میڈیا واچ ڈاگ امریکی صحافت ۔۔۔ زندہ باد

اگر امریکا نے اپنے صحافیوں کو کوریج کے لیے فلسطین بھیج دیا تو کیا اِس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ٹھیک ٹھیک رپورٹنگ کریں؟


امریکا نے دنوں صحافی کو واپس بلا کر بالکل ٹھیک کیا۔ باللکل صحیح کیا۔ امریکی صحافی ہونے کے باوجود غزہ کی ٹھیک ٹھیک صورتحال پیش کرنا کسی جرم سے کم تو نہیں ہے۔ فوٹو: فائل

میٹھا میٹھا ہپ ہپ۔۔۔اور پھر کڑوا کڑوا تھو تھو۔۔۔یہ تو اپنے امریکیوں کی پرانی عادت ہے۔ حیرت تو اس وقت ہوتی ہے جب انہیں آئینہ دکھایا جائے تو یہ اپنے غالب کی طرح برا مان جاتے ہیں اور منہ بنالیتے ہیں۔۔۔ حالانکہ انہیں منہ بنانے کی ضرورت نہیں۔۔۔وہ بغیر بنائے بھی بنے رہتے ہیں۔ امریکا کے دوغلے رویے پر ساری انسانیت ہمیشہ منہ چھپائے پھرتی رہے گی۔ وہ اپنے شیخ رشید سے بھی چار ہاتھ آگے ہیں۔ پل میں تولہ پل میں ماشہ۔

خیر خبر یہ ہے کہ امریکی ٹی وی این بی سی نے غزہ کے ساحل پر اسرائیلی بمباری سے شہید ہونے والے 4 فلسطینی بچوں کی خبر میڈیا پر نشر کرنے والے صحافی ایمن محی الدین کو فورا واپس آنے کا حکم دے دیا ہے۔ امریکی ٹی وی کی جانب سے ایمن محی الدین کو غزہ میں صحافتی ذمہ داریاں ادا نہ کرنے کی وجہ خطے میں چینل کی سلامتی کو خطرہ بتایا گیا ہے۔ امریکا کی نیشنل سکیورٹی ایجنسی کے سابق اہلکار ایڈورڈ اسنوڈن کے ساتھ کام کرنے والے گلین گرین والڈ کا کہنا تھا کہ امریکی نیوز چینل نے ایمن محی الدین کو بلاکر ایک انتہائی نا تجرکار نمائندے کو تعینات کردیا ہے جو عربی زبان بھی نہیں جانتا۔ حالانکہ آپ ایمن محی الدین کاپرانا ریکارڈ اٹھا کر دیکھے تو آپ کو حیرت ہوگی۔ ایمن محی الدین نے 2003 سے 2006 کے دوران عراق میں امریکی جنگ کے حوالے سے صحافتی ذمہ داریاں ادا کی تھیں اور ان دنوں یہ بغداد میں واحد امریکی صحافی تھے۔ ایمن محی الدین کو 2011 میں ٹائم میگزین نے دنیا کی 100 با اثر ترین شخصیات میں شامل کیا تھا۔



یہ ایک ایمن محی الدین نہیں جس کے ساتھ یہ سلوک کیا گیا۔ اس عالمی نظام میں کسی بھی ایمن محی الدین کو آگے بڑھنے نہیں دیا جاتا۔ ایک اور امریکی صحافی دیانا مگینے کو بھی اسرائیل کے ایک گروپ کے خلاف ٹوئیٹ کرنے پر سی این این نے اپنی اس صحافی کو واپس بلا لیا۔



اگر پاکستان یا پھر کسی بھی تیسری دنیا کے حوالے سے اِن خبروں کا جائزہ لیا جائے تو یہ بہت اہمیت کی حامل نہیں لگتی کیونکہ یہاں تو خبروں میں ہیر پھیر بھی ہوتی ہے اور صحیح کو غلط اور غلط کو صحیح بناکر بھی پیش کیا جاسکتا۔ مگر جناب اعلی یہ سب امریکا میں ہوا ہے ۔۔۔۔ جی جی اپنا امریکا بہادر۔ وہ امریکا۔۔۔ جودنیا کا مہذب ملک بھی ہے۔۔۔ اخلاقیات اور دوسروں کا خیال رکھنے والا بھی ہے۔۔۔ جس کے یہاں کتوں کو بہترین غذائیں ملتی ہیں۔پڑوسی کو تنگ کرنے پر جیل جاسکتے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ ۔

میں کسی بھی ابہام کا شکار نہیں ہوں کہ فلسطین کے حوالے سے کوئی بھی غیر ملکی میڈیا اسرائیل مخالف یا پھر فلسطین حمایت خبر نشر کرنے کی جسارت کرسکتا ہےاور جو جو افراد ایسا سوچتے ہیں یا پھر اُمید لگاتے ہیں مجھے اُن پر حیرت ضرور ہوگی۔ لیکن امریکا جیسے مہذب ملک سے کم از کم میں اتنی تو امید لگا سکتا ہوں کہ وہ خبر کو ٹھیک ٹھیک انداز میں پیش کرنے کی نہ صرف ہمت کریگا اورجو جو لوگ ایسا کرینگے وہ اُن کی پشت پناہی بھی کریگا۔ مگر مندرجہ بالہ 2 خبروں کے منظر عام پر آنے کے بعد میری یہ اُمید دم توڑ چکی ہے۔

دونوں امریکی صحافیوں کو فلسطین سے صرف اإس لیے واپس بلالیا کہ اُنہوں نے اسرائیلی بربریت کو اُس کی اصل شکل میں پیش کردیا۔ ویسے مجھ سے پوچھا جائے تو یہ غلطی امریکا کی نہیں بلکہ اِن دونوں صحافیوں کی ہے۔ اُن کو حالات و واقعات کی صحیح تصویر پیش کرنے کی سزا ملنی ہی چاہیے تھی۔اگر اُن کو کوریج کے لیے فلسطین بھیج دیا گیا ہے تو کیا اِس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ٹھیک ٹھیک رپورٹنگ کریں؟ یہ تو ظلم اور سراسر ناانصافی ہے۔ باقی جہاں تک بات رہی صحافتی اقدار کی ۔۔۔۔ چلیں چھوڑیں یار کیوں اپنا بھی اور میرا بھی وقت ضائع کرتے ہیں۔ بس اِتنا سمجھ لیں کہ غزہ میں اسرائیل فلسطینیوں کی مدد کے لیے پہنچا ہے مگر یہ فلسطین اسرائیلی ہمدردی کا ناجائز فائدہ اُٹھاتے ہوئے اُن پر حملے کررہے ہیں۔کاش میرا یہ بلاگ کوئی امریکی صحافی پڑھ لے کہ شاید مجھے بھی کوئی نوکری مل ہی جائے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں