ژاں پال سارتر کا ایک فلسفیانہ ناول ہے، جو 1938 میں شائع ہوا (La nausea اصل عنوان) "Nausea" تھا۔ یہ سارترکے پہلے ناول کی نشاندہی کرتا ہے اور یہ وجودیت کا ایک بنیادی متن ہے۔ کہانی بوویل نامی ایک افسانوی قصبے میں ترتیب دی گئی ہے، جو اس سے ملتی جلتی ہے۔
فرانسیسی بندرگاہی شہر لی ہاورے۔ یہ بیانیہ ایک فرانسیسی مصنف انٹوئن روکینٹن کی پیروی کرتا ہے جو ایک گہرے وجودی بحران کا تجربہ کرتا ہے۔ جیسے جیسے وہ اجنبیت اور مضحکہ خیزی کے جذبات سے دوچار ہوتا ہے، روکینٹن خود وجود کی نوعیت سے خوفزدہ ہو جاتا ہے۔ وہ متلی کے اپنے احساسات کو بیان کرتا ہے، جو زندگی کی بے معنی اور من مانی نوعیت کے بارے میں اس کے شعورکی علامت ہے۔
یہ احساس اپنے آس پاس کی دنیا کے ساتھ اس کے مقابلوں سے پیدا ہوتا ہے، جس سے وہ حقیقت کے جوہر اور اس کے اندر اس کی جگہ پر سوال اٹھاتا ہے۔ سارتر نے Roquentin کے تجربات کو آزادی، ذمہ داری اور بظاہر لاتعلق کائنات میں معنی کی تلاش جیسے موضوعات کو تلاش کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔
ناول میں اس خیال کو شامل کیا گیا ہے کہ افراد کو اپنی اقدار اور زندگی کا مقصد خود بنانا چاہیے، کیونکہ روایتی ڈھانچے اور عقائد تسلی بخش جوابات فراہم کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ سولہویں اور سترہویں صدی میں یورپ کے ہر ملک میں فلسفیوں اور سائنس دانوں پر الحاد اور بغاوت کے الزام لگا کر انہیں زندہ جلا دیا جاتا تھا اور کبھی انہیں جیل کے تنگ و تاریک کمروں میں سسک سسک کر مرنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا لیکن علم و حکمت کی ان قندیلوں کو جہالت کے دامن سے بجھانے کی کو شش ناکام رہی، برونو کوروم میں زندہ جلا دیا گیا لیکن اس کے خیال کو جلانے کے لیے ساری دنیا کا ایندھن ناکافی تھا، اگر علم و دانش کے یہ علم بردار کلیسا کی تلواروں سے ڈر جاتے تو آج انسان کس حالت میں ہوتا۔
یورپ کا احتساب عالموں کو زندہ جلانے میں کامیاب ہوگیا لیکن احتساب انسانی غور و فکرکو زنجیروں میں نہ جکڑ سکا۔ یورپ کے اس عہد کی اگر تعزیری تاریخ پر غورکیا جائے تو وہ بھیانک اور لرزہ خیز سزاؤں کا ایک مسلسل عہد دکھائی دے گا، اس عہد میں انسانی ذہن کو قید کر نے کی کو شش میں انسانی جسم کو زندہ جلایا گیا، جسم جل گیا لیکن ذہن زندہ رہا جرم و سزا کے اس دورکے بعد خیالات باقی رہے،کیونکہ خیال نہیں مٹایا جاسکتا۔ خیالات کو قید نہیں کیا جاسکتا، خیال آزاد ہے۔ فوج کے حملوں کی روک تھام کی جاسکتی ہے لیکن خیالات کے حملوں کو نوک سنگین سے نہیں رو کا جاسکتا۔
وحشت اور بربریت سے تہذیب و تمدن تک کا یہ سارا سفر راتوں رات طے نہیں ہوا، انسان کو یہ سفر طے کرنے میں صدیاں لگیں قربانیوں اور جدوجہد کی بہت طویل داستان ہے۔ اس سارے سفر نے ایک بات ثابت کردی کہ انسان عظیم ہے ۔ دنیا کی تاریخ میں کرشمے عوام نے ہی کر کے دکھائے ہیں یہ عوام ہی ہیں جنہوں نے آمروں، بادشاہوں کے تاج و تخت اچھال کر پھینک دیے جنہوں نے اپنے خالی ہاتھوں سے بڑے بڑے ٹینک الٹ کر رکھ دیے۔
بڑے بڑے ظالم، جابر بادشاہ اور آمر ہی عوام کے ڈر و خوف کی وجہ سے ملک چھوڑکر فرار ہوگئے۔ دنیا بھرکے عوام نے خوشحالی اور ترقی کی منزلیں، جمہوریت اور ووٹ کی طاقت کے ذریعے طے کی ہیں۔ پاکستان کا قیام ایک عوامی جدوجہد کا نتیجہ ہے نہ کہ عسکری جدوجہد کا اور یہ جمہوریت ہی ہے جس کا وعدہ ان کے آباؤ اجداد سے کیا گیا تھا۔ ان سے کہا گیا تھا کہ وہ ایک جمہوری ملک میں رہیں گے، جمہوری ملک وہ ہوتا ہے جہاں عوام سپریم ہوتے ہیں جہاں ہر شہر ی بلا کسی جبر اپنے ووٹ کا آزادانہ استعمال کرسکے جہاں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں پارلیمنٹ کا قیام عمل میں آتا ہے جو با اختیار ہوتی ہے۔
پارلیمنٹ کو لامحدود اختیارات حاصل ہوتے ہیں وہ عدلیہ کے اختیارات میں کمی سمیت ہر طرح کی قانون سازی کی مجاز ہے۔ پارلیمنٹ کی منظورکردہ ترمیم کسی عدالت میں چیلنج نہیں کی جاسکتی پارلیمنٹ آئین میں جو چاہے ترمیم کرسکتی ہے۔ قائداعظم نے نئی دہلی میں رائٹرکے نمائندے ڈون کیمپل کو انٹرویو دیتے ہوئے 1946 میں کہا تھا۔ ’’ نئی ریاست ایک جدید جمہوری ریاست ہوگی جہاں حاکمیت اعلیٰ عوام کے پاس ہوگی‘‘ 11 اگست 1947 کو پاکستان بننے سے 3 دن قبل پاکستان کی آئین ساز اسمبلی کے صدرکی حیثیت سے کیے گئے، اپنے تاریخی خطاب میں انہوں نے انسانوں پر مشتمل آئین ساز اسمبلی کو بار بار پاکستان کا مقتدر اعلیٰ کہہ کر مخاطب کیا۔
روسو کہتا ہے ’’ میں کیسا آدمی ہوں ، اس کا فیصلہ کوئی شخص یا چند اشخاص نہیں کرسکتے، بلکہ یہ فیصلہ کرنے کا حق فقط عوام ہی کو حاصل ہے اور میں اس کا فیصلہ کرنے کا حق عوام ہی پر چھوڑتا ہوں ‘‘ تو جناب ملک کے اہم فیصلے کسی شخص یا چند اشخاص پرکیسے چھوڑے جاسکتے ہیں شخص یا چند اشخاص غلط ہو سکتے ہیں لیکن عوام کبھی غلط فیصلے نہیں کرتے ۔
ملک عوام کے لیے ہوتے ہیں نہ کہ عوام ملک کے لیے عوام سے زیادہ سمجھ دار اور عقل مندکوئی بھی نہیں ہوسکتا ۔ ریاست ایک منفرد کلیت ہوتی ہے، آپ اس میں جانبداری تلاش نہیں کرسکتے،کیونکہ اس میں آئین سب سے افضل ہوتا ہے اور یہ نہ صرف ذہنی قوتوں کی نمائندگی کرتا ہے بلکہ اس میں تمام اخلاقی اور علمی ہمہ گیریت کی صورت پذیری بھی ہوتی ہے۔
آئین، میں سب سے اہم بات تو عوام کی سیاسی صورت حال کی نمود ہے۔ ہیگل کہتا ہے ’’ ہرآئین اپنے دورکا غماز ہوتا ہے اور وہ سیاسی اصولوں کی کلیت ہوتا ہے، ہم پرانی تاریخ کے کسی عظیم آئین سے جدید آئین کے بارے میں کچھ نہیں سیکھ سکتے ۔ وہ کہتا ہے ’’ اب ریاست اور عوام کا تعلق کیا ہے ریاست ، اس کے قوانین، اس کی انتظامیہ شہریوں کے حقوق اس کی طبعی خصوصیات اس کے پہاڑ، آب و ہوا، ملک، شہریوں کی جائیداد، تاریخ، ریاست، اسلاف کے کارنامے، ان کی یاد، ان سب کا تعلق عوام سے ہے اور ان کی زندگی میں رواں دواں ہے، یہ سب ان کا ہے جیسے وہ خود اس کے ہیں،کیونکہ ان کی ہستی (Being) ہے یہ سب مل کر روح عصر بنتی ہے اور ہر شہری اس کا نمائندہ ہے اور اس سے اس نے جنم لیا ہے اور وہ اسی میں بستا ہے۔‘‘
آخری اور قطعی آزادی جسے انسان سے چھینا نہیں جاسکتا ’’ نہ ‘‘ کہنے کی آزادی ہے اور یہ ہی سارتر کے نظریہ قدرت و اختیارکا سنگ بنیاد ہے۔ سارترکہتا ہے کہ انسان کی آزادی یہ ہے کہ وہ ’’نہ ‘‘ کہے۔ ہر انسان اپنی اخلاقی قدریں خود تخلیق کرتا ہے اس لیے وہ اپنے اعمال میں مطلق العنان ہے اور جس راہ عمل کو چاہے بلا رو ک ٹوک انتخاب کر سکتا ہے جے جی فریزرکردار پر بحث کرتے ہوئے لکھتا ہے۔
’’کسی قوم یا فرد میں استحکام کی سب سے بڑی علامت یہ ہے کہ وہ حال کو مستقبل پر قربان کردے، یہ خصوصیت جس فرد میں جتنی زیادہ ہوگی اتنا ہی اس کا کر دار مستحکم ہوگا جب ایک انسان اپنی زندگی کی آسائشیں بلکہ خود زندگی کو قربان کردیتا ہے تاکہ مستقبل بعید میں آنے والی نسلوں کو آزادی اور صداقت کی برکات میسر آسکیں۔ یہ ہی انسان کی عظمت ہے۔
سقراط، برونو، وکلف، شیخ الاشراق سہروردی نے اپنی جانیں کسی ذاتی فائدے کے حصول کے لیے قربان نہیں کی تھیں بلکہ اپنے عقائد و اصول کی پاسبانی کرتے ہوئے مو ت کو خندہ پیشانی سے دعوت دی تھی۔ سقراط کے دوستوں نے کہا ’’ہم محافظوں کو رشوت دے کر آپ کو بھگانے کی کوشش کررہے ہیں ‘‘ سقراط نے بھاگنے سے انکار کردیا اورکہا ’’ میں ایتھنز والوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ انسان اپنے اصولوں کو اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھ سکتا ہے۔ سقراط، برونو، وکلف نے ’’ نہ ‘‘ کہا اور اپنی جان دے دی ۔
اور صرف ’’نہ‘‘ کہنے کی وجہ سے یہ سب صدیوں بعد آج بھی زند ہ ہیں، لیکن ان کے قاتلوں کے نام سے آج کوئی بھی واقف نہیں ہے ۔ عوام طاقت کا اصل سرچشمہ ہوتے ہیں طاقت اور فیصلے کرنے کا محور شخصیات نہیں بلکہ عوام ہوتے ہیں پاکستان کے عوام اپنا معاشرہ بدلنے کی مسلسل کوششیں کررہے ہیں، کیونکہ وہ عقل اور شعورکے مالک ہیں۔ مثالی معاشرہ قائم کرنے میں شاید کئی سال اور لگ جائیں لیکن عوام کو اپنی کامیابی پر یقین ہے کیونکہ ان پر حقیقت آشکار ہوگئی ہے کہ صرف مثالی معاشرہ قائم کرنے سے ہی مثالی انسان کا ظہور ممکن ہے۔