سعودی عرب کے حالیہ دورے میں شہباز شریف اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے مصنوعی ذہانت کی حقیقت اور اہمیت کو سمجھتے ہوئے دونوں ممالک کی ترقی اور خوشحالی کو مصنوعی ذہانت کو جوڑتے ہوئے آگے بڑھنے کا تہیہ کیا ہے۔
ماضی میں سعودی عرب کا بیانیہ کیا تھا ہم سب اس سے بخوبی واقف ہیں لیکن رواں دورکے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے سعودی عرب بڑی تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم ان تقاضوں پر پورا اترنے کی کو شش کر رہے ہیں؟ بین الاقوامی مفادات کے تناظر میں خصوصاً مسئلہ فلسطین کے حوالے سے اسلامی ممالک میں سب سے جارحانہ کردار ایران نے ادا کیا ہے۔
ایران آج ایک تھیوکریٹک ریاست ہے۔ سعودی عرب بھی جمہوری ملک نہیں، وہاں انسانی حقوق کا ایشو عالمی معیار کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا لیکن آہستہ آہستہ وہ ان حقوق کو تسلیم کررہا ہے جب کہ اس طرح کی کوئی جنبش ہمیں ایرانی حکومت میں نظر نہیں آرہی ہے اور یہی حال افغانستان کا ہے۔شاید اس سے بھی بڑھ کر۔ کسی ملک کا عالمی معاشی اصولوں سے انکار، مسلمہ جمہوری اصولوں کو آئین میں شامل کرنے سے انکار، سماج رنگا رنگی سے انکار، ملک میں بسنے والی تمام نسلی، مذہبی، علاقائی، ثقافتی اور لسانی اکائیوں کو برابری کی بنیاد پر ریاست کے اسٹیک ہولڈرز میں شامل کرنے سے انکارکرنا۔
ان کے وسائل پر ایک مخصوص گروہ کو قابض کرانا اور اقتدار پر مطلق العنانیت کے اصول پر قابض ہونا ، عورتوں کو برابر کا شہری ماننے سے انکار کرنا،تھیوکریسی، صیہونیت ، فاشزم اور نازیت کی مثالیں ہیں۔ ایسی ریاست اور ان کے حکمرانوں کا اقتدار زیادہ دیر برقرار نہیں رہتا ۔ یہ ممالک تیزی سے بدلتی دنیا کے لوازمات کو محسوس نہیں کر رہے ہیں۔
مصنوعی ذہانت نے اس بات کو چیلنج کردیا ہے کہ 2030 چین، امریکا کی معیشت کو دوسرے نمبر پر لے آئے گا اور چین اپنی معیشت کو پہلے نمبر پر پہنچا دے گا۔ جب کہ اس وقت امریکا کی معیشت دنیا کی مجموعی پیداوار کا 26% ہے جو کل تک25% تھی اور چین کی معیشت دنیا کی مجموعی پیداوار کا 17% ہے۔ آیندہ دس یا بیس سال کے عرصے میں چین ، امریکا کی معیشت کو مات دینے جا رہا ہے، ایسا نہیں ہونے جا رہا ہے۔
اس لیے کہ امریکا کی مجموعی پیداوار بڑھانے میں مصنوعی ذہانت کا کلیدی کردار ہے، دنیا اس آرٹ میں امریکا سے بہت پیچھے ہے۔ صرف دو ہی ملک ایسے ہیں جو امریکا کے ساتھ اس دوڑ میں شامل ہیں اور وہ ہیں چین یا پھر ہندوستان۔ پاکستان کے لیے اس ضمن میں ایک بہت بڑا موقع ہے، ایک چانس ہے کہ پچھلے دو برسوں میں ہم نے انفارمیشن ٹیکنالوجی میں دو سو فیصد سے زیادہ اپنی ایکسپورٹ بڑھائی ہے۔
انفرا اسٹرکچر کے لحاظ سے بھی ہم بہت بہتر ہیں، لیکن ہمارا بیانیہ ہماری ترقی کے منافی ہے۔ ہمارے معاشرے میں انتہا پرستی کے بیج بوئے گئے۔ اقتدار پرستوں کا ایک مخصوص گروہ مسلسل جنگی جنون کا بیانیہ پروان چڑھاتا رہا۔ یہ ریاست ایک ایسی ایجنٹ اور مفت خوراشرافیہ کے مفادات کی ترجمان بن گئی جن کا ترقی کے آفاقی اصولوں سے کوئی واسطہ ہی نہ تھا۔ یہاں اجرتی قاتلوں کا گینگ رکھنے والے ، اغوا برائے تاوان کے مجرموں کو پناہ دینے والے، سرکاری زمینوں پر قبضہ کرنے والے، سرکاری بینکوں کا قرضہ ہڑپ کرنے والے اور ان کے پشت پناہ، ایجنٹ سرکاری افسر ایک کارٹل کی صورت میں پاکستان کا خون چوس رہے ہیں۔ انھی میں کچھ کاروباری ہیں، کچھ سیاسی و مذہبی قائدین ہیں، یہی قانون ہیں بلکہ یہی ریاست ہیں۔
برطانیہ کا مشہور جریدہ The Economist اپنی تازہ اشاعت میں یہ لکھتا ہے کہ ’’ امریکا کی معیشت دنیا کی سب سے بڑی اور مضبوط معیشت ہے اور مصنوعی ذہانت کے نتیجے میں مزید تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے مگر امریکا کی سیاست میں بدترین بحران موجود ہے جو کسی وقت بھی امریکا کی معیشت کو خطرے میں لاسکتا ہے۔‘‘ دوسری طرف BRICS کا اتحاد بھی ایک جداگانہ طاقت بن کر ابھر رہا ہے۔ اس اتحاد میں ہندوستان نے اپنی رضامندی ظاہر کی ہے کہ پاکستان کو BRICS میں شمولیت دی جائے۔
پاکستان کے لیے اس وقت انتہائی اہم ٹاسک یہ ہے پاکستان اپنی معیشت کا کھویا ہوا وقار دوبارہ حاصل کرے۔ اس ٹاسک کے لیے پرانی حقیقتوں کو چھوڑ کے نئی پالیسیاں ترتیب دینا ہونگی۔ ہمارے لیے نئی ٹیکنالوجی یا مصنوعی ذہانت تب ہی کارآمد ہونگی جب ہم اپنے مجموعی بیانیے کی طرف رجوع کرینگے اور اس میں وہ تبدیلیاں لائینگے جو ہماری ترقی کی راہوں کو ہموار کرسکے، جس کا اعادہ دونوں رہنماؤں نے اپنی حالیہ ملاقات میں کیا ہے۔
اس وقت مصنوعی ذہانت اپنی First Generation سے گزر رہی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ یہ مزید درستگی کی طرف جائے گی۔ ٹیکنالوجی میں پہلے جو تبدیلیاں دس برس میں آتی تھیں، اب وہ دو برس میں ہو رہی ہیں، وہ ہی تبدیلیاں اب مصنوعی ذہانت کی وجہ سے ہر چھ مہینے میں آئیں گی۔
ہم Semi Conductor کے زمانے میں رہ رہے ہیں۔1972میں Intel کا بنایا ہوا Semi Conductor جس کا رقبہ، انگلی کے اوپر والے حصے سے بھی کم یا پھر یوں کہیے کہ ایک اسکوائر ملی میٹر تھی اس میں 200 Transistors آسکتے تھے اور اب اس اراضی کے SemiConductor میں یعنی پندرہ کروڑ 150 Million Transistors پھیلے ہوئے ہیں جس سے انفارمیشن بہت تیز ہوگئی ہے۔ اس دور میں انفارمیشن ایک بہت بڑی حقیقت بن چکی ہے جس نے ارتقاء کی منازل کو آسان بنا دیا ہے۔ سوشل میڈیا اس انفارمیشن ٹیکنالوجی کا چھوٹا سا پلیٹ فارم ہے، چاہے منفی ہی ہو مگر ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے مثبت ہوتا جائے گا۔
ہمارے وجود کے لیے یہ Semi Conductor ایک بہت بڑی حقیقت بن چکا ہے۔ اس پورے سسٹم کی گردش میں چاہے وہ موبائل فون ہوں یا پھر گاڑی اس Semi Conductor کے بغیر متحرک ہونا ممکن نہیں۔ اسی انقلاب نے مصنوعی ذہانت کے دروازے کھولے ہیں۔ کل یہ کام Intel کی چپ کرتی تھی جب IBM اپنا سافٹ ویئر چلاتا تھا۔ پھر 1980میں اس چپ میں بل گیٹس کا مائیکرو سافٹ آیا۔ پھر سن 2000 میں dot com کا انقلاب آیا اور ویب سائٹ کی ایجاد ہوئی۔
دنیا میں اب دنیا میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی دس بڑی کمپنیاں ہیں جن میں سات وہ ہیں جو Semi Conductor بناتی ہیں۔ اتنی تیز ترقی نے مصنوعی ذہانت کو حقیقت بنا دیا ہے اور آنیوالے سال میں مصنوعی ذہانت میں انقلابی تبدیلی آرہی ہے، ایسی تبدیلی جو تمام نظریات کو توڑتے ہو ئے آگے بڑھ رہی ہے اور یوں گلوبلائزیشن کا نظریہ مضبوط ہوگا، یہ دنیا سکڑ جائے گی۔
سرحدیں تحلیل ہوجائیں گی، ایک کرنسی، ایک قانون اور ایک آئین ہوگا۔ اس تناظر میں ہمیں اپنے خطے کو پر امن بنانا ہوگا، آپس میں تجارتی تعلقات استوار کرنے ہونگے، ایک دوسرے کے لیے اپنی سرحدیں کھولنی ہوں گی۔ اس تیزی سے بدلتی دنیا کے آگے ہم رکاوٹیں نہیں ڈال سکتے بلکہ آہستہ آہستہ ان تبدیلیوں کو اپنانا ہوگا، جو ملک مصنوعی ذہانت کی اہمیت کو مانتے ہوئے Digital Infrastructure کا جال بچھائے گا وہ اپنی ساخت اور حیثیت کو برقرار رکھ سکے گا۔
اس حوالے سے پاکستان یہ صلاحیت پیدا کرسکتا ہے کہ آیندہ دس برسوں میں سو ارب ڈالر زرمبادلہ کی حیثیت میں کما سکتا ہے لیکن ہماری سیاست اور اس کے خدوخال انتہائی تباہ کن ہیں۔ ہم اس پر قابو پانے کی کوشش بھی کر رہے ہیں، لیکن یہ کام اتنا آسان نہیں۔
ہمارے لیے یہ بات بڑی حوصلہ افزا ہے کہ ہم ایران اور افغانستان کی طرح Theocratic نہیں۔ ہمارے پاس بین الاقوامی طرز کا آئین ہے۔ ہمارے قانون کی جڑیں اتنی ہی مضبوط ہیں جتنی ہندوستان کی۔ ہم دونوں نے ہی G I Act, 1947 سے جنم لیا۔ ہمارے قوانین اور آئین کی بنیادیں امریکا اور برطانیہ سے ملتی ہیں۔
ہمارے ملک و قوم پر اس سوچ کا غلبہ ہے جو افغانستان پر قابض ہے ، وہی سوچ ہم پر بھی حملہ آور ہوئی۔ ہم نے بھی عورتوں کے حقوق غصب کیے۔ اب ہمیں بھی بہت تیزی سے بدلتی اس دنیا بہت تیزی سے ایک معیاری ریاست بننا ہے جو بین الاقوامی تقاضوں پر پورا اترے جہاں مصنوعی ذہانت بہ آسانی اپنی بنیادیں بنا سکے۔