کون ہوگا وائٹ ہاؤس کا نیا رہائشی؟ اس سوال کا جواب 5 نومبر 2024 کو مل جائے گا۔ امریکا میں سجنے والے صدارتی انتخابات کے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ اور کملا ہیرس ہیں۔
امریکا کی تاریخ کی پہلی خاتون نائب صدر کملا ہیرس کا مقابلہ ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ہے۔ کملا کی والدہ شیاملن گوپالن انڈین نژاد تھیں اور وہ انڈیا کے جنوبی شہر چنائی میں پیدا ہوئی تھیں، وہ پہلی سیاہ فام شخصیت بھی ہیں جو امریکا کے نائب صدر کے عہدے پر فائز رہی ہیں اور اب صدارتی انتخابات کے حوالے سے نامزد امیدوار ہیں۔خیال کیا جا رہا ہے کہ اگر کملا ہیرس امریکی صدر منتخب ہو جاتی ہیں تو امریکا اور بھارت کے مراسم مضبوط ہو جائیں گے، جس کا اثر پاکستان پر پڑے ہوگا۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ماضی میں پاکستان کے تعلقات مناسب رہے ہیں، تاہم اب پاکستان کا سیاسی منظر نامہ بدل چکا ہے۔ اس تناظر میں گمان کیا جا رہا ہے کہ اگر ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کے صدر کا حلف اٹھاتے ہیں تو یہ صورتحال بھی پاکستان کے لیے مناسب نہیں لگ رہی ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ خارجہ پالیسی، اقتصادی معاملات اور علاقائی سیکیورٹی کے بارے میں امریکا کی نئی قیادت کی ترجیحات اور پالیسیوں کا براہ راست اثر پاکستان پر پڑ سکتا ہے۔مبصرین کے مطابق امریکا میں کون سی پارٹی برسر اقتدار آتی ہے، اس کے برعکس مثبت ڈپلومیسی پر زور دینا اہم ہوگا، لیکن خطے میں تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کے پیش نظر کچھ کا کہنا ہے کہ پاکستان نے امریکا کی بجائے دیگر معاشی طاقتوں کی جانب دیکھنا شروع کردیا ہے۔
سابق سفارت کار ملیحہ لودھی کے مطابق اس وقت امریکا، پاکستان کی خارجہ ترجیحات میں نمبر ون نہیں ہے، پاکستان کی ترجیحات میں چین نمبر ون ہے، امریکا کا جہاں تک تعلق ہے پاکستان چاہتا ہے کہ تعلقات معمول پر آئیں، نارمل ہوں اور بہتری کی جانب جائیں، اس وقت میں سمجھتی ہوں کہ تعلقات انفلیکشن پوائنٹ پر ہیں یعنی کہ ان کو ری ڈیفائن کرنے کی ضرورت ہے، انہوں نے کہا کہ اب دیکھنا یہ ہے کہ جو نئی انتظامیہ آتی ہے امریکا میں کیا اس کو دلچسپی ہوگی؟ یا وہ پاکستان کو صرف چین کے لینز سے دیکھے گی؟
ان کا خیال ہے کہ اگر وہ حال کی طرح صرف چین کے لینز سے دیکھے گی تو پھر جو تعلقات کے چانسز ہیں وہ اتنے زیادہ نہیں ہوں گے۔ ابھی چند روز قبل عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ نے پاکستانی معیشت کو سہارا دینے کے لیے سات ارب ڈالر کے نئے پیکیج کی منظوری دی ہے، اس نئے قرض پروگرام کی منظوری کے بعد یہ تاثر پیدا ہوا تھا کہ شاید پاکستان کی پالیسی امریکی اثر کے تابع نہیں رہی ہے، تاہم ملیحہ لودھی اس سوچ اور خیالات کو مفروضے قرار دیتی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کوئی ایسی چیز نہیں کرے گا، جس سے یہ تاثر ملے کہ وہ کسی قسم کے اینٹی چائنا یو ایس اسپانسر کولیشن کا حصہ بن رہا ہے تو پاکستان کے چوائسز کلیئر ہیں۔ماہرین معاشیات کی رائے ہے کہ امریکا سمیت مغربی ممالک، چین کی تیزی سے ترقی کرتی معیشت سے تشویش میں مبتلا ہیں، اسی لیے امریکا کو پاکستان کے معاشی اور دفاعی شعبوں میں چین پر انحصار پر تشویش ہے۔ایس ڈی پی آئی (Sustainable Development Policy Institute) کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر، ڈاکٹر ساجد امین جاوید کا کہنا ہے کہ دنیا اب ہمیں بہت زیادہ چین کے حوالے سے دیکھتی ہے، آپ یورپ میں بات کر لیں، امریکا میں بات کر لیں پاکستان کو جو بہت زیادہ دیکھا جاتا ہے، وہ چین کے حوالے سے زیادہ تر دیکھا جاتا ہے۔
ڈاکٹر ساجد امین کا کہنا ہے کہ اس کے نتیجے میں ظاہر ہے مسائل بھی سامنے آتے ہیں، اگر کوئی ایسی حکومت آجاتی ہے جو کہ چین کے حوالے سے بہت زیادہ جارحانہ ہے تو وہ جارحیت کسی نہ کسی حد تک پاکستان پر بھی منتقل ہوتی ہے، یہ دلچسپ ہو گا کہ امریکا میں کون سی پارٹی حکومت میں آتی ہے، کیونکہ پاکستان کے لیے امریکا اب بھی کئی وجوہات کی بنا پر اہم ہے۔
پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر امریکا ہے لیکن اس سے ہٹ کر آپ کے جو ملٹی لیٹرل تعلقات ہیں چاہے وہ ورلڈ بینک ہے، چاہے وہ آئی ایم ایف ہے، اس کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ کیا آپ اور امریکا ایک پیج پر ہیں؟ آپ کی اپنی پالیسیز اپنی جگہ لیکن ایک تو امریکا کا ووٹ بہت بھاری ہے چاہے وہ آئی ایم ایف ہے یا باقی فیصلہ سازی والے فورم ہیں۔معروف تجزیہ کار ڈاکٹر رسول بخش رئیس کے بقول اگست 2021 میں افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد سے پاکستان کے اندر دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے جس پر پاکستان کو کافی تشویش ہے، خطے میں بدامنی اور دہشت گردی کے واقعات پاکستان اور امریکا کو قریب لانے کا سبب بن سکتے ہیں۔
ڈاکٹر رسول بخش رئیس کا کہنا ہے کہ ’’ یہ ایک مشترکہ مفاد ہے امریکا کا، مغرب کا، یورپ کا، پاکستان کا بلکہ ساری دنیا کا کہ افغانستان میں کوئی ایسا خلا نہیں پیدا ہوجائے کہ القاعدہ، داعش اور اس قسم کی دہشت گرد تنظیمیں وہاں پر اپنے قدم نہ جما لیں۔ انہوں نے کہا کہ وہاں سے خبریں اچھی نہیں آ رہیں، اس وقت سب سے بڑا معاملہ ٹی ٹی پی کا ہے جو افغانستان کے اندر پناہ لے کر پاکستان کے اندر حملے کرتی ہے جب بھی اس قسم کے حملے افغانستان کی سر زمین سے پاکستان میں ہوئے ہیں تو امریکا نے ہمیشہ پاکستان کی مدد کی ہے اور ایسے بیانات دیے ہیں جس میں ہماری حمایت اور دہشت گردوں کی مذمت شامل ہے، اس لحاظ سے اگر افغانستان کے اندر خطرات بڑھتے ہیں تو ہمارا تعاون بھی بڑھے گا۔ مبصرین کے مطابق چونکہ عالمی تعلقات میں نہ تو دوستیاں مستقل ہوتی ہیں اور نہ ہی دشمنی، اس لیے امریکا میں جو بھی پارٹی اقتدار میں آئے، پاکستان کو اپنے تعلقات بہتر بنانے اور دیگر طاقتوں کے ساتھ تعلقات میں توازن پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔