پاک روس تعلقات کی نئی جہت…مخدوم ارشد حسین

اپریل 1981 میں سوویت یونین نے زرعی ٹریکٹر بنانے کیلئے پاکستان کو 20 ملین امریکی ڈالر کی امداد دی


مخدوم ارشد حسین November 03, 2024

کل کے سوویت یونین اور آج کے روس اور پاکستان کے مابین تعلقات ہمیشہ سے نشیب و فراز کا شکار رہے ہیں۔ روس اور پاکستان کے درمیان گزشتہ کئی دہائیوں سے سرد مہری کا شکار تعلقات کی ایک بڑی وجہ افغان جنگ اور دوسرا پاکستان کی امریکا سے ریاستی قربت تھی لیکن حالات نے اس وقت نازک صورت حال اختیار کی جب جون 2015 میں امریکا اور بھارت نے دس سالہ دفاعی معاہدے پر دستخط کیے اور حالات نے پلٹا اس وقت کھایا جب 2016 کے آغاز میں امریکی کانگریس نے پاکستان کو ایف۔16 جنگی طیاروں کی فروخت روکنے کی قرارداد پاس کی اور یہ جواز پیش کیا کہ امریکا کو تشویش ہے کہ پاکستان یہ جنگی طیارے بھارت کے خلاف استعمال کر سکتا ہے۔

اس موقع پر پاکستان نے بہترین حکمت عملی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خارجہ پالیسی کا رخ علاقائی طاقتوں بالخصوص روس کی جانب کر دیا۔ پاکستان اور روس کے تعلقات میں اتار چڑھائو آتے رہے ہیں، جہاں ماضی میں تعلقات پیچیدہ رہے ہیں تو وہاں دونوں ممالک نے خوشحال سفارتی دور کا تجربہ بھی کیا ہوا ہے۔ 1981 میں گڈو تھرمل پاور اسٹیشن کے قیام کیلئے سوویت یونین نے نہ صرف مالی و تکنیکی امداد دی بلکہ ایک نیوکلیئر پاور پلانٹ کے قیام کی پیشکش کرکے پاکستان کو حیران کردیا۔

اپریل 1981 میں سوویت یونین نے زرعی ٹریکٹر بنانے کیلئے پاکستان کو 20 ملین امریکی ڈالر کی امداد دی۔ اسی سال نومبر میں سوویت سفیر نے برآمدی مصنوعات والی صنعتوں کے قیام کیلئے پاکستان کی مالی و تکنیکی امداد کی حامی بھری۔1983 میں ملتان میں بھاری پانی کے ریکٹر کی تنصیب کیلئے سوویت یونین نے ساز و سامان مہیا کیا اور پاکستانی ماہرِ طبعیات ڈاکٹر عبدالسلام کو طلائی تمغے سے نوازا۔

15 جنوری 1985 کو سوویت نمائندوں کی موجودگی میں صدرِ پاکستان جنرل محمد ضیا الحق نے سوویت سرمائے سے مکمل ہونیوالی پاکستان اسٹیل ملزکا افتتاح کیا۔ پاکستان اسٹیل ملز کراچی کو آج بھی پاک روس تعلقات کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ 1991 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پہلی بار روس نے پاکستان کی جنوبی ایشیا کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک کرنے کی قرارداد کی مخالفت نہیں کی تھی۔

اس کے علاوہ 1993 میں جموں وکشمیر کی تحصیل بجبھرا میں بھارتی افواج کے ہاتھوں نہتے کشمیریوں کے قتل عام پر روس نے گہری تشویش کا اظہارکیا تھا جس کے باعث بھارتی حکام کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔2003 میں سابق صدر پاکستان جنرل پرویز مشرف نے روسی صدرکی دعوت پر روس کا ایک کامیاب سرکاری دورہ کیا تھا، جس میں دو طرفہ باہمی دلچسپی کے امور پرکامیاب بات چیت ہوئی اور بہت سے معاشی و تجارتی معاہدوں اور یاد داشتوں پر دستخط بھی ہوئے تھے۔

پاکستان اور روس کے ایک دوسرے کے ساتھ وسیع تر مشترکہ سیاسی و عسکری مفادات جڑے ہوئے ہیں۔ یوکرین کے مسئلے کی وجہ سے روس کے مغرب سے تعلقات میں بگاڑ کی وجہ سے اسے خطے میں نئے دوستوں کی ضرورت ہے جبکہ پاکستان کو خطے میں بڑھتی ہوئی بھارتی جارحیت کو روکنے کیلئے نئی بین الاقوامی دوستیاں بڑھانے کی ضرورت ہے۔

ویسے بھی روس دنیا کی ایک قابل ذکر قوت ہے، علاقائی ہمسائیگی کے ناتے پاکستان اور روس میں پر اعتماد اور مضبوط تعلقات معاشی ترقی کیلئے بھی ضروری ہیں۔ ماسکو ایسے ممالک یا علاقائی معاملات میں دلچسپی کا اظہار نہیں کرتا، جس میں اس کے مفادات شامل نہ ہوں۔ نیز بین الاقوامی برادری میں پاکستان، روس اور چین کی صورت میں ایک نیا بلاک بنتا دکھائی دے رہا ہے جس کی دو اہم وجوہات ہیں۔ ایک تو بحر ہند اور بحیرہ عرب کے گرم پانیوں تک براہ راست رسائی اور دوسرے روس کی وسطی ایشیا سے ہوتے ہوئے واخان بارڈرکے ذریعے افغانستان تک رسائی ہے۔

اس کے علاوہ اگر روس کو اکنامک کوریڈور سے منسلک کردیا جائے تو پاکستان کو وسطی ایشیائی ممالک اور روسی منڈیوں تک براہ راست رسائی ملنا ممکن ہے۔ اس کے علاوہ امریکا کی جانب سے آئے روز پاکستان کی عسکری امداد روک دی جاتی ہے یا کبھی عسکری تجارتی معاہدے معطل کردیے جاتے ہیں، تو اس صورت میں روس کو عسکری ٹیکنالوجی کے حوالے سے مغرب کے متبادل کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ روس اور پاکستان کے درمیان حالیہ تعمیری بات چیت اس بات کا اشارہ ہے کہ ماسکو اس خطے میں اپنا مقام مضبوط کرنے کیلئے پاکستان کو ایک اہم شراکت دار سمجھتا ہے۔

دونوں ممالک کے تعلقات کا مرکز ان کے باہمی اقتصادی اور اسٹرٹیجک مفادات ہیں، دونوں ممالک کی جانب سے تواترکیساتھ تجارت ’’ توانائی، سرمایہ کاری، زراعت و دیگر شعبوں میں کثیر جہتی تعاون کو مضبوط کرنے اور مزید وسعت دینے کے عزم کا اعادہ خوش آیند ہے پاکستان اس وقت توانائی کے شدید بحران سے دوچار ہے جبکہ صنعتی و معاشی ترقی کیلئے توانائی کے وسائل میں اضافہ ناگزیر ہے۔

روس اس سلسلے میں ایک بہترین آپشن ثابت ہوسکتا ہے۔ماضی میں پاکستان کا سخت حریف سمجھا جانیوالا روس اگر اب اسلام آباد کیساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنانے کا خواہاں ہے تو ہمیں اس موقع کو بیرونی دبائو میں آکر ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ روس، مشین سازی، ادویات اور آئی ٹی سمیت تمام اہم صنعتوں میں ترقی یافتہ ممالک کے ہم پلہ ہے،

لٰہذا دونوں ممالک متعدد شعبوں میں ایک دوسرے استفادہ کرسکتے ہیں۔ پاکستان اور روس میں انسداد دہشتگردی اور خطے میں اقتصادی تعاون اور تجارت کو فروغ دینے کے حوالے سے افغانستان سمیت کئی علاقائی معاملات پر مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے اور یہ ہم آہنگی دونوں ممالک میں بہتر تعلقات کی ایک ٹھوس بنیاد ثابت ہوسکتی ہے۔ سرد جنگ ختم ہوگئی ہے اور اب ہمارے روس سے تعلقات بہتر ہونے چاہئیں۔

ہمیں اس کی پرواہ نہیں کرنا چاہیے کہ نئی دہلی اور واشنگٹن میں اس کا کیا رد عمل ہوگا۔ ہر ملک کو یہ اختیار حاصل ہے کہ جس طرح کی پالیسی اپنے لیے بہتر سمجھے، اسے اپنائے۔ روس اور پاکستان کے درمیان مختلف شعبوں میں تعاون کا سلسلہ شروع ہونا چاہیے تاکہ خطے میں استحکام آسکے۔

چین ایک بڑی طاقت بن کر ابھر رہا ہے اور روس بھی بڑی طاقتوں میں سے ایک ہے جبکہ پاکستان ایک ابھرتی ہوئی معیشت ہے لیکن یہ تینوں تن تنہا اس عدم توازن کے خلا کو پر نہیں کرسکتے، اگرچہ تینوں مل کر کام کریں اور ایک بلاک کی شکل اختیارکر لیں تو یہ خلا پر ہوسکتا ہے اور یہ خطے میں امن قائم رکھنے کیلئے نہایت مفید ثابت ہوسکتا ہے۔ گزشتہ سال دونوں ممالک کراچی سے سینٹ پیٹرز برگ بحری تجارت کا سنگ میل بھی عبورکرچکے ہیں جبکہ روس نے تاجکستان، ازبکستان اور افغانستان کے راستے پاکستان تک زمینی رابطہ استوارکرنے کا بھی عندیہ دے رکھا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں