موسمیاتی تبدیلیاں اور ان کی وجہ سے بڑھتا ہوا درجۂ حرارت ایک عالم گیر مسئلہ بن چکا ہے۔ موسموں کی بدلتے تیور، اوقات اور شدت نے قدرت کے نظام میں بڑی تبدیلیاں کر ڈالی ہیں جن موسموں میں خوش گواری کا احساس ہوا کرتا تھا اب وہ موسم اذیت کا احساس دلانے لگے ہیں۔
وہ ساون اور بھادوں جن کا ہماری ثقافت اور ادب میں ایک شان دار مقام تھا ان موسموں پر گیت لکھے گئے، انہیں سہانا موسم قرار دیا گیا، ان مہینوں میں اب موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کی مہربانی سے بے تحاشا اور ناقابل برداشت حبس اور گرمی پڑتی ہے اور درخت گرمی کی شدت سے جھلس جاتے ہیں۔
اگر چہ ماحولیاتی تبدیلی کے اسباب میں پاکستان کا حصہ بہت کم ہے مگر ان کے منفی اثرات پاکستان کے حصے میں زیادہ آئے ہیں۔2022 میں آنے والے بڑے سیلاب نے ملک بھر میں جو تباہی پھیری ہے ہمارا ملک ابھی تک اس سانحے یا صدمے سے باہر نہیں نکل سکا۔ بالخصوص سرائیکی وسیب اس صورت حال سے شدید متاثر ہوا ہے۔ سرائیکی وسیب جسے عرف عام میں سرکاری اصطلاح کے طور پر جنوبی پنجاب بھی کہا جاتا ہے۔ دراصل یہ دونوں نام معنوی اور جغرافیائی اعتبار سے الگ الگ ہیں۔
سرائیکی وسیب چاروں صوبوں کے سنگم پر موجود ہونے کے باعث اس وسیب کی زبان چاروں صوبوں میں بولی جاتی ہے۔ ویسے یہ خیبر پختونخواہ کے اضلاع ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل خان سمیت پنجاب کے کم و بیش 23اضلاع ہر مشتمل وسیب ہے جب کہ جنوبی پنجاب میں اس کے اضلاع کی تعداد کم ہے۔ سرائیکی وسیب دریائے سند کے دونوں کناروں اور چناب کے غربی کنارے کے درمیان سے ہوتا ہوا روہی، چولستان، ملتان پر مشتمل ہوجاتا ہے۔
2022 کے سیلاب نے دریائی علاقوں اور بارشوں نے صحرائی علاقوں میں اپنی تباہی کی وہ داستانیں رقم کی ہیں جن کے قصے مدتوں سنے جاتے رہیں گے۔ ان داستانوں میں کچھ قصے اس وسیب کی سیاحت اور ثقافت کے بھی ہیں۔ کسی بھی خطے کی ثقافت اور سیاحت اس کی شناخت کا حصہ ہوتے ہیں۔ اس خطے، قوم اور زبان کی ثقافت انہیں دوسری قوموں اور خطوں میں زندہ رکھتی ہے، مگر سرائیکی وسیب کے اضلاع موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات کے باعث جہاں زراعت کو لاحق خطرات سے پریشان ہیں وہاں پورا وسیب ثقافتی اعتبار سے بھی خطرات سے دو چار ہے۔
ان موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث آنے والے سیلاب، دریاؤں سے زمینی کٹاؤ، سوکھتے ہوئے درخت، زیر زمین کم ہوتا ہوا پینے کا پانی، جھیلوں اور دریاؤں میں بڑھتی آبی آلودگی، درختوں کی کٹائی سے بڑ تی فضائی آلودگی، بڑ تا ہوا اسموگ اور اس خطے کی مرتی مٹتی ثقافت و سیاحت اس خطے کی ختم ہوتی شناخت کا پیش خیمہ ہے۔
موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرے کے حوالے سے چند ثقافتی اور سیاحتی مثالیں میں پیش کرنا چاہتا ہوں۔
سرائیکی وسیب کے میلے ٹھیلوں کی داستان سنیے۔ اس وسیب کے چند بڑے ثقافتی میلوں میں حضرت عنایت شاہ کا میلہ، حضرت نور شاہ طلائی کا میلہ، لعل عیسن کروڑ چودہویں کا میلہ، چوبارہ میں تھل جیپ ریلی کے موقع پر تھل ثقافتی میلہ، چوبارہ کے صحرا میں جال منوتی میلہ۔
’’جال منوتی میلہ‘‘
ہر سال مئی میں جال منوتی کا میلہ لگتا تھا، جو اب کچھ برسوں سے کم ہوتا ہوتا بالکل ختم ہوگیا ہے۔ سخت گرمی اور جال درخت کی کٹائی نے برس ہا برس سے جاری اس میلے کو ختم کر ڈالا ہے۔ ’’ہیر والے ٹیلے‘‘ پر ہونے والے اس ایونٹ میں لوگ درختوں، جال، پیلو پر گفت گو کرتے تھے۔ اس میلے سے صدیوں سے بقاء کی جنگ لڑتے درخت جال (جس پر پیلو کا پھل لگتا ہے) کے بچاؤ کی تحریک شروع ہوئی۔ جال کے درخت ہے جس کا مقامی ثقافت اور ادب میں بھی مقام ہے۔
سرائیکی شاعری میں خواجہ غلام فرید کا کلام ’’پیلوں پکیاں نی وے آء چنڑوں رل یار‘‘ آج بھی صوفی موسیقی کا حصہ ہے۔ اس میلے میں ملک بھر سے تمام زبانوں کے دانش ور حاضر ہوتے تھے۔ اشو لال جسے سرائیکی شاعری جیسے تل وطنی شاعری کا نمائندہ شاعر تسلیم کیا جاتا ہے اور مزار خان سرائیکی کے صدارتی ایوارڈ یافتہ کہانی کار میزبانی کرتے۔ سرائیکی کے کہانی کار احسن واگھا یہاں آتے اور مقامی لوگوں کو مقامی ثقافت، درختوں، جانوروں، پودوں کے بارے میں بتاتے۔ وہ مقامی درخت جنڈ، پھوگ، لاہنڑا بونہی، دھماں اور کیکر کے بارے میں گفت گو ہوتی۔ ان کی بقاء کے لیے لائحہ عمل ترتیب دیے جاتے۔ پکھیوں سے پیار کرنے والے اشو لال یہاں سیکڑوں تیتر اور توتے خرید کر آزاد کرتے۔ مقامیت اور اس کے حقوق پر سیر حاصل گفت گو ہوتی۔
اس طرح ہر سال منعقد ہونے والے اس ایونٹ کی اس خطے میں ایک خاص اہمیت ہوگئی تھی۔ لوگ پورا سال اس پروگرام کا انتظار کرتے۔ سخت گرمی میں بھی یہاں کا سفر کرتے۔ رات گزارتے، جو قصے کہانی کی رات ہوتی۔ مقامی فن کار موسیقی کے رنگ بکھیرتے۔ صبح کے وقت پیلو چنتے اور گھروں کو لوٹ جاتے۔ جیسے جیسے موسمیاتی تبدیلیوں نے اس خطے کے درجۂ حرارت کو شدید کیا ویسے ویسے جال منوتی میلہ اپنی رونق کھوتا گیا اور اب گذشتہ دو برسوں سے یہ میلہ گرمی کی شدت کے باعث ختم کردیا گیا ہے۔
اب اس علاقے میں گرین پاکستان نام کے پراجیکٹ کے آنے سے 82 کلومیٹر پر پھیلے ہوئے جال پیلو کے قدرتی جنگل کو زراعت کی توسیع کے نام پر کاٹ دیا گیا ہے اور تقریباً 12ہزار ایکڑ پر لگے یہ درخت صاف کر دیے گئے ہیں۔ اب نہ جال کا درخت بچا ہے اور نہ پیلو کا تاریخی پھل اور نہ ہی جال موتی کا میلہ۔
تھل جیپ ریلی/تھل ثقافتی میلہ
نومبر کے مہینے میں مظفر گڑھ ، کوٹ ادو اور لیہ کے صحراؤں میں ٹی ڈی سی پی کے زیراہتمام گذشتہ 8 برسوں سے تھل جیپ ریلی منعقد کی جاتی ہے، جو مظفر گڑھ سے شروع ہوتی ہے اور لیہ کی صحرائی تحصیل چوبارہ کے مقام سے مڈ پوائنٹ سے واپس ہوکر مظفر گڑ میں اختتام پذیر ہوجاتی ہے۔
پہلی جیپ ریلی کے موقع پر اس وقت کے ڈپٹی کمشنر لیہ سید واجد علی شاہ نے چوبارہ کے مڈ پوائنٹ پر ضلعی انتظامیہ لیہ کی جانب سے تھل ثقافتی میلہ منعقد کرکے لوگوں کے لیے تین روزہ تفریح کا اہتمام کیا جو اب اس سرائیکی خطے کا معروف ایونٹ بن چکا ہے۔ لیکن موسمی تبدیلی کے نتیجے میں 2022 کے بعد یہ میلہ بھی اپنی تمام تر رنگینیوں کے باوجود شائقین کی توجہ حاصل نہیں کر پا رہا۔ ہر سال شائقین کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے۔
دن کے وقت گرمی اور رات کے وقت سخت سردی نے لوگوں کو پریشان کردیا ہے۔ گذشتہ برس اس چار روزہ میلے کے آخری دو روز رات کو ہونے والے موسیقی اور مشاعرے کے ایونٹس ناکام رہے ہیں کیوں کہ8 بجے سے ہی لوگ سردی کی وجہ سے واپس چکے گئے۔ تھل کا صحرائی موسم نخریلا موسم کہلاتا ہے۔ یہاں جون کی راتیں بھی سرد ہوجاتی ہیں۔
میلہ سید عنایت شاہ بخاریؒ
ضلع لیہ کے شہر فتح پور کے مشرق میں تحصیل چوبارہ کے صحراؤں اور نہری علاقے کے سنگم پر موجود درگاہ سید عنایت شاہ بخاریؒ پر گذشتہ 382 برس سے اونٹ منڈی
لگائی جارہی اور میلہ منعقد ہوتا آ رہا ہے۔ ایک زمانے میں یہ اونٹوں کی منڈی اور میلہ ایشیا کے چند بڑے میلوں اور منڈیوں میں شمار ہوتے تھے۔ اب بھی یہ پاکستان کا بڑا میلہ اور اونٹوں کی خریدوفروخت کی واحد منڈی ہے، جو مارچ کے مہینے میں 10روز تک منعقد ہوتے ہیں۔ اس میلے سے دو خاص باتیں بھی جڑی ہوئی ہیں۔ ایک یہ کہ جس دن یہ شروع ہوتا ہے اس دن سے ہی رم جھم بارش شروع ہوجاتی ہے اور آخری روز تک جاری رہتی ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ جس دن یہ میلہ ختم ہوتا ہے اس سے اگلے روز صحرا میں چنے کی فصل کی کٹائی شروع ہوجاتی ہے۔ اس میلے اور منڈی میں پاکستان بھر سے اونٹوں کے بیوپاری اور میلے کے شائقین شریک ہوتے ہیں۔ خیموں کی بستیاں آباد ہوتی ہیں، موسیقی، سرکس، تھیٹر، کھانے کے بازار، کٹائی کے اوزاروں کے اسٹال سجتے ہیں، مگر موسمیاتی تبدیلیوں اور اس کے منفی اثرات سے اب اس میلے کی رونق بھی مانند پڑتی جا رہی ہے۔
دس روز تک جاری رہنے والی رم جھم سے جہاں موسم ٹھنڈا اور قابل برداشت رہتا تھا یا تو اب رم جھم ہوتی نہیں اگر ہو تو تیز بارش میں بدل جاتی ہے، جس سے شائقینِ میلہ اور بیوپاریوں کو موسم کی سختی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یوں یہاں کے صارفین اور شائقین کی تعداد بھی کم ہوتی جا رہی ہے۔ ہر سال کروڑوں روپے کی آمدنی والے اس میلے کو بھی اپنی بقاء کا مسئلہ درپیش ہے۔
سابق اسٹیشن ڈائریکٹر ریڈیو پاکستان ملتان آصف خان کھیتران کا کہنا ہے، ’’مارچ میں موسم تبدیل ہونے کے مرحلے میں ہوتا ہے، پھر بھی نارمل اور خوش گوار ہوتا ہے، مگر کچ برسوں سے خصوصاً 2022ء کے بعد بدلتے موسم اور درجۂ حرارت کے بڑ نے سے اب کم لوگ آتے ہیں۔ میلے میں شائقین کی تعداد کم ہونے سے اس سال لکی ایرانی سرکس بھی اس میلے میں نہیں شریک ہوا، جو تھل کے باسیوں کے لیے ایک بڑی تفریح تھی۔‘‘
میلے میں لگنے والا سرکس ہو یا مقامی تھیٹر یہ لوگوں کی بہترین تفریح تھے، مگر کم آمدنی کے باعث خسارے کا شکار ہوکر ان سے متعلق لوگ بددل ہوگئے ہیں اور یوں لگ رہا ہے کہ وہ آئندہ سال سرکس کی طرح وہ بھی اس میلے میں شریک نہ ہوسکیں گے۔
ہم نے سرائیکی تھیٹر کمپنی کے مالک احسن فریدی سے اس ضمن بات چیت کی تو وہ مایوس نظر آئے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ سرائیکی وسیب کے تمام میلوں میں اپنا تھیٹر ’’نظامن دا تھیٹر‘‘ لگاتے ہیں۔ درجنوں فن کاروں کا روز گار اس تھیٹر سے جڑا ہوا ہے۔ سرائیکی وسیب کے بڑے اور معروف میلوں سید عنایت شاہ، نور شاہ طلائی، چود ویں والا میلہ اور کروڑ لعل عیسن ان کے لیے روزگار کے حوالے سے بڑے میلوں میں شمار ہوتے ہیں۔ یہاں نہ صرف شائقین خوش ہوجاتے ہیں بلکہ ان کے رزق روٹی میں بھی بے پناہ اضافہ ہوتا ہے، مگر گذشتہ تین برسوں سے موسمیاتی تبدیلی اور درجۂ حرارت میں شدت کے باعث ان کا روزگار متاثر ہوا ہے۔ گذشتہ اور اس برس پڑنے والی سردی اور گرمی میں ان کے اوپن ایئر تھیٹر 6 ماہ تک بند رہے ہیں اور فن کار فاقوں کا شکار ہوچکے ہیں۔
فن کار اکرم نظامی نے مذکورہ صورت حال پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہیں اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہوئے 30 برس ہوچکے ہیں اور انہیں اس فن کے علاوہ کوئی کام بھی نہیں آتا۔ جب ان کا تھیٹر بند ہوا تو ان کے معاشی حالات گردش میں آگئے۔ چولہے آہستہ آہستہ ٹ نڈے پڑنے لگے۔ وہ اوپن ایئر تھیٹر کے فن کار تھے، سو انہیں بڑے شہروں کے تھیٹر میں کام نہیں ملا۔ فاقہ کشی کے سات انہیں اپنے بچوں کے مستقبل کی فکر بھی لاحق ہوگئی۔
ان کے تعلیمی معاملات معاشی زبوں حالی کی وجہ سے بگڑ گئے، انہیں اچھے اسکولوں سے نکالنا پڑا۔ ان کا کہنا ہے، ’’ہم لوگوں کو ہنسانے والے خود رونے پر آگئے۔ یہ تو ایک پرستار کی محبت کام آگئی، جس نے مجھے سعودی عرب کا ورک ویزا دلا دیا اور اب میں وہاں ہوٹل میں کام کررہا ہوں۔ اس سے نقصان یہ ہوا کہ پاکستان بالخصوص سرائیکی وسیب میں اوپن ایئر تھیٹرز میں میرا کردار ختم ہوگیا اور میرے پرستار مایوس ہوگئے ہیں۔‘‘
دُھند کی وجہ سے دو فن کاروں کی حادثے میں ہلاکت
موسمیاتی تبدیلی اور درجۂ حرارت میں شدت کے باعث میانوالی کے علاقہ پکہ گھنجیرا میں گذشتہ برس 12اکتوبر کوایک الم ناک حادثہ پیش آیا، جس نے سرائیکی موسیقی کے دو اہم چراغ گل کر دیے۔ رات کی تاریکی میں معروف سرائیکی لوک گلوکار شرافت علی خان بلوچ اور ان کے گلوکار ب ائی انوار علی خان اپنے سازندوں کے سات اپنے گھر میانوالی واپس آرہے تھے کہ ان کی گاڑی پکہ کینال پر دھند کے باعث نہر کے پل پر چڑھتے ہوئے نہر میں گرگئی، جس سے دونوں گلوکار بھائی اپنے دو بہنوئیوں اور ایک اور ساتھی سمیت نہر میں ڈوب کر جاں بحق ہوگئے۔
یہ دونوں فن کار سرائیکی ثقافت کے نمائندہ گلوکار تھے۔ سرائیکی زبان کی سریلی آوازیں جو کروڑوں شائقین کے دلوں پر راج کر رہی تھیں دھند کی وجہ سے موت کے منہ میں جا کر خاموش ہوگئیں۔ برس ہا برس سے ریاضت اور محنت کے بل بوتے پر شہرت کے آسمان پر چمکنے والی ان دونوں فن کار شخصیات کے گھرانے میں اب کوئی کمانے والا مرد نہیں ہے اور ان کی بیوائیں اور بیوہ ماں اب اللّہ کے آسرے پر زندگی بسر کر رہی ہیں۔
سرائیکی وسیب یا جنوبی پنجاب میں ہونے والے میلے ٹھیلے نہ صرف ثقافت کا اظہار بلکہ مقامی سیاحت اور کاروبار کا سبب بھی ہیں، جو ایک ایک کرکے موسمیاتی تبدیلیوں اور موسم کی شدت کی نذر ہوتے جارہے ہیں۔