تک کرنا پسند نہیں کیا۔ گزارش ہے کہ پاکستان اس وقت ناصرف معاشی طور پر دیوالیہ ہو چکا ہے بلکہ سماجی انصاف ‘ عام آدمی کی زندگی ‘ روزگار‘ انسانی تحفظ اور دیگر اہم عناصر کے حوالے سے اس پاتال میں گر چکا ہے جس سے نکلنا ناممکن نظر آ رہا ہے ۔
پاکستان کے متعلق رپورٹ میں آٹھ اہم ترین عناصر کا جائزہ لیا گیا ہے اور ان کے حساب سے دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے پر اس کی رینکنگ کی گئی ہے۔ پہلا عنصر حکومتی طاقت پر جائز قدغن کا ہے۔ اس کے مطابق حکومتی اور ریاستی عمال کی طاقت اور اختیارات پر آئینی اور ادارہ جاتی ‘ کون کون سے کنٹرول ہیں جو ان کو ہر زاویے سے قانون کے دائرے میں مقید کرتے ہیں۔ گزشتہ ایک سال میں ریاستی اور حکومتی طاقت کا بے دریغ اتنا استعمال کیا گیا ہے کہ ہمارا ملک 142ممالک کے اندر 103ویں نمبر پر کھڑا ہے۔ پچھلے سال سے صرف اس فیکٹر میں آٹھ نمبروں کا زوال آیا ہے۔ دوسرا عنصر کرپشن کے متعلق ہے۔
کرپشن میں تین جزو رکھے گئے ہیں ۔ مالی رشوت ‘ سرکاری اور پرائیوٹ ملازمین کا ناجائز رویہ اور حکومتی فنڈز میں خورد برد شامل ہے ۔ تینوں اجزا ء میں انتظامیہ ‘ عدلیہ ‘ پولیس اور سیاسی لوگ شامل ہیں۔ 142ملکوں میں پاکستان کا نمبر 120واں ہے ۔ حکومتی شفافیت جسے Open Government کا نام دیا گیا ہے۔ اس کے مطابق یہ دیکھا گیا ہے کہ حکومت اپنے معاملات کو کتنے بہتر طریقے سے لوگوں کے سامنے پیش کرتی ہے اور جو معلومات حکومت فراہم کرتی ہے اس میں کتنی صداقت اور سچ موجود ہوتا ہے ۔
اس تیسرے عنصر میں پاکستان ایک 106ویں نمبر پر ہے اور اس کی رینکنگ پچھلے سال کے مقابلے پر مزید تنزلی کا شکار ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ ہمارے حکومتی اور ریاستی اداروں کے اندر وہ رجحان موجود ہی نہیں ہے جس سے وہ عوام الناس کو اپنی کارکردگی بتا سکیں ۔ یہ گھپ اندھیرا پورے پاکستان کو تاریک کر چکا ہے اور صرف چند محلوں میں روشنی باقی ہے۔ وہ کن لوگوںکے قلعے ہیں‘ آپ کو اس کے متعلق بخوبی علم ہے۔
انسانی بنیادی حقوق وہ چوتھا عنصر ہے جس میں پاکستان کو پرکھا گیا ہے ۔ قانون کی حکمرانی اس کا بنیادی جزو ہے۔ 142ملکوں میں پاکستان 125ویں نمبر پر ہے ۔ اور اس رپورٹ کے مطابق ہمارا ملک مزید ذلت کی طرف گامزن ہے ۔ دل تھام کر مجھے بتائیے کہ انسانی حقوق واقعی پاکستان میں کسی بھی طرح سے موجود ہیں ؟ شاید قانون کی ضخیم کتابوں میں ان کا تذکرہ ہو مگر زمین پر پچیس کروڑ عوام کسی قسم کا کوئی بنیادی حق نہیں رکھتے ۔اس سے زیادہ کسی ملک کی کیا بے توقیری ہو سکتی ہے کہ ایک بین الاقوامی ساکھ رکھنے والا ادارہ اس کی زبو ں حالی کو عیاں کر رہا ہے۔ اگلے عنصر کے متعلق لکھنا اور بتانا میرے لیے مشکل ہوتا جا رہا ہے اوروہ ہے کہ کیا ہمارے ملک میں لوگوں کو تحفظ حاصل ہے یا نہیں؟ مقام افسوس ہے کہ انسانی تحفظ کے اہم عنصر میں ہم سے صرف دو ملک نیچے ہیں ۔
142ملکوں میں ہماری پوزیشن 140ہے۔ اس عنصر کے متعلق حکمران کیا فرمائیں گے یہ تو ان کی صوابدید ہے ۔ لیکن یہ مکمل سچ ہے کہ پاکستان میں کوئی بھی شخص کسی بھی طرح سے محفوظ نہیں ہے ۔ جو کالک ہمارے چہرے پر موجود ہے وہ پوری دنیا کو نظر آ رہی ہے۔ مگر اسے کوئی دیکھ نہیں سکتا ‘ وہ صرف اور صرف ہمارے حکمران ہیں۔ اگلا فیکٹر یعنی چھٹا فیکٹر ملک کے نظام پر مختلف قوانین اور انتظامی فیصلوں کونافذکرنا ہے ۔اس میں حکومتی اور غیر حکومتی ادارے دونوں شامل ہیں ۔ کیا آپ پوچھنا چاہیں گے کہ ہم اس سیڑھی پر کس جگہ کھڑے ہوئے ہیں۔
حضور ‘142ملکوں میں ہم 127ویں نمبر پر ہیں۔ اس کا مطلب کیا ہے ۔ کہ ہماری حکومت قوانین کو لوگوں پر انصاف سے لاگو کرنے کی استطاعت ہی نہیں رکھتی ۔ حقیقت میں ہمارے بدقسمت خطے میں قوانین صرف کمزور لوگوں پر عائد کیے جاتے ہیں ۔بڑی مچھلیاں ‘ قوانین کو اپنے اوپر لاگو ہی نہیں ہونے دیتی ۔ ہر سطح پر ایسے مخصوص گروہ اور افراد موجود ہیں جو قانون اور اس کے نفاذ سے بالا تر ہیں۔قوم کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں میں اختیارات کی لگام ان لوگوں کے ہاتھ میں ہے جو صرف اور صرف اپنے ذاتی اور مالی مفادات کے غلام ہیں ۔ یہ سلسلہ ستر سال سے مسلسل چلتا جا رہا ہے ۔ اگلا عنصر ہے کہ کیا سول انصاف کا ایسا نظام موجود ہے جو لوگوں میں کرپشن اور دیگر عناصر سے بالا تر ہو کر ان کے معاملات طے کر رہا ہے ۔
اس میں وہ عدالتی نظام بھی پرکھا گیا ہے۔کیا اس میں لوگوں کو سول انصاف کی حد تک تاخیر کا سامنا تو نہیں کرنا پڑتا اورسول عدالتیں اپنے فیصلوں پر عملدرآمد کروا پاتی ہیں۔ اس عنصر میں بھی پاکستان بہت پیچھے ہے۔ 128ویں نمبر پر براجمان ہونے کا مطلب کیا ہے کہ ہمارے سول عدالتی ادارے لوگوں کے مسائل حل کرنے میں بھرپور طریقے میں غیر فعال اور ناکام ہیں ۔آخری فیکٹر کریمنل جسٹس کے متعلق ہے ۔اس میں مختلف جرائم کے متعلق جزا ء اور سزا کا نظام ‘ اس کے ساتھ ساتھ پولیس ‘ عدالتیں وکلاء ‘ جیل حکام اور پراسیکیوٹرز کی کارکردگی پر غورکیا گیا ہے۔
اس میں ہمارا ملک 98ویں نمبر پر ہے۔ اس رپورٹ کے آخر میں ہمارے ملک کی مجموعی کارکردگی پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے ۔ یعنی وہ تمام آٹھ اہم ترین عناصر جن کا تذکرہ اوپر کر چکا ہوں ان سب کو ملا کر مجموعی تصویر کیا بنتی ہے ۔ یہ دیکھنا حد درجے اہم ہے ۔ پوری دنیا کے 142ملکوں میں ‘ ہمارا وطن 129ویں نمبر پر ہے۔ یعنی بد انتظامی ‘ خراب کارکردگی ‘ عدم تحفظ ‘ رشوت ستانی ‘ انسانی حقوق کی پامالی ‘ انصاف کی غیر موجودگی اور غیر شفافیت میں صرف 13ملک ہم سے نیچے ہیں ۔ حکومتی دعوے نعرے اور اعلانات کے باوجود ہم تمام لوگ ڈوبی ہوئی کشتی کے وہ مسافر ہیں جو ڈوبنے سے بچنے کے لیے ہاتھ پیر مار رہے ہیں۔ مگر اس کے برعکس ہمارے حکومتی ادارے عوام کے سروں میں کیلیں ٹھونک ٹھونک کر انھیں غرق کر رہے ہیں ۔
ورلڈ جسٹس پروجیکٹ کے کسی رکن کی پاکستان سے کوئی دشمنی نہیں ہے ۔ پوری دنیا اس ادارے کی تحقیقاتی رپورٹ کے حساب سے ملکوں سے معاملات کا تعین کرتی ہے۔ دراصل یہ ایک سند ہے جو کسی بھی ملک کو حد درجے غیر متعصب طریقے سے دی جاتی ہے۔ اگر کوئی شخص ہمارے متعلق یہ رپورٹ پڑھے گا تو اس کا ہمارے نظام اور حکومت کے متعلق کتنا منفی تاثر ہو گا‘ اس کا اندازہ لگانا قطعاً مشکل نہیں ہے۔
پاکستان سے نیچے ایتھوپیا ‘ افغانستان ‘ مصر اور کموڈیا جیسے ملک ہیں ۔ جہاں کسی قسم کی قانون کی حکمرانی سرے سے موجود ہی نہیں ہے ۔ یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ ہر زاویے سے دنیا کا بہترین ملک ڈنمارک قرار دیا گیا ہے جوہر اعتبار سے دنیاوی جنت سے کم نہیں ہے۔ اس رپورٹ کو پڑھ کر کئی گھنٹے حد درجے ذہنی تکلیف میں رہا ہوں۔ لیکن سچ کو چھپانا نہیں چاہتا ۔ گزارش ہے کہ بذات خود اس رپورٹ کو پڑھیئے۔ کیونکہ میری نظر میں یہ ہمارے حکومتی نظام پر چارج شیٹ سے کم حیثیت نہیں رکھتی!