کراچی سب کی ماں ہے، سب کو پالتی ہے اس میں کوئی شک نہیں، پر لاہور کی بھی کیا بات ہے، قسم سے نہ پوچھیں۔ اس قدرکی صفائی ہے وہاں،آپ کو ادھر گندگی دیکھنے کو نہیں ملے گی۔ وہاں انھوں نے ایسی شوں شاں گاڑیاں نکالی ہیں ناں کہ نہ پوچھیں۔ انھوں نے ریل کی لائنوں کے اوپر سے الگ سے ان کے لیے لائنیں بنائی ہیں اور چالیس روپے میں۔۔۔۔ صرف چالیس روپے میں آپ پورے لاہور میں گھوم سکتے ہو۔‘‘
اس کی نیم وا آنکھوں میں نہ اداسی تھی نہ غم، بس ایک سکون سا چھلک رہا تھا، پتا نہیں کیوں اور پھر وہ اپنے مقررہ مقام پر اتر کر چلتی چلی گئی۔
’’ہر روز اپنے شوہر سے پٹتی ہے۔‘‘
’’کیوں۔۔۔اس کا شوہر اسے کیوں پیٹتا ہے؟‘‘
’’نشہ کرتی ہے۔‘‘ جواب واضح تھا، پر جیسے کان سننے سے عاری تھے، عجیب بے یقینی تھی۔
’’اس لیے پٹتی ہے کہ نشہ کرتی ہے۔‘‘
’’ نشہ تو اس کا شوہر بھی کرتا ہے، اس کی ساری برادری جو اِدھر اُدھر نظر آتے ہیں، سب نشہ کرتے ہیں۔‘‘
’’کس چیز کا نشہ کرتے ہیں؟‘‘
’’چرس۔۔۔‘‘
’’چرس کہاں سے آتی ہے ان کے پاس؟‘‘ جواب میں مسکراہٹ۔
اکتوبر کا مہینہ 2024، سیکیورٹی فورسز کے اہل کار پاک افغان بارڈر طور خم ٹرمینل پر ایک چھوٹے بچے کو دیکھ کر شک میں مبتلا ہوتے ہیں اور اس کی تلاشی لیتے ہیں۔ ایک تکلیف دہ انکشاف ہوتا ہے، بچے کے پاس منشیات کے پیکٹ تھے جس میں ہیروئن اورکیفین موجود تھی۔ مزید کارروائی کے لیے بچے کو اے این ایف حکام کے حوالے کردیا گیا، لیکن یہ دھندا کیا اس ایک بچے کو پکڑنے کے بعد بند ہو سکتا ہے؟
پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق 70 لاکھ سے زائد افراد نشہ کی لت میں مبتلا ہیں اور یہاں چوالیس ٹن ہیروئن استعمال کی جاتی ہے۔ یہ مقدار امریکا میں استعمال ہونے والی ہیروئن سے تین گنا زیادہ ہے۔ پاکستان میں منشیات کی اسمگلنگ کی خبریں ملتی رہتی ہیں۔ اس مہینے میں اسلام آباد اور پشاور ایئرپورٹس پر منشیات کی اسمگلنگ کو ناکام بنایا گیا، جب ملزمان کو 2 کلو سے زائد آئس کے ساتھ گرفتارکیا تھا، یہ آئس انھوں نے بیگ کی تہوں میں چھپا رکھی تھی۔ جب کہ دوسرے ملزم کو مٹھائی کے اندر آئس چھپانے پر پکڑا تھا۔
افغانستان پوست پیدا کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ گزشتہ برسوں میں اس کی پیداوار اور برآمدات میں اضافہ ہوا تھا۔ افغانستان میں روزگار اور آمدنی کا ایک اہم ذریعہ افیون کو مانا جاتا تھا۔ لاکھوں کسانوں کی زندگی کا دار و مدار اسی پوست کی کاشت سے جڑا ہے۔ طالبان کا افغانستان پر کنٹرول ہوا تو معاشی اور معاشرتی طور پر ایک افراتفری کی سی صورت حال پیدا ہوگئی تھی۔
بین الاقوامی امداد طالبان کی حکومت کو قبول کرنے سے انکاری تھی، یوں یہاں سے بھی دَر بند تھا۔ سرکاری اور پرائیویٹ ملازمتیں بنا تنخواہوں کے کیسے چل سکتی تھیں۔ ایسے میں طالبان نے پوست کی کاشت پر پابندی عائد کر کے غریب کسانوں کے لیے رہی سہی امید بھی ختم کردی تھی۔ یہ ملک دنیا بھر میں منشیات کا 80 فی صد پیدا کرتا ہے۔ 1994 سے 1995 تک طالبان نے افیون کی تجارت پر پابندی عائد کردی تھی لیکن 2001 میں جب وہ دوبارہ اقتدار میں آئے تو یہ پابندیاں ختم کردی گئی تھیں۔ کیوں کہ امریکا نے عالمی برادری کے ساتھ مل کر طالبان کے خلاف کارروائی کا آغازکر دیا تھا، یوں افیون کی کاشت اور اس کی فروخت میں اضافہ ہوگیا تھا۔
افغانستان کی زمین پوست کی پیداوار کے حوالے سے سنہری ہے، یہ بھی شاید وہاں کے لوگوں کے لیے ایک آزمائش ہے۔ نشہ آور ادویات ہوں یا کسی اور انداز سے نشہ اسلام میں حرام ہے اور اس کے علاوہ اور کوئی دوسری بات نہیں۔ ایک حرام شے کو یہ سوچ سمجھ کر پروان چڑھانا کہ اس کی پیداوار سے ایک کسان کو دگنا تگنا منافع حاصل ہوگا۔ ہو سکتا ہے کہ یہ منافع اس کی غربت دورکرنے میں ناکافی ہے، لیکن اس کی خرید و فروخت انسانی صحت کے لیے زہر آلود نتائج لے کر ابھرتے ہیں جو نسلوں کو برباد کردیتے ہیں۔
’’طالبان نہیں چاہتے کہ ملک میں کسی طرح کی منشیات پیدا کی جائیں، کسانوں کو افیون کی بجائے دیگر فصلوں کی طرف راغب کرنے کے لیے بین الاقوامی مدد کی اشد ضرورت ہے۔‘‘
تین برس پہلے طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کے اس بیان کی روشنی میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ زہر آلود اشیا کی پیداوار کی روک تھام کرنی چاہیے تھی، پر شاید حالیہ نتائج دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ایسا نہیں کیا گیا۔ پاکستان اور افغانستان کی سرحدیں ملی ہوئی ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب لوگ یہاں سے وہاں پیدل سفرکر لیا کرتے تھے۔ زمانہ بدل گیا، لوگوں کے رویے بدل گئے، تعصب ابھر کر سامنے آگیا اور دل دور ہوتے گئے۔
پہلے دونوں ہاتھ بھرے ہوتے تھے، پھر ایک ہاتھ کمزور ہوا تو دوسرے ہاتھ نے اسے سہارا دیا، یقینا بیچ میں درد ناک مقامات بھی آئے پر ماضی کے محبت بھرے اوراق بھاڑ کر الگ نہیں کیے جا سکتے۔ کہانی اب یوں ہے کہ ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ سے نوچ کر کھانے کی کوشش میں لگا ہے۔ ہمارا اپنا دامن بھی داغ دار ہے تو کسی اور کو کیا کہیے، نہ مذہبی رواداری ہے نہ انسانی ہمدردی کا پاٹ، نہ اخلاقیات ہے۔ بس لگے ہیں لوٹنے میں، اپنے بھی اور پرائے بھی۔ کراچی کے پہاڑ اٹے پڑے ہیں اور صدائیں ابھرتی ہیں کہ کراچی تو ماں ہے، سب کو پالتا ہے، پر آزمائش کٹھن ہوجاتی ہے جب خلوص مفقود ہو جاتا ہے، بس ڈر ہے کہ آزمائش سزا نہ بن جائے کہ ابھی غزہ کو ہماری مدد کی ضرورت ہے۔