اسرائیل کے خلاف مصر کی خاموش تیاریاں
مجھے آج بھی یاد ہے کہ جب میں نے اسکول مکمل کیا اور عالمی معاملات میں دلچسپی لینا شروع کی تو دو جملے میں نے تواتر سے اپنے اردگرد سنے، ایک یہ کہ دنیا میں مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ برا ہورہا ہے وہ یہودی سازش ہے اور دوسرا یہ کہ یہودی ایک گریٹر اسرائیل بنانا چاہتے ہیں جس کی سرحدیں مصر میں موجود نیل کے دریا سے عراق کے فرات تک پھیلی ہوں گی۔
یہ دو ایسے جملے تھے کہ جس کے حق اور خلاف میں سیکڑوں افراد اپنی رائے اور دلیلیں دیتے آئے ہیں۔ فلسطین کے مرحوم رہنما یاسر عرفات نے ایک بار میڈیا کے ماہرین کو بتایا کہ اسرائیل کے پاس ایک ایسا سکہ ہے جس پر ’’گریٹر اسرائیل‘‘ کا نقشہ موجود ہے۔ اسرائیلی میڈیا نے اس سکے کے حوالے سے یاسر عرفات کے الفاظ کو طنزیہ انداز میں پیش کیا کہ ایسے سکے یاسر عرفات کے پاس ہوں گے اسرائیل کے پاس ایسا کوئی سکہ نہیں۔ اسرائیل صرف 1948 میں حاصل کی گئی زمینوں سے زیادہ نہیں چاہتا (مغربی کنارے اور غزہ بھی نہیں) اسرائیل پر عرب ممالک کی زمینوں کو ہڑپنے کا الزام ایک بھونڈے بہتان سے زیادہ کچھ نہیں۔
وقت گزرتا گیا اور عرب ممالک کے ساتھ امن کے خواب اسرائیل کی توسیع پسندانہ ذہنیت کے آلودہ پانی سے متعفن ہوتے گئے، جو اسرائیل نے 1998 میں اردن کو بھیجے تھے، اور پھر الاقصیٰ انتفاضہ کے دوران اسرائیلی امن کی تصاویر منظر عام پر آئیں جس کےلیے بعض عرب قابض فوج کے ٹینکوں اور طیاروں کے بوجھ تلے دب کر فلسطینیوں پر بمباری کرنے پر راضی کرنے کی کوشش کررہے تھے، اور حالات نے ایک مختلف رخ اختیار کرنا شروع کیا۔ جب 2006 میں لبنان میں جنگ ہوئی، پھر غزہ پر اسرائیل نے وحشیانہ بمباری کی جس کا پانچواں بدترین مرحلہ ہم دیکھ رہے ہیں۔
ان تمام واقعات میں اسرائیل نے فلسطینیوں پر ہر وہ ہتھیار استعمال کیا جس کی بیان الاقوامی سطح پر ممانعت تھی۔ سفید فاسفورس اور بے دفاع شہریوں کے ساتھ انتہائی بربریت کا مظاہرہ کیا، انہیں زندہ جلانے سے دریغ نہیں کیا۔ تاہم، یہ سب کچھ عقل و دانش کے ڈھونگ کرنے والوں کی مدد نہیں کرسکا، جو ہر بار اسرائیل کےلیے اس دعوے کے تحت کوئی نہ کوئی بہانہ تلاش کرتے تھے کہ فلسطینی یا لبنانی مزاحمت کو مورد الزام ٹھہرایا جانا چاہیے۔ کیونکہ اس نے اسرائیل کو ’’اُکسایا‘‘ اور اسے پرتشدد جواب دینے کےلیے ’’مجبور‘‘ کیا۔ گویا مظلوم کو مورد الزام ٹھہرانا گزشتہ برسوں سے آج تک کچھ لوگوں کا رواج رہا ہے۔
یہ سب کچھ اب اس تباہ کن جنگ کی روشنی میں بدل گیا ہے جس کا اعلان اسرائیل نے گزشتہ سال 7 اکتوبر کو آپریشن الاقصیٰ کے دوران کیا تھا، اور اگرچہ وہی آوازیں ہمیشہ کی طرح متاثرہ کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے سامنے آئیں، لیکن اس بار اسرائیل میں کچھ بدل گیا ہے۔
صرف اسرائیل میں ہی نہیں بلکہ اب اسرائیل کے پڑوسی ممالک جنہوں نے اسرائیل کو اپنا آقا تسلیم کیا تھا اسرائیل کے حالیہ رویے کو دیکھ کر ان کو بھی احساس ہونے لگا ہے کہ اب ان کی عیاشی اور عیش و عشرت زیادہ دن کی نہیں رہی۔
گریٹر اسرائیل کے حوالے سے درجنوں نہیں سیکڑوں دستاویزات دستیاب ہیں۔ اسرائیل کے مقامی رہنما اور بعض سیاسی لوگوں نے گریٹر اسرائیل کے حوالے سے اس کا تذکرہ کیا ہے لیکن میں یہاں اسرائیل کی معروف اور اہم شخصیت کا ذکرکروں گا۔ غزہ پر اسرائیلی جارحیت شروع ہونے کے بعد اسرائیل کے وزیر خزانہ بیزلیل سموٹریچ کی ایک ویڈیو منظر عام پر آئی جس میں انھوں نے ایک اسرائیلی ٹیلی ویژن چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ’’یروشلم کی سرحدیں شام کے دارالحکومت دمشق تک پھیلنی چاہئیں۔ اور اسرائیل کو اردن پر بھی قبضہ کرنا چاہیے‘‘۔
سموٹریچ کے علاویہ دیگر اسرائیلی حکام کی طرف سے بعد میں کئی مواقع پر ان بیانات کا اعادہ، مشرق وسطیٰ کے بڑے حصوں کو شامل کرنے کےلیے اسرائیل کی سرحدوں کو پھیلانے کے بارے میں انتہائی دائیں بازو کی غلط فہمیوں کو اجاگر کرتا ہے۔
غزہ کے خلاف صہیونی جارحیت کا تسلسل مصر کی قومی سلامتی کےلیے خطرہ ہے، اور شمالی غزہ کے لوگوں کا بدترین محاصرہ ایک اسرائیلی منصوبے کے دائرے میں آتا ہے جس کے تحت انہیں جنوبی غزہ کی پٹی کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ پھر انہیں مصر کے سینائی میں منتقل کیا جائے گا۔ صہیونی دشمن دریائے نیل سے فرات تک ’’عظیم ترین اسرائیل‘‘ بنانے کی کوشش کررہا ہے، لہٰذا غزہ میں جو کچھ ہورہا ہے اس سے نہ صرف مصر بلکہ تمام عرب ممالک کو خطرہ ہے۔
غزہ میں آپریشن کے دوران ایک فوجی کی تصویر سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر وائرل ہوئی جس میں اس کی فوجی وردی پر ’’گریٹر اسرائیل‘‘ کا نقشہ دیکھا گیا تھا۔ فوجی کے بازو پر دکھائے گئے نقشے میں نہ صرف اسرائیل، بلکہ اردن، فلسطین، لبنان، اور شام، عراق اور مصر کے کچھ حصوں سمیت ہمسایہ ممالک کے وسیع علاقے بھی شامل تھے۔ اسرائیلی فوجی کی تصویر نے مصر میں سوشل میڈیا پر تنازعہ کھڑا کردیا اور فوری ردعمل کا طوفان برپا کردیا۔ غزہ میں اسرائیلی جارحیت پر جہاں تمام ممالک خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں، وہیں مصر کے عوام میں غیر معمولی ہلچل دیکھنے میں آئی ہے، جو اسرائیلی فوجی کے گریٹر اسرائیل کی تصویر کے بعد مزید گہری ہوگئی۔
اب اسرائیل میں بھی اسرائیل کے خلاف مصر کے پوشیدہ عزائم کے بارے میں ڈرامائی دعووں میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ’’ہم نے مصر کے ساتھ کبھی حقیقی امن نہیں کیا‘‘، اور یہ کہ ’’کئی دہائیوں سے مصر اپنے آپ کو خطرناک حد تک مسلح کررہا ہے اور اسرائیل کی سلامتی کو نقصان پہنچانے کےلیے پراکسی فورسز کی حوصلہ افزائی کررہا ہے‘‘۔ کچھ نے خبردار کیا کہ ’’ہمیں غفلت کی نیند سلایا جارہا ہے‘‘۔ ’’مصر نہیں چاہتا کہ اسرائیل حماس کو شکست دے‘‘۔ مصری فوج سینائی میں بڑے پیمانے پر مضبوط ہوتی جارہی ہے، جس کی وجہ سے بہت سی آوازیں یہ مطالبہ کرتی ہیں کہ ’’اسرائیلی فوج‘‘ مصر پر نظر رکھے‘‘ تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ اسرائیل کسی بھی خطرے کے منظرنامے کےلیے تیار ہے۔
یہ الزامات اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے ’’فلاڈیلفیا محور‘‘ سے دستبرداری سے انکار کے بعد اسرائیل اور مصر کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے پس منظر میں سامنے آئے ہیں، جس میں نیتن یاہو نے کہا تھا کہ اسرائیل فلاڈیلفیا محور سے دستبرداری نہیں کرے گا۔
بار ایلان یونیورسٹی کے مشرق وسطیٰ کے مطالعہ کے ماہر ڈاکٹر یہودا بیلنگا کا کہنا ہے کہ ’’ایک سادہ سی بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے: اگر اسرائیل فلاڈیلفیا کے محور کو کنٹرول نہیں کرتا ہے، تو حماس 5-10 سال میں اپنی صلاحیتوں کو بحال کرکے اور مضبوط کرلے گی۔ حماس ایک ’عفرانی قوت‘ بن چکی ہے، جیسا کہ ہم نے 7 اکتوبر کے واقعات میں دیکھا، بنیادی طور پر فلاڈیلفیا کے محور کے ذریعے اسمگلنگ کا شکریہ، جس نے اسے بااختیار بنانے کےلیے ’آکسیجن‘ فراہم کی۔‘‘
اسرائیلی ملٹری انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ AMAN کے ریسرچ ڈویژن کے سابق سربراہ اور اسٹرٹیجک امور کی وزارت کے ڈائریکٹر جنرل یوسی کوپرورسر نے اپنی حالیہ رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ مصر کی فوج کی تشکیل اسرائیلی حکام کےلیے تشویشاک ہے‘‘۔ مصر نے فوجی نقل و حرکت کےلیے بہت مضبوط عمل شروع کیا ہے، اور اس عمل کے بارے میں سب سے زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ اس عمل سے سب سے بڑا فوجی خطرہ اسرائیل کو ہے۔
’’واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ فار مڈل ایسٹ پالیسی کے ایک سینئر محقق نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ مصری اسلحے کی حد صرف اس صورت میں بتائی جاسکتی ہے جب وہ یہ سمجھیں کہ غیر ملکی مصر پر حملہ کرنے والے ہیں، کیونکہ آج مصر کو دہشت گرد تنظیموں کے علاوہ کوئی حقیقی خطرہ نہیں ہے۔ لیکن دہشت گردی سے نمٹنے کےلیے مصر کو ٹینکوں یا لڑاکا طیاروں کی ضرورت نہیں ہے تو پھر مصر کو جنگ کےلیے ایک نئے بحری بیڑے کی ضرورت کیوں ہے؟ نہر سوئز، اور ایسے راستوں کو کھول رہا ہے جو بظاہر فوجوں کو سینائی میں منتقل کرنے کےلیے بنائے گئے ہیں؟‘‘
مصر کے ایک ماہر ایلی ڈیکل جو پہلے ایمن میں ریسرچ ڈویژن میں فیلڈ ریسرچ برانچ کے سربراہ کے طور پر کام کرچکے ہیں، کہتے ہیں کہ مسئلہ صرف یہ نہیں کہ مصر ہتھیاروں کی خریداری کررہا ہے بلکہ اس عمل کو تیزی سے انجام دے رہا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ مصری صدر ’’سیسی دور‘‘ سے پہلے، مصر مناسب حالت میں استعمال شدہ ہتھیار خریدتا تھا جیسے کہ فرسودہ ٹینک جو اب کسی دوسرے ملک کے زیر استعمال نہیں تھے، لیکن سستے داموں خریدے جاسکتے تھے لیکن آج مصر دنیا کے بہترین ہتھیاروں کے حصول کےلیے کوشاں ہے اور اپنے ہتھیاروں کے ذرائع کو متنوع بنانے کےلیے بہت زیادہ کوششیں کررہا ہے۔
یوسی کوپرورسر نے بتایا ہے کہ مصر نے حالیہ 10 سال کے درمیان مختلف ممالک سے 40 سے 50 بلین ڈالر مالیت کے ہتھیار خریدے ہیں۔ اس کے علاوہ مصر میں مشرق وسطیٰ میں اسلحہ سازی کی سب سے بڑی صنعت بن گیا ہے۔ مصر بحری جہاز اور ٹینک سمیت تقریباً ہر چیز تیار کررہا ہے اور اس میں مزید بہتری کی مسلسل کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔ مصر مقامی سطح پر گولا بارود کی مسلسل پروڈکشن کررہا ہے۔ کم سے کم اندازوں کے مطابق مصری فوجی صنعت جس میں اے پی سی، یو اے وی اور مزید کی پیداوار شامل ہے، کی مالیت تقریباً 20 بلین ڈالر تک پہنچ چکی ہے، جس کو اگر آپ بین الاقوامی ہتھیاروں کی خریداری میں شامل کرتے ہیں، تو یہ تقریباً 60-70 بلین ڈالر تک بنتی ہے جو کہ بہت ہی زیادہ ہے، جبکہ مصر کی بقیہ فوجی سرمایہ کاری، تقریباً 140 بلین ڈالر تک، فوجی انفرااسٹرکچر کی تعمیر کےلیے وقف ہے۔ اس میں سرنگیں، پل اور ٹرانزٹ راستوں سمیت فوجی بندرگاہیں شامل ہیں۔ انھوں نے زور دے کر کہا کہ پوری ریاست اسرائیل کے پاس آٹھ فوجی بندرگاہیں نہیں ہیں لیکن مصر نے آٹھ فوجی بندرگاہیں بنائی ہیں۔
انھوں نے کہا کہ مصریوں نے بہت بڑے ہنگامی گودام بنائے ہیں اور یہ گودام بنانا جاری رکھے ہوئے ہیں، جس کا سائز کم سے کم ایک فٹ بال کے میدان کے سائز کا ہے۔ 2 ملین مربع میٹر سے زیادہ بڑے گوداموں کا مقصد کیا ہوسکتا ہے، یہ فوجی حکمت عملی کے ماہرین بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔
سیکیورٹی ماہرین کے مطابق اس قسم کے بڑے گوداموں کی تعمیر غیر معمولی صورتحال کےلیے انتہائی ضروری ہوتی ہے۔ ’’ان گوداموں کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ جنگ کی صورت میں ملک بیرونی ممالک سے ہتھیاروں کی فراہمی پر منحصر نہیں رہے گا‘‘۔
مصر کو فی الحال کسی ملک کے ساتھ جنگ کا کوئی خطرہ نہیں ہے، تمام ممالک کے ساتھ اس کا کوئی تنازع نہیں ہے ماسوائے سوڈان کے۔ لیکن وہ تنازع بھی جنگ کی صورتحال سے کوسوں دور ہے تو پھرمصر جنگی تیاریاں کیوں کررہا ہے؟ مصر اسلحہ کےلیے زیادہ انحصار امریکا پر کرتا ہے اور حالیہ صورتحال دیکھ کر اندازہ ہورہا ہے کہ مصر جنگ کے راستے پر ہے اور دوران جنگ امریکا اس کو اسلحہ کی فراہمی سے انکار کرتا ہے تو وہ اپنے گولہ بارود سے خود کفیل ہو اور اس کو امریکا سمیت کسی ملک کی منت سماجت نہ کرنی پڑے۔
مصر کی تیاریاں صرف گوداموں کی تعمیر تک محدود نہیں بلکہ مصر نےنہر سوئز کے مختلف مقامات پر 60 پل تعمیر کیے ہیں۔ نہر سوئز پر 60 پلوں کی ضرورت کیوں ہے؟ مصر اسرائیل کے ساتھ 1979 سے 2004 تک کے امن معاہدے پر دستخط کرنے تک صرف 6 پلوں پر قناعت کررہا تھا اور اب ان پلوں کی تعداد 60 جس میں فلوٹنگ برج بھی شامل ہے جو غیر معمولی ہے۔ 2013 تک مصر کے پاس ٹینک کیریئرز کی تعداد 750 تھی جو اب تقریباً 1,860 ہوگئی۔ مصر اس تمام طاقتور بحری بیڑوں کے ساتھ نقل و حمل کا کیا ارادہ رکھتا ہے؟
السیسی کے اقتدار میں آنے تک، سینائی کے صحرا میں ایندھن کے ذخائر تھے جن کا حجم تقریباً 20 سے 40 ملین لیٹر تھا لیکن آج معلوم ہورہا ہے کہ وہاں زیر زمین فوجی ایندھن کے ذخائر موجود ہیں جس کو خفیہ رکھا گیا ہے، جس کی مقدار کم از کم 180 ملین لیٹر ہے۔ اگر یہ سمجھا جائے کہ ایک ٹینک کو تقریباً 500 لیٹر ایندھن کی ضرورت ہوتی ہے، تو آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اتنی بڑی مقدار میں کتنے ٹینکوں میں ایندھن بھرا جاسکتا ہے۔
ڈاکٹر یہودا بیلنگا کا کہنا ہے مصر کی یہ تمام تیاری غیرمعمولی نہیں۔ اسرائیل کے سیکیورٹی حکام کو اس کو انتہائی سنجیدگی سے لینا چاہیے۔ یہ بہت پریشان کن ہے، کیونکہ اسے مستقبل کے ممکنہ تنازعے کی تیاری کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ یہ بہت ضروری ہے کہ اسرائیل میں فیصلہ ساز نہر اور سینائی میں ہونے والی ان پیش رفت پر توجہ دیں۔ مصری نہر سوئز کے علاقے میں بنیادی ڈھانچہ قائم کیا ہے جو مصر سے سینائی میں بڑے پیمانے پر افواج کی منتقلی کی اجازت دیتا ہے، اور مصری رہنماؤں کے بیانات، جن کے مطابق ایک گھنٹے کے اندر اندر پوری ڈویژن کو سینائی میں اتارا جاسکتا ہے، اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ مصر کو آج ان تفصیلات پر یقین آہی گیا ہے جو میں بچپن سے سنتا آرہا ہوں کہ صہیونی ریاست اسرائیل اپنی سرحدوں کو نیل سے فرات تک پھیلانا چاہتی ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔