زباں فہمی 228 ؛ چِترال کی زبانیں (حصہ اوّل)

زباںفہمی نمبر 228 ،چِترال کی زبانیں ، (حصہ اوّل)؛تحریر : سہیل احمد صدیقی ۔ فوٹو : روزنامہ ایکسپریس

زباں فہمی نمبر 228 ،چِترال کی زبانیں ،(حصہ اوّل)؛تحریر : سہیل احمد صدیقی ۔ فوٹو : روزنامہ ایکسپریس

 

’’اپنی کثیرلسانی اور کثیرثقافتی خصوصیات کی بناء پر ماہرینِِ لسانیات کے یہاں خصوصی دل چسپی کی حامل یہ سرزمین نہ صرف لسانی اور ثقافتی ہم آہنگی کی تصویر ہے بلکہ یہ ایثار ومحبت اور اَمن،آشتی کی آئینہ دار بھی ہے۔ یہاں کے بازاروں میں آپ کو کھوار اور پشتو جیسی نسبتاً بڑی زبانیں بھی سننے کو ملیں گی اور کالاشہ، مدک لشٹی، وَخی اور پالُولا جیسی زبانیں بھی، جن کے بولنے والوں کی تعداد محض سیکڑوں یا ہزاروں میں ہے۔ چترال کو اگر مختلف زبانوں کا گلدستہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا‘‘۔ ڈاکٹر محمد کمال خان ، ایسوسی ایٹ پروفیسر علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے یہ الفاظ’پریوں کی سرزمین‘ یعنی سرزمین چترال کا صحیح تعارف ہیں۔ (مشمولہ پیش لفظ: ’چترال کی زبانیں: ماضی، حال، مستقبل‘ از فخرالدین اَخونزادہ)

چترال کے متعلق کچھ بنیادی نکات دُہرانا ضروری ہے۔ دنیا کے انتہائی بلند وبالا پہاڑوں کی سرزمین کو سلسلہ ہِندوکُش کی سب سے اونچی چوٹی ’تِرِچ مِیر‘ کی نسبت سے بھی جانا جاتا ہے جس کی بلندی 25,289 فٹ ہے۔ ایک روایت کے مطابق چترال کو یہ نام پہلی صدی قبل ازمسیح (علیہ السلام) میں چینیوں نے دیا اور مغلیہ سلطنت کے بانی میرزا ظہیرالدین محمد بابُر نے بھی اپنی تُزک میں یہی نام استعمال کیا تھا۔ ایک روایت کی رُو سے جدید چترال کے آخری حکمراں خاندان کا بانی ایّوب بابا، بابُر کے بیٹے میرزا کامران کا بیٹا (یعنی بابُر کا پوتا) تھا۔

کہا جاتا ہے کہ اس وادی کے قدیم باشندے ’پشاچہ‘ آدم خور تھے جنھیں پہلی صدی قبل از مسیح میں مغلوب کرلیا گیا تھا۔ اس کے بعد چترال کی تاریخ کے بارے میں ایک طویل سناٹا تاریخ کے اوراق میں دکھائی دیتا ہے اور پھر یہ بیان کیا جاتا ہے کہ 900ء میں کابل (افغانستان) کے راجا جے پال کی اس علاقے پر بھی حکومت تھی اور اُس دور میں یہاں کے باشندوں کا مذہب بُدھ مَت تھا۔ چنگیز خان کے حملوں کا بھی سرسری ذکر نقل کیا گیا ہے۔ (بحوالہ شاہکار اِسلامی انسائیکلوپیڈیا، الفیصل ناشران ِ کتب، لاہور : 2000ء)

یہاں یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ پاکستان کے اس دوراُفتادہ مقام تک پہنچنا اور سیروسیاحت کرنا آج بھی اس قدر آسان نہیں جتنا دیگر علاقوں میں ہے۔ سڑک کے راستے کی دشواریوں کے پیش نظر یہاں سرنگ کی کھُدائی کا اہتمام کیا گیا۔ صدیوں سے چترال مختلف پہاڑی درّوں کے ذریعے دیگر علاقوں سے جُڑا ہوا تھا جیسے ’درّہ لواری‘ (Lowari Pass) کے راستے ’دِیر‘ سے اور شِندُور ٹاپ کے ذریعے گلگت سے۔ یہ راستے موسم سرما میں برف باری کے سبب بند ہوجایا کرتے تھے، پھر 2017ء میں اس کا مستقل حل ’لواری‘ سرنگ (Lowari Tunnel ) کے ذریعے نکالا گیا اور آج اس علاقے تک دیگر علاقوں سے رسائی آسان ہوگئی ہے۔ 1895ء تک یہ علاقہ ایک آزاد ریاست کے طور پر جانا جاتا تھا جس کا سربراہ ’’مِہتر‘‘ (کھوار تلفظ میں ’میتار‘) کہلاتا تھا۔ (فارسی کی مستند لغات میں مقام ومنزلت کے اعتبار سے مہتر کے یہ معانی درج کیے گئے ہیں: زیادہ بڑا، بزرگ تریعنی سرداریاشاہ۔ رئیس، امیرِ قوم، حاکم، فرماں رَوا۔ اس کا متضاد کہتر ہے جسے اُردوکے لحاظ سے کم تر کہہ سکتے ہیں۔ نہایت تعجب اور قدرے تأسف کا مقام ہے کہ ہمارے یہاں خاکروب کو ’مہتر‘ کہا جانے لگا تو ایک طویل مدت کے بعد اَب جہاں کہیں چترال کے مہتر کا ذکر ہوتا ہے تو لوگ بہت حیران ہوتے ہیں)۔ 1895ء تا 1947ء یہاں انگریز کی عمل داری رہی،1947ء میں اُس وقت کے مہتر مظفرالمُلک نے اپنی ریاست کے پاکستان سے الحاق کی پیش کش کی اور یوں قیامِ  پاکستان کے بعد ریاست ِ چترال نئے ملک سے ملحق ہوئی اور 1969ء میں یہ سابق ریاست، دِیر اور سُوات کی ریاستوں کے ساتھ پاکستان میں ضم ہوگئی اور اِسے مالاکنڈ قسمت یعنی Division کا ایک ضلع بنادیا گیا۔

قیام پاکستان سے 2018ء تک، صوبہ سرحد کے انتہائی شمال میں واقع، چترال، صوبہ سرحد (مابعد خیبرپختون خوا) کے ڈویژن مالاکنڈ کا ایک ضلع تھا اور تب اِسے صوبے کے سب سے بڑے ضلع ہونے کا اعزاز بھی حاصل تھا۔ اس کا کُل رقبہ 14,850مربع کلومیٹر تھا۔ بعداَزآں اسے تقسیم کرکے بالائی (Upper) اور پائیں یا زیریں(Lower ) چترال کے اضلاع بنائے گئے۔ یہ 2018ء کی بات ہے۔ چترال کے مشرق میں گلگت  بلتستان واقع ہے، جنوب میں سُوات، دِیر، جبکہ شِمال اور شمال مغرب میں اس کی سرحد افغانستان سے ملتی ہے۔ اس کے شمال میں واخان (اَفغانستان) کی پَٹّی یا راہداری ہے جو چترال کو تاجکستان سے جُدا کرتی ہے۔ افغانستان کا صوبہ نُورِستان اس سے متصل ہے جو کبھی چترال کے مشہور علاقے کافرستان کا حصہ تھا (پاکستانی علاقے میں آج بھی ’کافر‘ قوم آباد ہے جس کے تہوار خصوصاً مخصوص رقص بہت مشہور ہیں) اور جہاں مختلف وادیوں میں مختلف زبانیں رائج ہیں۔ نورستان کا مشرقی حصہ چترال سے جُڑا ہوا ہے، وسطی حصہ دریا پیچ کے ذریعے افغان صوبہ کنڑ سے منسلک ہے جبکہ مغربی، لغمان کے آخر میں واقع ہے۔

وطنِ عزیز کو ناواقفیت کی بناء پر محض چار پانچ زبانوں کا مُلک سمجھنے والوں کو ایک مرتبہ پھر یاد دلانا چاہتا ہوں کہ ہمارے یہاں (اعدادوشمارکے مختلف جائزوں سے) کم وبیش سَو زبانوں کا وجود اور رِواج ثابت ہے۔ یہ اور بات کہ بعض زبانیں بہت تیزی سے مِٹ رہی ہیں اور کچھ گھٹ گھٹا کر ایک چھوٹی سی بولی ہی رہ گئی ہیں، مگر آپ اُن کے وجود سے انکار نہیں کرسکتے۔ اس موضوع پر کئی جہتوں میں طبع آزمائی کی جاسکتی ہے۔ چترال اور دیگر علاقوں میں معدومی کے خطرے سے دوچار زبانوں کی آگہی اور اُن کی بقاء کے لیے کاوشوں میں انجمن ِ ترقی ٔ کھوار، قومی ادارہ برائے لوک ورثہ اور ایک تحقیقی ادارے Forum for Language Initiatives (FLI) کی سرگرمیاں یقیناً لائق صد آفرین وتقلید ہیں۔ اندرون وبیرونِ ملک کے سیاح عموماً چترال کا نام ’پریوں جیسی سرزمین‘ کیلاش یا کالاش کے ساتھ یاد کرتے ہیں۔ عموماً اس حسین وادی کے متعلق چند مخصوص باتیں ہی ذرایع ابلاغ کی زینت بنتی ہیں لیکن ہم نے کبھی یہ نہیں دیکھا کہ اس کے لسانی منظرنامے پر کبھی کسی ٹیلیوژن چینل کے کسی ادبی پروگرام میں گفتگو ہوئی، خیر ٹی وی پر اَدبی پروگرام تو ویسے بھی اب شاذ ہی ہوتے ہیں۔

چِترال کا ذکر ضمناً سلسلہ زباں فہمی میں کئی بار آچکا ہے اور خاکسار کے کثیرلسانی ادبی جریدے ’ہم رِکاب‘ (The Fellow Rider) میں ایک محقق ڈاکٹررحمت عزیز چِترالی صاحب کے تعاون سے چترال کی سب سے بڑی زبان کھوار (Khowar) کے تراجم بھی شایع ہوچکے ہیں۔ (محقق موصوف نے چالیس زبانوں کا مشترک کلیدی تختہ یعنی keyboard تشکیل دے کر عالمی ریکارڈ قائم کیا اور گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں جگہ بنائی ہے)۔ چترال کی سب سے بڑی زبان کھوار، مقامی قوم ’’کھو‘‘ کی زبان ہے، جس کے بولنے والوں کی تعداد ایک لاکھ سے زائد بیان کی گئی ہے، (یعنی کُل آبادی کے نوّے فیصد سے زائد) مگر اس خطے میں رابطے کے لیے دیگر اقوام یا لسانی گروہ بھی کھوار استعمال کرتے ہیں; گویا اس کی حیثیت وہاں اردو کی سی ہے، اسی طرح ارندو (چترال کا انتہائی جنوبی علاقہ) کا معاملہ ہے جہاں پشتو بطور زبانِ رابطہ(lingua franca) بولی جاتی ہے۔ ارندو کے ایک گاؤں کی آبادی کھو ار بولتی ہے، جبکہ ارندو کے دیگر دیہات میں پشتو کا غلبہ ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ چترال اور گلگت کے شمالی سرحدی علاقے میں تاجیک ۔یا۔تاجِک زبان بھی بولی جاتی ہے۔ (بحوالہ انسائیکلوپیڈیا ایرانیکاhttps://www.iranicaonline.org/  )۔

 کھوار زبان چترال کے مہتروں کی سرپرستی میں ’زبانی‘ سرکاری زبان کے طور پر رائج تھی جبکہ تحریری یا دستاویزی اُمُور کے لیے سرکاری زبان فارسی تھی۔ یہ اَمر خوش آئند ہے کہ خیبرپختون خوا کی حکومت نے کھوار کو بارہویں جماعت تک نصاب میں شامل کرتے ہوئے جماعت ہشتم میں اس کی تدریس بھی شروع کردی ہے۔ (وِکی پیڈیا نے کھوار کو ’’کھووار‘‘ لکھا ہے جو غالباً کسی غیراہلِ زبان کی کارستانی کا نتیجہ ہے)۔ کھوار کو پختون لوگ ’قشقاری‘ اور دیگر بیرونی لوگ ’چِترالی‘ بھی کہتے ہیں۔ کھوار کے متعلق لسانی تحقیق کرنے والے اوّلین محقق Leitnerنے کھوار کو ’اَرنیا‘ (Arnyiá or Arniya)کا نام دیا تھا۔ یہ 1880ء کی بات ہے اور یہ نام اُس نے گلگت کے علاقے یاسین میں بولی جانے والی زبان ’شِینا‘ یا شِنا (اہل زبان کے تلفظ میں ’شِنڑا‘ ، نون غنہ کے ساتھ) سے اخذ کیا تھا۔

دل چسپ بات یہ ہے کہ چترال ہی کی زبان دمیلی اور گوَرباتی بولنے والے کھو قوم کو ’منگولی‘ ، جبکہ پالولا بولنے والے اُنھیں ’گوکھا‘ اور کالاشہ بولنے والے ’پٹو‘ کہتے ہیں۔ راقم کی رائے میں کسی زبان اور قوم کے اتنے مختلف نام پاکستان سمیت پورے برّاعظم میں شاید ہی کسی اور زبان کے ہوں۔ کھوار زبان کے بھی مختلف لہجے ہیں، بیرون ِ چترال، بالائی سُوات اور غذر (گلگت  بلتستان) میں اس کا لہجہ قدرے مختلف ہے، مگر مقامی لوگ آپس میں اپنی بات سمجھ کر سمجھا سکتے ہیں۔ یہ زبان ہندآریائی زبانوں کی ذیلی شاخ دَردی یا داردی (The Dardic languages:also Dardu or Pisaca) سے تعلق رکھتی ہے۔ اس گروہ کو ہِندوکُش کی ہندآریا زبانیں (Hindu-Kush Indo-Aryan languages) بھی کہا جاتا ہے۔ {دردی زبانوں کے علاقے کو ایک برطانوی مُستشرِق Gottlieb Wilhelm Leitner نے دردِستان کا نام دیا، مگر اس میں لسانی اعتبار سے قباحت یہ ہے کہ اسی دردستان میں غیردردی زبانیں بولنے والے بھی بستے ہیں}۔ کھوار بھی دیگر زبانوں کی طرح بوقت ِ ضرورت دیگر زبانوں سے اشتراک کے عمل سے گزری ہے جن میں پنجابی، پہاڑی اور سندھی کے نام لیے جاتے ہیں۔ اس زبان کا تعلق افغان صوبے بدخشاں کی ایرانی زبانوں سے بھی ہے۔

معاشی ودیگر وجوہ سے کھوار بولنے والو ں کی ایک نمایاں تعداد اپنی سکونت ترک کرکے ملک کے دیگر شہروں بشمول کراچی، لاہور، راول پنڈی، اسلام آباد اور پشاور میں جابسی ہے۔ یوں ہم بجا طور پر کہہ سکتے ہیں کہ کراچی کی آبادی میں کھو قوم کی نمایندگی بھی موجود ہے۔ کچھ عرصہ قبل راقم نے اپنے علاقے میں دو خوش شکل جوان افراد کو ایک نامانوس زبان میں گفتگو کرتے دیکھا تو کچھ دیر سمجھنے کی ناکام کوشش کے بعد سوال کیا کہ آپ لوگ کونسی زبان بول رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہمارا تعلق چترال سے ہے، پھر جب میں نے کھوار کا نام لیا تو وہ بہت خوش اور حیران ہوئے کہ آپ ہماری زبان کا نام جانتے ہیں۔ خاکسار نے اُن سے ڈاکٹر رحمت عزیز چترالی کے متعلق بھی بات چیت کی۔

کھوقوم کی زبان ’کھوار‘ کے متعلق آنلائن دستیاب تحقیق کہتی ہے کہ اس مرکب نام میں وار سے مراد زبان ہے اور یہ لفظ سَربیئن (Serbian) اور بُلغاری(Bulgarian) کے لفظ ’’گوور‘‘ (govor) سے مماثل ہے جس کا مطلب ہے تقریر۔ اس سے ملتا جُلتا لفظ hovor، چیک زبان(Czech ) میں رائج ہے۔

کھوار کے اوّلین محققین کا تعلق مغربی دنیا سے تھا۔ اوپر ذکر ہوا اوّلین محقق کا جن کا کام 1870ء کی دہائی میں انجام پایا۔ ان کے بعد نمایاں نام ہے:D. J. T. O'Brien  جنھوں نے اس زبان کے قواعد پر تفصیلی کام کیا اور یہ کتاب  1895ء میں Grammar and Vocabulary of the sublineKhowâr Dialect (Chitrâli)کے نام سے شایع ہوئی۔ اس کی اشاعت Civil and Military Gazette Pressکے ذریعے ہوئی۔ اس زبان کی اوّلین لغت بھی اُنہی نے ترتیب دی تھی جو رَسم الخط کے مسائل کی وجہ سے شایع نہ ہوسکی۔1917ء سے کھوار زبان کو عربی رسم الخط میں رائج کرنے کی مساعی جاری ہوئیں اور آج یہ اس جہت میں اُردو کی بہن ہے۔ 1919ء میں لیے گئے لسانی جائزے (The Linguistic Survey of India) میں بھی کھوار شامل تھی جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ماہرین لسانیات نے اسے اہم جانا تھا۔ Morgenstierne نے 1924ء میں دردی زبانوں پر تحقیق کا آغاز کیا تو کھوار کے متعلق زیادہ مواد فراہم ہوا۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ اس محقق اور  D. L. R. Lorimer  کے تحقیقی کام کا بڑا حصہ ابھی تک غیرمطبوعہ ہے۔ اس باب میں مزید گفتگو اِن شاء اللّہ اگلی قسط میں ہوگی۔

ہم اردو کے لیے یہ رونا رونے میں کسی حد تک حق بجانب ہیں کہ زبان وادب میں تحقیق بہت کم ہورہی ہے، (خصوصاًلسانیات کے شعبے میں)، مگر دوسری طرف، علاقائی یا مقامی زبانوں میں یہ اَمر خوش آیند ہے کہ تحقیق کا سفر بہ سُرعت جاری ہے۔ راقم خوش قسمت ہے کہ متعدد اور یکسر مختلف زبانوں کے اہل قلم خصوصاً محققین سے براہ ِ راست رابطہ اور تعلق استوار کرکے ایسی کتب سے اکثر خوشہ چینی کرتا رہتا ہے۔ کہیں کہیں کسی محقق سے فرمائش بھی کرنی پڑتی ہے۔ اس سلسلے کی تازہ ترین کڑی ماہرلسانیات و نسل شناسی (ethnographer) جناب فخرالدین اَخونزادہ (ایکزیکٹِو ڈائریکٹرFLI) کی ’چترال کی زبانیں: ماضی، حال، مستقبل‘ ہے جو ہمارے محقق دوست ڈاکٹر تاج الدین تاجور ؔ (مقیم پشاور) کے توسط سے کچھ عرصہ قبل موصول ہوئی۔ کھوار بولنے والے اِس محقق کی لسانی تحقیق یقیناً اس جہت میں بہت بڑا کارنامہ ہے، بلکہ اِسے ’لسانیاتِ چترال‘ کا اوّلین باب قراردیا جاسکتا ہے۔ (موصوف اردو، انگریزی، پشتو اور

 مقامی زبان پالُولا سے بھی واقف ہیں)۔ یہ موضوع اپنی جگہ بہت وسیع اور وقیع ہے، لہٰذا کوشش کروں گا کہ زباں فہمی میں اتنا مواد سمو سکوں کہ اہل ذوق کم وقت میں زیادہ سے زیادہ استفادہ کرسکیں۔ (یہ نام اخوند زادہ ہے جسے روانی میں اخونزادہ کہا اور لکھا جانے لگا ہے: بحوالہ ڈاکٹر تاج الدین تاجور ؔ)۔ اس مضمون کے لکھنے کا محرّک یہی کتاب ہے جس کے بعض مندرجات کے ساتھ ساتھ کچھ مزید تحقیق کی سعی کرکے اوّلین قسط پیش کرسکا ہوں۔ باقی آیندہ۔ (جاری)

Load Next Story