غزہ جنگ کی بات کرنے سے پہلے یہ بات واضح کرنا بے حد ضروری ہو چکا ہے کہ مسئلہ فلسطین کوئی سات اکتوبر سے نہیں بلکہ 1917 بالفور اعلامیہ میں تقسیم فلسطین کے بعد سے مسلسل جاری ہے۔
مسئلہ فلسطین کی دوسری تاریخ 1948 ہے کہ جب غاصب صیہونیوں کو فلسطین کی زمین تقسیم کرنے کے بعد یہاں پر ایک ناجائز ریاست اسرائیل قائم کر کے دی گئی تھی۔ اس گناہ میں امریکا، برطانیہ سمیت فرانس اور یورپی ممالک ملوث تھے۔
سات اکتوبر سے غزہ کے باسیوں نے اپنی آزادی اور حرمت کی خاطر قیام کیا ہے یعنی غاصب صیہونی فوج کے خلاف ایک ایسی زبردست کارروائی کا آغاز کیا ہے کہ جس نے آج ایک سال گزرنے کے باوجود بھی غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کو شکست کے دہانے پر کھڑا کر رکھا ہے، نہ صرف یہی بلکہ اب اسرائیل کا وجود بھی خطرے میں ہے۔
غاصب اسرائیل جو ماضی میں چند گھنٹوں میں کئی کئی فوجوں کو شکست دیتا تھا، زمینوں پر قبضہ کرتے تھا۔ دوسرے ممالک میں فوجیں اتارتا تھا۔ آج اس قدر بے بس ہوچکا ہے کہ غزہ میں ایک چھوٹے سے گروہ حماس کو شکست نہیں دے سکتا۔ صرف نسل کشی کرنے پر تلا ہوا ہے۔ حماس اور فلسطینی رہنماؤں کو قتل کرنے کے ذریعے غاصب صیہونی حکومت یہ سمجھ رہی ہے کہ کامیابی حاصل ہوگی لیکن پھر بھی ناکامی کا سامنا ہے۔
غزہ کی طرح جنوبی لبنان کی سرحد پر بھی غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کو شدید ہزیمت کا سامنا ہے۔ سات اکتوبر سے جنوبی لبنان کی سرحد سے اسرائیلی فوجیوں کیخلاف حماس کی طرح حزب اللہ کی کارروائیاں بھی جاری ہیں۔ آج ایک سو بیس کلومیٹر لمبی جنوبی لبنان کی سرحد کے ساتھ مقبوضہ شمالی فلسطین کا علاقہ چالیس کلومیٹر کی گہرائی میں صیہونی آباد کاروں کے انخلاء کے بعد غاصب اسرائیل کے لیے مصیبت بن چکا ہے۔
یہاں بھی اسرائیل نے بمباری کی ہے، عام شہریوں کو قتل کیا ہے۔ حزب اللہ کی قیادت کو نشانہ بنایا ہے اور سید حسن نصر اللہ اور سید ہاشم صفی الدین سمیت متعدد کمانڈروں کو شہید کرنے کے بعد غاصب اسرائیل سمجھ رہا تھا کہ جنگ میں کامیاب ہوجائے گا لیکن جنگ کی شدت میں مزید اضافے نے اسرائیل کیلئے درجنوں مشکلات اور مصائب میں اضافہ کردیا ہے۔
اب شمال فلسطین کے اندر ساٹھ کلومیٹرگہرائی میں موجود علاقوں بالخصوص حیفا اور جنوب حیفا میں ایک فوجی تنصیبات بھی حزب اللہ کے نشانہ پر ہیں۔ گزشتہ ایک ماہ سے اسرائیل نے ستر ہزار فوجیوں پر مشتمل تین فوجی ڈویژن کے ذریعے لبنان میں زمینی کارروائی کی کوشش کی ہے لیکن تاحال جنوبی لبنان میں داخل نہیں ہو پایا ہے۔
زمینی جنگ میں گزشتہ ایک ماہ میں اسرائیل کے سیکڑوں فوجی مارے گئے ہیں اور زخمی بھی ہوئے ہیں۔ اسرائیلی ذرائع ابلاغ کی تازہ ترین خبروں میں بتایا جا رہا ہے کہ حیفا سمیت دیگر علاقوں کے اسپتالوں میں زخمی فوجیوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اور اسپتالوں میں جگہ کم پڑچکی ہے۔ اسی طرح زمینی جنگ میں حزب اللہ نے درجنوں صیہونی فوجیوں کو بھی گرفتارکر لیا ہے جو اس وقت حزب اللہ کی قید میں ہیں۔ ابھی تک حماس کے پاس صیہونی فوجی بھی قید ہیں جن کی تعداد ایک سو ایک بتائی جا رہی ہے وہ بھی اسرائیل رہا کروانے میں ناکام ہے۔
دوسری طرف اسرائیلی ذرائع ابلاغ نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ غاصب اسرائیل میں ایک بڑی رائے عامہ نیتن یاہوکیخلاف ہے۔ حال ہی میں نیتن یاہو کو قیدیوں کے خاندانوں نے خطاب کرنے سے روک دیا اور سخت احتجاج کیا ہے۔ آئے روز مقبوضہ تل ابیب میں صیہونی آبادکار غاصب اسرائیلی حکومت اور نیتن یاہو کیخلاف احتجاج کر رہے ہیں۔غزہ اور لبنان کی موجودہ صورتحال میں اسرائیلی فوجی جہاں موت کا شکار ہو رہے ہیں اور زخمی ہو رہے ہیں وہاں ساتھ ساتھ اسرائیلی فوجیوں میں نفسیاتی مسائل بڑھنا شروع ہو چکے ہیں۔
متعدد رپورٹس میں بتایا جا رہا ہے کہ اسرائیلی فوجی خود کشیاں کر رہے ہیں۔ حال ہی میں ایک امریکی رپورٹ میں غزہ سے واپس آنیوالے ہزاروں اسرائیلی فوجیوں کی نفسیاتی اور دماغی صحت کی خرابیوں اور بعد از صدمے سے متعلق تناؤ جیسے مسائل کا انکشاف کیا ہے۔ اس تناؤ کے باعث کئی فوجیوں کی جانب سے خود کشی کی کوشش کا انکشاف کیا گیا ہے۔
امریکی سی این این نیٹ ورک کی طرف سے شائع ہونیوالی اس رپورٹ میں سات اکتوبر 2023ء کو غزہ کی پٹی پر تباہ کن جنگ شروع ہونے کے بعد سے غزہ میں جنگی صفوں سے واپسی کے اگلے دن خودکشی کرنیوالے اسرائیلی فوجیوں کی تعداد کی وضاحت نہیں کی گئی، لیکن یہ اس نے اشارہ کیا کہ ان میں سے ہزاروں شدید نفسیاتی عوارض یا بیماریوں میں مبتلا ہیں جو کہ جنگ کے دوران ان کو پہنچنے والے صدموں کا واضح ثبوت ہیں۔ نیوز نیٹ ورک نے فوجیوں کے حوالے سے کہا کہ انہوں نے ’’ خوفناکیوں کا مشاہدہ کیا جسے بیرونی دنیا پوری طرح سے نہیں سمجھ سکتی۔‘‘
رپورٹ جنگ کی جارحیت کی نادر جھلکیاں فراہم کرتی ہے، جس پر قابض وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہوکے ناقدین کا کہنا ہے کہ وہ اپنی لوگوں کو ختم کرکے جنگ ختم کرنا چاہتے ہیں۔ غزہ کیخلاف قابض اسرائیلی فوج کی طرف سے شروع کی گئی تباہی کی جنگ قابض ریاست کی طرف سے اپنے قیام کے بعد سے چھیڑی جانے والی سب سے طویل جنگ ہے۔ کچھ فوجیوں کا کہنا ہے کہ انہیں کسی اور جنگ میں جانے کا خدشہ ہے۔
قابض فوج کے ایک ڈاکٹر جس نے غزہ میں چار ماہ تک غزہ میں فوج کی مدد کی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر سی این این کو بتایا کہ ’’ہم میں سے بہت سے لوگ لبنان میں جنگ میں حصہ لینے کیلئے دوبارہ بھرتی ہونے سے بہت ڈرتے ہیں۔ ہم میں سے بہت سے لوگ اس وقت حکومت پر بھروسہ نہیں کرتے‘‘۔ ریزرو فوجی ایلران میزراحی کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ اس نے چھ ماہ تک غزہ کے اندر لڑائی میں حصہ لیا۔ جب وہ گھر واپس آیا تو بہت مختلف تھا کیونکہ وہ پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر میں مبتلا تھا۔
اسے جب دوبارہ محاذ پر بھیجنے کا حکم ملا تو اس نے خود کشی کر لی۔ اس کی والدہ نے امریکی نیٹ ورک کو بتایا کہ ’’ اس نے غزہ چھوڑ دیا، لیکن غزہ نے اسے نہیں چھوڑا۔ بعد میں اس صدمے کی وجہ سے اس کی موت واقع ہو گئی۔‘‘ دریں اثناء ریزرو سپاہی جے زیکن جو میزراحی کے دوست اور بلڈوزر چلانے میں اس کا معاون ہے نے قابض فوج کی جانب سے غزہ میں ناقابل بیان مظالم کے بارے میں بات کی ہے۔
اس نے کہا کہ وہ اب گوشت نہیں کھا سکتے، کیونکہ اس سے وہ خوفناک مناظرکی یاد دلاتا ہے۔ اس نے جو مناظر غزہ میں دیکھے ہیں وہ اسے رات کو سونے نہیں دیتے۔ زیکن نے عوامی طور پر غزہ میں اسرائیلی فوجیوں کو پہنچنے والے نفسیاتی صدمے کے بارے میں بات کی جو اس نے گزشتہ جون میں اسرائیلی کنیسٹ کے سامنے دی تھی۔ اس نے اعتراف کیا کہ فوجیوں نے کئی مواقعے پرغزہ کے شہریوں پر ان کی لاشوں اور زندوں کو روند کر بھاگنے کی کوشش کی اور اپنی جان بچائی۔