ٹرانس فیٹس کا خاموش زہر کیسے پاکستانیوں کی زندگیاں نگل رہا ہے؟
دور جدید میں زندگی تیزی سے بدل رہی ہے۔انسان کی زندگی میں بھی چیزوں کے معیارات بدل رہے ہیں۔ ان تبدیلیوں نے انسانی صحت اور زندگی پہ برے اثرات مرتب کئے ہیں۔لوگ مختلف جسمانی بیماریوں کا شکار ہیں اور گزشتہ صدی کی نسبت کوالٹی آف لائف بھی متاثر ہوئی ہے۔
اوسط عمر جو پچھلی صدی میں قریباً اسی سے نوے کے درمیان ہوا کرتی تھی اب بمشکل پینسٹھ تک پہنچ پاتی ہے ۔ہمارے روزمرہ کے کھانے پینے کی اشیاء میں گراوٹ ا س کی بڑی وجوہات میں سے ایک ہے۔ اس کے نقصانات بھی وقتی نہیں ہیں بلکہ یہ نہ صرف انسان پر بلکہ اس کی آنے والی نسلوں پر بھی اثرانداز ہوتے ہیں۔سائنسی تحقیقات یہ کہتی ہیں کہ ہم جو کچھ بھی کھاتے ہیں وہ ہمارے جسموں یہاں تک کہ ہماری سوچ کو بھی متاثر کرتا ہے۔
اسی لئے کچھ مخصوص گروہ جو خاص روحانی یا عملیات سے وابستہ ہوتے ہیں وہ اپنی مخصوص غذائیں ہی استعمال کرتے ہیں۔ اگر آپ جم جائیں اور آپ کا مقصد وزن کم کرنا یا مسلز بنانا ہو تو آپ کو ایک خاص طرح کا ڈائیٹ چارٹ فالو کرنا ہوتا ہے۔ یہ اس بات کی تائید کرتا ہے کہ خوراک کا استعمال ہماری زندگیوں کو بدلنے میں کس قدر اہم کردار ادا کرتا ہے۔اسی لئے جب ہم خوراک یا دیگر استعمال کی اشیاء کی بات کرتے ہیں تو ہمارے ذہن میں اس کو لے کر معیار کا تصور ابھرتا ہے۔
معیار کیا ہوتا ہے اور اس کو طے کیسے کیا جاتا ہے؟: بنیادی ضروریات زندگی سے متعلقہ معاملات ہوں یا خواہشات کے حصول کا معاملہ انسان اعلی سے اعلٰی معیار کا خواہاں ہوتا ہے۔معیارات کو طے کرنے کے لئے دنیا بھر میں سپیشلائز ادارے موجود ہوتے ہیں جو اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ خام مال سے لے فائنل پروڈکٹ کی صورت میں عوام تک جو بھی پہنچے وہ بہترین کوالٹی کی صورت میں پہنچے اور اگر معیار میں کوئی گراوٹ ہو تو اس کے لئے جرح بھی کی جاسکتی ہے۔
یہاں تک کہ یہ موضوع اس قدر اہمیت کا حامل ہے کہ عالمی سطح پر اس کی مناسبت سے ہر برس 14اکتوبر کو عالمی معیار کا دن منایا جاتا ہے۔معیارات طے کرنے کے لئے ماہرین کی ٹیمیں موجود ہوتی ہیںجو ایس او پیز (سٹیڈرڈ آپریٹنگ پروسیجرز) تشکیل دیتی ہیں۔ حکومتیں بلواسطہ اور بلا واسطہ اس عمل میں شرکت کرتی ہیں تاکہ عوام تک نہ پہنچنے والی اشیاء کا معیار بلند رہے۔
معیار کیوں ضروری ہے؟: معیار اگر خراب ہو جائے تو یہ افراد کے لئے ایک وبال بن جاتا ہے اور اس کے نتائج بھیانک ہوتے ہیں۔ اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ معیار کیوں گر جاتا ہے؟یہ جاننے کے لئے پہلے اس بات کا ادراک ہونا چاہیئے کہ معیار ضروری کیوں ہے۔ بیدار معاشروں میں معیارِ زندگی کو لے کر عوامی اور حکومتی سطح پر بحث جاری رہتی ہے۔
جیسے مغرب میں جنک فوڈ کے ٹرینڈ نے جب لوگوں کی صحت کو متاثر کیا اور وہاں موٹاپے اور دیگر بیماریوں کی شرح بڑھے لگی تو وہاں پر کمیونٹی لیول پر صحت مند خوراک اور اورگینک خوراک کا تصور سامنے آیا۔ ڈبلیو ای ایچ او کے مطابق پاکستان میں اس وقت شرح اموات کی سب سے بڑی وجہ ہارٹ اٹیک ہے۔ ہارٹ اٹیک کی وجوہات میں ذیابیطس، ہائی بلڈ پریشر،ذہنی تناؤ اور تساہل پسندانہ طرز زندگی کے ساتھ ساتھ ہائی کولیسٹرول اور موٹاپا بھی شامل ہے۔
اب کولیسٹرول کے لیول کو متاثر کرنے والے عناصر میں ہمارے کھانے اور ان کا معیار جس میں ٹرانس فیٹس قابل ذکر ہیں، کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ دراصل جب منڈی میںموجودہ اشیاء کو لے کر خریداروںا ور تاجروں میں حساسیت نہیں رہتی تو اشیاء کا معیار تیزی سے تنزلی کا سفر طے کرتا ہے۔اور اس ضمن میں جب حکومتیں اپنا موثر کردار ادا کرنے میں ناکام ہو جاتی ہیں تو چور بازاری عام ہوجاتی ہے۔ عوام بھی اگر اپنی روزمرہ کی اشیاء ضرورت کو لے کر حساسیت اور سنجیدگی کا مظاہرہ کریں تو ہی ادارے حرکت میں آتے ہیں۔ عموماً چیزوں کو لے کر آگاہی اور گرفت دو اہم عناصر ناگزیر ہیں۔ اگر دونوں کا توازن بگڑے گا تو اس کا منفی پہلو لوگوں کی زندگیوں کو متاثر کرے گا۔
آئی ٹی ایف ایز کیا ہیں؟: ٹرانس فیٹس یا ٹرانس فیٹی ایسڈ ، غیر سیر شدہ (UnSaturated)چربی والے ایسڈز، مضرِ صحت چکنائی ہوتی ہے جو صنعتی یا قدرتی ذرائع سے حاصل ہوتے ہیں۔یہ عموماً پیک شدہ اشیاء میں پائے جاتے ہیں۔ دراصل سبزیوں کے تیل میں ہائیڈروجن گیس کو تیاری میں استعمال کیا جاتا ہے جو نارمل روم ٹیمپریچر میں ٹھوس شکل اختیار کر لیتی ہے اور گھی کی صورت جم جاتا ہے۔ یہ ٹرانس فیٹی ایسڈز بازار سے ملنے والی پیک شدہ اشیاء گھی ، مکھن، مارجرین، بیکری کی بنی اشیاء کیک پیسٹری، پیزا، برگر، بسکٹس، سموسے پکوڑے، چیپس اور دیگر بازاری اشیاء میں کثرت سے پائے جاتے ہیں۔
عالمی سطح پر ہر سال 278000سے زیادہ اموات کی وجہ صنعتی طور پر پیدا ہونے والی چربی کی مقدار کو قرار دیا جاتا ہے۔ یہ ٹرانس فیٹس شریانوں کو بند کردیتے ہیں جس سے دل کو خون کی سپلائی میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے اور ہارٹ اٹیک کے ذریعے اموات کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ ڈبلیو ایچ او کی جاری کردہ ہدایات کے مطابق ہارٹ اٹیک اور دیگر بیماریوں سے بچاؤ کے لئے صنعتی طور پر تیار کئے جانے والے ٹرانس فیٹس کو ختم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ سن 2021میں پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسسز کے چیئر مین نے ورلڈ ہارٹ ڈے کے موقع پر ایک بیان میں کہا کہ پاکستان میں ہر گھنٹے میں تقریباً 47 لوگ ہارٹ اٹیک کی وجہ سے جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔دل کی بیماریاں دنیا بھر میں موت کی سب سے بڑی وجہ ہیں ۔
دراصل اس موضوع نے اس وقت توجہ حاصل کی جب عالمی ادارہ صحت (WHO) کی ایک رپورٹ میں پاکستان کو ان نو ممالک کی فہرست میں شمار کیا گیا جہاںٹرانس فیٹس کے استعمال سے پیدا ہونے والی دل کی بیماریوںسے سب سے زیادہ اموات ہوتی ہیں۔ ان ممالک کی فہرست میں آسٹریلیا، آذربائیجان، بھوٹان، ایکواڈور، مصر ، ایران ، نیپال ، پاکستان اور جنوبی کوریا شامل تھے۔
پاکستان میںکھانوں اور اشیاء کے معیارات کو چیک کرنے والے ادارے کونسے ہیں؟: ہمارے ہاں ابھی تک موثر فورڈ پالیسی نہیں بن سکی جس کی بڑی وجہ حکمران طبقے کی صحت کے شعبے میں عدم دلچسپی معلوم ہوتی ہے۔چاہے وہ سستی گندم کی فراہمی ہو یا ملاوٹ سے پاک دودھ کی دستیابی، عوام کو کم ہی اس کے حقیقی فوائد مل پاتے ہیں۔حکومتی سطح پر شاید اس بات کا ادراک ہی نہیں ہو پاتا کہ صحت کے شعبے میں بیماریوں کے علاج پر آنے والے خرچ کی لاگت بیماریوں کے تدارک کے لئے اٹھائے جانے والے اقدامات کی نسبت ہزار درجہ کم آتی ہے۔
حال ہی میں پنجاب حکومت نے پلاسٹک بیگز کو ختم کرنے کے لئے آگاہی مہم شروع کی ہے جو خوش آئند ہے لیکن صرف اشتہاروں سے عوامی سطح پر شعور بیدار کرنا آٹے میں نمک کے متبادل ہے۔اس ضمن میں باقاعدہ کیمپینز کی ضرورت ہے خاص طور پر وہ ادارے جو اس حوالے سے سٹیک ہولڈرز ہیں ان سے اشتراک ناگزیر ہے۔ اور چلیں مان لیتے ہیں کہ پلاسٹک بیگز کو بین کیا جائے گا مگر تاحال اس کے متبادل ذرائع پر بات نہیںکی جا رہی۔ عوامی سطح پر جب بھی کسی مقصد کے لئے کوئی بین لگایا جاتا ہے تو اس میں سب سے اہم چیز اس کے متبادل کے حوالے سے آگاہی پیدا کرنا ہوتی ہے۔
تاکہ لوگوں کو انتخاب میں سہولت ہو۔ پاکستان میں اس وقت قومی اور صوبائی سطح پر معیارات کو بہتر بنا نے اور چیک اینڈ بیلنس کے لئے کچھ ادارے کام کر رہے ہیں جن میں پی ایس کیو آر سی وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے تحت کام کرنے والا ادارہ ہے جو پاکستان اسٹینڈرڈز اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی (PSQCA) کے نام سے جانا جاتا ہے اور پاکستان میں معیارات کو طے کرنے کے حوالے سے سرگرم ہے۔ یہ کنفرمٹی اسسمنٹ اور اسٹینڈرڈز کی تشکیل و فروغ کے ساتھ پروڈکٹس کے لئے بین الاقوامی معیارات متعین کرتا ہے ۔ اسی طرح ہر صوبے میں فورڈ اتھارٹیز قائم کی گئی ہیں جو کھانے پینے کی مصنوعات کا معیار چیک کرتی ہیں اور اگر معیار میں گراوٹ ہو تو وہ ریستوران یا فورڈ پوائنٹ کو سیل کرنے کا اختیار بھی رکھتی ہیں۔ خاص طور پر ہوٹلوں میں استعمال ہونے والے گھی اور تیل کو چیک کیا جاتا ہے جس میں بار بار چیزوں کو تلا جاتا ہے ۔
بار بار استعمال ہونے والے تیل میں ٹرانس فیٹس پیدا ہوتے ہیں جو صحت کے لئے مضر ہوتے ہیں۔ بین الاقوامی معیار کے مطابق اشیاء میں موجود آئی ٹی ایف ایز کے لئے ہر 100گرام میں 2%کی مقدار طے کی گئی ہے۔ اگر کسی بھی چیز میں اس سے زیادہ مقدار میں موجود ہوں گے تو وہ صحت کے لئے سنگین خطرہ بن سکتے ہیں۔دنیا میں اس وقت آئی ٹی ایف ایز کو کسی حد تک کنٹرول کیا جاچکا ہے۔ لیکن پاکستان میں ابھی یہ موضوع ذیادہ توجہ حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے ۔
کچھ ایسے ادارے ہیں جو آئی ٹی ایف ایز کو لے کر آگاہی پھیلانے میں اپنا کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں جن میں سینٹر فار پیس اینڈ ڈویلپمنٹ اینڈ انیشیٹو پاکستان کا کردار قابل ذکر ہے۔یہ ادارہ وزارت صحت ، فورڈ اتھارٹیز اور صحت کے حوالے سے کام کرنے والے دیگر اداروں کے ساتھ مل کر ٹرانس فیسٹس پر آگاہی مہم کے ساتھ ساتھ پالیسی میکنگ میں بھی کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔ ٹرانس فیٹس کو ختم کرنا ایک پیچیدہ لیکن ناممکن امر نہیں ہے۔یہاں عام صارف کے ذہن میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ ٹرانس فیٹس سے وہ کیسے خود کو محفوظ رکھ سکتا ہے تو اس کے لئے چند اصول ہیں جیسے جہاں تک ممکن ہو گھر کا کھانا اور گھر کی بنی اشیاء کا استعمال کریں۔باہر کے کھانے سے پرہیز کریں۔
اپنے مہینے کی گروسری کرتے ہوئے معیاری اشیاء کو ترجیح دیں ، خصوصاً گھی کا استعمال کم مگر سوچ سمجھ کر کریں گھی کے معیار کے لئے آئل پر پی ایس کیو سی اے کی مہر ضرور چیک کریں کیونکہ سب سٹینڈرڈ گھی یا تیل کو یہ ادارہ کوالٹی کی سند سے محروم رکھتا ہے۔ چیزوں کے پیچھے عموماً ایک نیوٹیشن انفارمیشن چاٹ بنا ہوتا ہے جس میں کیلوریز اور کوانٹٹی درج ہوتی ہے۔ وہاں اگر ٹرانس فیٹس یا سیچوریٹیڈ فیٹس کی مقدار زیادہ آرہی ہے تو اسے خریدنے سے گریز کریں۔
ہوسکتا ہے کچھ چیزیں آپ کو ذائقے میں بہت متاثر کریں لیکن وہ آپ کی صحت کے لئے حد درجہ نقصان دہ ثابت ہوں۔ حکومتی سطح پر بھی خالص خوراک اور اشیاء کے استعمال کی ترویج دینا ضروری ہے اور مارکیٹ سے ایسے تمام وینڈرز کا صفایا کرنا ناگزیر ہے جو غیر معیاری تیل اور مصنوعات فروحت کر رہے ہیں۔ حکومت لوگوں کو متبادل کے طور پر ڈیری فارمز بنانے کے لئے آسان شرائط پر قرضے فراہم کر سکتی ہے اور ایسی سکیموں کو متعارف کرواسکتی ہے جو خالص گھی اور دیگر مصنوعات کے فروغ کا باعث بنے۔ جس سے ناصرف لوگوں کو بہتر معاشی سرگرمیوں کے مواقع ملیں گے بلکہ لائیو سٹاک مارکیٹ میں بھی بہتر ی آئے گی۔
اگر عوامی شعور اور آگاہی کے ساتھ حکومتی پالیسیاں سخت رہیں تو وہ وقت دور نہیں جب ٹرانس فیٹی ایسڈز قصہ پارینہ بن جائیں گے۔