خصوصی افراد اور انتخابات

 رکاوٹیں ہٹاکر معذور افراد کو قومی دھارے میں شامل کرنا ضروری ہے


غزالہ فصیح November 03, 2024
فوٹو : فائل

جسمانی معذوری کا شکار افراد کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے ’’خصوصی افراد‘‘ کے لیے ’’ون ونڈو آپریشن کیمپ‘‘ کے انعقاد پر زور دیا ہے، تاکہ ان افراد کو معذوری سرٹیفکیٹ کے حصول، شناختی کارڈ کے اجراء اور ووٹنگ لسٹ میں اندراج کے لیے مختلف اداروں کے بار بار چکر لگانے کی تکلیف سے بچایا جائے۔

یہ تجاویز حال ہی میں کراچی میں منعقدہ تین روزہ ورکشاپ میں پیش کی گئی ہیں۔ معذور افراد کو انتخابی عمل کا حصہ بنانے کی لیے ورکشاپ کا اہتمام الیکشن کمیشن آف پاکستان اور انٹرنیشنل فاؤنڈیشن فارالیکٹورل سسٹم کے اشتراک سے کیا گیا تھا۔ معذور افراد اور انتخابات کے موضوع پر برج کیریکولم کے تحت منعقدہ ٹریننگ ورکشاپ کا افتتاح جوائنٹ پرووینشل الیکشن کمشنر (ایڈمن) نذر عباس نے کیا۔ انہوں نے بتایا کہ کہ یہ ورکشاپ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی مسلسل جاری رہنے والی سرگرمیوں کا حصہ ہے جن کا مقصد معاشرے کے تمام پسماندہ طبقات کو ووٹنگ کے عمل میں شامل کرنا ہے۔

ورکشاپ میں سندھ بھر سے خصوصی افراد، ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنرز وآفیسرز، معذور افراد کی تنظیموں کے نمائندوں اور انسانی حقوق و سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی۔

BRIDGE کے نمائندہ برائے مالدیپ مسٹر پاؤل کبیسینو نے تینوں دن آن لائن شرکت کرتے ہوئے خصوصی افراد کے لیے بین الاقوامی قوانین اور بیسٹ پریکٹس کے متعلق پریزینٹیشن دی۔ انہوں نے بتایا کس طرح معذور افراد کے لیے ’’رسائی‘‘ یعنی ذرائع آمدورفت ممکن بناکر، ذرائع ابلاغ یعنی اشاروں کی زبان، نابینا افراد کے لیے بریل سسٹم وغیرہ کی مدد سے اور مجموعی طور پر اپنے رویے بہتر بنا کے انھیں سیاسی عمل میں بھرپور طریقے سے شریک کیا جاسکتا ہے۔ انھوں نے برطانیہ، امریکا، ڈومینیکن ریپبلک، انڈیا اور دیگر ممالک کی مثالیں دے کر بتایا کہ کس طرح اسپیشل افراد کے لیے بہتر انتظامات کے ذریعے انھیں انتخابی عمل میں شریک کیا گیاہے۔

ورکشاپ میں شریک دونوں ہاتھوں سے محروم، ساحل حسین نے بتایا کہ ڈس ایبلٹی سرٹیفیکیٹ کے حصول کے لیے انھیں اسپتال میں معائنے سمیت مختلف اداروں کے چکر کاٹنے پڑتے ہیں، ہر جگہ ریمپ دست یاب نہ ہونے اور کسی معاون کے محتاج ہونے کے باعث یہ کارروائی ان کے لیے تکلیف کا باعث بنتی ہے۔

پولیو کی شکار نوجوان خاتون شائنہ نے بتایا کہ معذوری کا شکار افراد کے ووٹ دینے کے حق میں گھر والوں سمیت معاشرہ دل چسپی نہیں رکھتا۔ نادرا سے معذور افراد کی ووٹنگ رجسٹریشن کا عمل ایک مشکل مرحلہ ہے۔ شائنہ نے بتایا کہ گذشتہ انتخابات کے موقع پر انھیں اپنے ووٹ کے اندراج کی درست معلومات نہ ہونے کے باعث تین پولنگ اسٹیشنز پر جانا پڑا۔

ایک حادثے کے باعث معذوری کا شکار ہونے والی ارم صائم نے بتایا کہ گذشتہ انتخابات میں الیکشن کمیشن کے قانون کے برعکس کئی مقامات پر ریمپ موجود نہیں تھے جب کہ پولنگ اسٹیشنز بلڈنگ کی دوسری منزل پر واقع تھے نیز پولنگ اسٹیشنز کے دو کلومیٹر فاصلے کے اندر واقع ہونے کے قاعدے کو بھی یقینی نہیں بنایا گیا جس کی وجہ سے معذور افراد اور ان کے معاونین پریشانی کا شکار ہوئے۔

پروگرام میں شرکاء نے مختلف گروپ ایکٹیوٹیز کے ذریعے معذور افراد کی سیاسی عمل میں شرکت میں حائل رکاوٹوں کا جائزہ لیا، جن میں معذور افراد کا مناسب ڈیٹا موجود نہ ہونے، نادرا، الیکشن کمیشن اور متعلقہ اداروں کے آپس میں کوآرڈی نیشن کے فقدان کی نشان دہی کی گئی۔ مثال دی گئی کہ گذشتہ انتخابات 2022 کے موقع پر معذور افراد کا ڈیٹا نہ ہونے کے باعث سندھ کے ایک ضلع میں تمام پولنگ اسٹیشنز پر ریمپ لگا دیے گئے جہاں ضرورت نہیں تھی، اس طرح وسائل کا زیاں ہوا۔

شرکاء نے اتفاق کیا کہ مقامی حکومتوں میں معذور افراد کا کوٹا مختص کرنا مستحسن اقدام ہے، تاہم انھیں خانہ پری کی بجائے فعال نمائندگی دی جائے۔ قومی اور صوبائی اسمبلی کی سطح پر ان کے لیے کوٹا مختص کیا جائے۔

ورکشاپ میں الیکشن کمیشن کی جانب سے معذور افراد کے لیے ووٹنگ کے عمل کو آسان بنانے کے لیے کی گئی کاوشوں پر ریجنل الیکشن کمشنر لاڑکانہ عبدالواحد اور ڈپٹی ڈائریکٹر جینڈر اینڈ سوشل انکلیوژن سید عبداللّہ شاہ نے پریزنٹیشنز دیں۔

 انہوں نے کہا تین روزہ ورکشاپ معذور افراد کو درپیش مسائل سمجھنے اور ان کے حل کے لیے جامع حکمت عملی بنانے میں مددگار ثابت ہو گی۔ ورکشاپ میںIFES کی سنیئر پروگرام مینجر کلثوم اختر اور ٹریننگ آفیسر اسلم بروہی نے برج ٹریننگ کے مکمل ماڈیولز کو تفصیل سے ڈسکس کیا، جن میں ماڈلز آف ڈسیبلٹی، ٹری آف رائٹس، پرنسپلس آف ڈسیبلٹی اور ڈیفینس آف ڈس ایبلڈ پرسنز جیسے موضوعات پہ روشنی ڈالی گئی۔

علاوہ ازیں ورکشاپ میں شرکا سے مختلف سرگرمیاں بھی کروائی گئیں۔

انتخابات کے دن پر معذور افراد کو پیش آنے والی تکالیف پر ’’رول پلے‘‘ سیشن ہوا جس میں پولنگ اسٹیشنز بناکر چناؤ کے دن کا ماحول دکھایا گیا اور شرکاء نے الیکشن اسٹاف، آبزرورز، سیکیوریٹی اور ووٹرز کے کردار ادا کیے۔ ورکشاپ کے اس رول پلے میں مجھے ایک پاؤں سے محروم ’’ووٹر‘‘ کا کردار دیا گیا۔ اس کے لیے مجھے لنگڑا کر چلنا پڑا۔ یہ کردار اگرچہ تھوڑی دیر کے لیے تھا مگر میری سانس پھول گئی اور حلق میں کانٹے سے چبھنے لگے۔ میں ایک ووٹر کا کردار ادا کر رہی تھی جو ایک ٹانگ سے محروم ہے اور ایک سے دوسرے پولنگ اسٹیشن پر اپنے نام کا اندراج ڈھونڈتے ہوئے پہنچی ہے۔ طویل انتظار کے بعد جب ووٹ کاسٹ کرنے کا مرحلہ آیا تو یہاں پولنگ اسٹاف کا رویہ بھی حوصلہ شکن تھا۔ مجھے اس کرب کا اچھی طرح احساس ہوگیا جس سے ہمارے خصوصی افراد کو ووٹ کاسٹ کرنے کے عمل میں گزرنا پڑتا ہے۔

 ورکشاپ کے دوران یہ واضح کیا گیا کہ ’’معذوری دراصل رسائی نہ ہونے کے باعث محروم رہ جانا ہے۔‘‘ معذور افراد اسی بنا پر اپنے حق رائے دہی سے قاصر رہتے ہیں۔ امریکا، برطانیہ اور یورپی ماڈلز کی مثالیں دی گئیں کہ کس طرح وہاں ان افراد کو قومی دھارے میں شریک کیا گیا ہے۔ نیز یہ کہ کس طرح صرف رویے بہتر بنا کر ہم پاکستان کے معذور افراد کو زندگی کی رو میں اپنے ساتھ شامل کر سکتے ہیں۔

اسپیشل ٹیلنٹ ایکسچینج پروگرام کے روح رواں، معروف ایکٹوسٹ محمد عاطف شیخ نے اپنی دل چسپ پریزینٹیشن میں شرکاء سے کہا کہ وہ اپنے پورٹریٹ بنائیں اور دل کی تصویر بنا کر دکھائیں کہ کون ان کے دل سے قریب اور دور ہے۔ شرکاء نے جب ان تصاویر پر تبصرے کیے تو واضح ہوا کہ سب نے ظاہری نقش و نگار کے بجائے دوسروں کے دل کی باتیں جاننے میں دل چسپی لی۔ عاطف شیخ نے کہا ہمیں جسمانی ہیئت اور نقائص کی بنا پر معذور افراد کو اپنے سے دور نہیں کرنا چاہیے۔ انھیں قومی دھارے میں شامل کرنے کے لیے ان کے راستے کی رکاوٹیں دور کی جائیں۔

ورکشاپ کی اختتامی تقریب کے مہمان خصوصی جوائنٹ پروونشل الیکشن کمشنر (الیکشنز) علی اصغر سیال تھے۔ اختتامی تقریب میں ورکشاپ کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان محروم طبقات کو ووٹنگ کے عمل کا حصہ بنانے کے لیے مصروف عمل ہے، جس کے لیے ضلعی سطح پر خصوصی طور پہ ڈسٹرکٹ ووٹر ایجوکیشن کمیٹیاں بنائی گئی ہیں جو مہینے میں ایک بار ووٹ سے متعلق آگاہی اور ووٹ رجسٹریشن سے متعلق سیمینارز اور میٹنگ منعقد کر کے رپورٹ ہیڈکوارٹرز بھجوانے کی پابند ہیں۔

اس کے ساتھ صوبائی سطح پر بھی پروونشل ووٹنگ ایجوکیشن کمیٹی بنائی گئی ہے جس میں نادرا، محکمہ تعلیم، سوشل ویلفیئر ڈپارٹمینٹ، ہیومن رائٹس کمیشن اور متعلقہ اداروں کے نمائندے شامل ہیں جس میں ووٹنگ ٹرن آؤٹ بڑھانے کے لیے تجاویز مرتب کی جاتی ہیں اور اسی سلسلے میں یونیورسٹیوں، کالجز اور اسکولز میں بھی ووٹ کی اہمیت اور آگاہی پر سیمینار منعقد کروائے جاتے ہیں۔

مہمان خصوصی نے شرکا کو کام یابی سے ورکشاپ مکمل کرنے پر مبارک باد دی، ٹرینرز کی محنت کو سراہا اور ورکشاپ مکمل کرنے والے تمام شرکا میں سرٹیفکیٹ تقسیم کیے۔

 ورکشاپ میں معذور افراد کو ووٹنگ کے عمل میں درپیش مسائل اور ان کے حل کے لیے جامع حکمت عملی ترتیب دینے اور شرکا کی جانب سے دی گئی تجاویز کو زیرغور لایا گیا۔

ورکشاپ کی اختتامی تقریب کے مہمان خصوصی جوائنٹ پروونشل الیکشن کمشنر (الیکشنز) علی اصغر سیال تھے۔ اختتامی تقریب میں ورکشاپ کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان محروم طبقات کو ووٹنگ کے عمل کا حصہ بنانے کے لیے مصروف عمل ہے جس کے لیے ضلعی سطح پر خصوصی طور پر ڈسٹرکٹ ووٹر ایجوکیشن کمیٹیاں بنائی گئی ہیں جو مہینے میں ایک بار ووٹ سے متعلق آگاہی اور ووٹ رجسٹریشن سے متعلق سیمینارز اور میٹنگ منعقد کر کے رپورٹ ہیڈکوارٹرز بھجوانے کی پابند ہیں۔

اس کے ساتھ صوبائی سطح پر بھی پروونشل ووٹنگ ایجوکیشن کمیٹی بنائی گئی ہے جس میں نادرا، محکمہ تعلیم، سوشل ویلفیئر ڈپارٹمینٹ، ہیومن رائٹس کمیشن اور متعلقہ اداروں کے نمائندے شامل ہیں جس میں ووٹنگ ٹرن آؤٹ بڑھانے کے لیے تجاویز مرتب کی جاتی ہیں اور اسی سلسلے میں یونیورسٹیوں، کالجز اور اسکولز میں بھی ووٹ کی اہمیت اور آگاہی پر سیمینار منعقد کروائے جاتے ہیں۔

پروگرام میں ڈس ایبلڈ ویلفیئر ایسوسی ایشن کی نمایندہ صائمہ علی، ہیومن رائٹس کونسل پاکستان کی نمائندہ ندا علی، مائرہ سوشل ویلفیئر آرگنائزیشن کی نمایندہ ساجدہ، سوشل ورکر درخشاں صالحہ، ناؤ پی۔ڈی۔پی۔کے نمائندہ نثار بجیر، یونائٹڈ نیشنز انڈسٹریل ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن کی نمائندہ فضہ شاہ اور دیگر نے شرکت کی۔

 

ملک میں معذور رائے دہندگان کی تعداد!
الیکشن کمیشن کے مطابق پاکستان میں دسمبر 2023تک کے اعدادوشمار کے مطابق کل رجسٹرڈ افراد معذور رائے دہندگان کی تعداد 4 لاکھ 74 ہزار 580 ہے، جن میں خواتین کی تعداد 1لاکھ 30 ہزار 256 اور مرد حضرات کی تعداد 3 لاکھ 44 ہزار 315 ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔