لاہور میں اسموگ نے اپنے پنجے گاڑ رکھے ہیں اور دنیا کے تین آلودہ ترین شہروں میں لاہور پہلے نمبر پر ہے۔ ایئرکوالٹی انڈیکس ایک ہزار سے بڑھ گیا،لاہور کے بعد فضائی آلودگی انڈکس میں اضافے نے راولپنڈی اور اسلام آباد میں بھی خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے، دوسری جانب بھارت میں جلائی گئی فصلوں کی باقیات اور کچرے کا دھواں بھی لاہور پہنچ گیا ہے۔
ایسا پہلی بار نہیں ہوا ہے، لاہور سمیت دیگر چھوٹے، بڑے شہر ہر برس ایسی صورتحال کا سامنا کرتے ہیں، ایک دہائی سے زائد عرصہ بیت چکا ہے۔ اس ضمن میں پنجاب اور وفاق کی حکومتیں بلند بانگ دعوے کرتی نظر آتی ہیں، ہر سال اسموگ کے تدارک کے لیے فنڈز مختص کیے جاتے ہیں، درختوں کی اہمیت اور شجرکاری کی پر زور مہم کا آغاز ہو جاتا ہے۔
کمشنر، ڈپٹی کمشنر، وزرا اور مختلف محکموں کے سربراہان سے نمائشی پودے لگوا کر میڈیا میں اس کی خوب تشہیر کے ذریعے اس کو شجرکاری مہم کا نام دے دیا جاتا ہے، جس کا مقصد شجرکاری کو تحریک کی شکل دینا نہیں بلکہ وزیروں مشیروں کی تشہیر ہوتا ہے، ورنہ اگر ہر سال موسم برسات میں بڑی سیاسی شخصیات اور ضلع افسران کی طرف سے لگائے گئے پودوں کی تفصیل اکٹھی کی جائے تو ملک کا ہر شہر ’’ باغ جناح‘‘ یا ’’شالیمار باغ‘‘ کا منظر پیش کرے، جس میں مزید درخت لگانے کی جگہ ہی نہ ملے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ملک کے ہر ضلع و شہر میں شجر کاری کے لیے باقاعدہ ادارے موجود ہیں، جنھیں باغ بانی اور شجر کاری کے لیے اچھی خاصی رقوم فراہم کی جاتی ہیں۔
اس کے باوجود اگر شہروں میں درخت نظر نہیں آتے اور اگر لگائے بھی جاتے ہیں تو وہ نمائشی قسم کے درختوں پر مشتمل ہوتے ہیں یہ سب دیکھ کر ذہنوں میں سوال ضرور اٹھتا ہے کہ شجر کاری کے لیے سرکار کی طرف سے سالانہ فراہم کیا جانے والا پیسہ کہاں خرچ ہو رہا ہے؟ یہی حال عوام کا ہے۔ نئے گھر تعمیرکریں گے، ہاؤسنگ سوسائیٹیوں میں بنگلے کھڑے کرنے کے بعد نمائشی پودے ضرور لگائیں گے لیکن ایسے مقامی درخت لگانے سے گریزکریں گے جو گرمی کی شدت میں کمی کے علاوہ موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرسکیں کیونکہ کروڑوں روپے کی لاگت سے تعمیر ہونے والا بنگلہ تناور درختوں میں چھپ کر بنگلے کے مالکان کی شان کو ڈھانپ دیتا ہے۔
قوانین ملک کے تمام اضلاع اور میونسپل اداروں میں بھی موجود ہیں لیکن درختوں کی اہمیت باقی نہ رہنے کی وجہ سے اس پر عملدرآمد کا تصور ہی ختم ہو چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دریاؤں، نہروں، ندی نالوں اور اضلاع و صوبوں کو ملانے والی بڑی شاہراہوں پر لگے لاکھوں کروڑوں درخت کاٹ لیے گئے اورکسی نے اس کی پرواہ بھی نہیں کی۔ 2010میں پاکستان شدید بارشوں اور سیلاب کی گھمبیر صورت حال سے دوچار ہوا تو پاکستان میں نقصانات کا جائزہ لینے کے لیے آنے والے اقوام متحدہ کے خصوصی وفد میں شامل بدلتے موسموں پر نظر رکھنے والے ماہرین کے نمایندوں نے بتایا کہ پاکستان ان دس ممالک کی فہرست میں شامل ہے جو مستقبل میں موسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہونگے۔
غیر معمولی بے موسمی بارشوں کے علاوہ گرمیوں میں درجہ حرارت بڑھنے سے انسانی آبادیوں کے ساتھ ساتھ نباتات اور لائیو اسٹاک پر بھی اس کے منفی اثرات پڑ سکتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک میں عوام الناس اور حکومتوں کی سطح پر مسئلے کی سنگینی کو سمجھنے کے باوجود اس کے حل کی طرف توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ کراچی جیسے شہر میں جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں، ان میں پلاسٹک سے بنی اشیا اور تھیلیاں وٖغیرہ بڑی مقدار میں شامل ہوتی ہیں۔ صفائی کے ناقص انتظامات کی وجہ سے کچرے کے ڈھیرکو آگ لگا دی جاتی ہے، جس سے پورے علاقے کی فضا کثیف دھویں سے آلودہ ہوجاتی ہے۔
دیہی علاقوں میں اینٹیں بنانے والے بھٹے، فیکٹریوں اور ملوں کی چمنیاں بھی کثیر مقدار میں دھواں پھیلاتی ہیں، جو ماحول کو آلودہ اور خطرناک شکل اختیار کرنے میں معاون ہوتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک نے اسموگ میں کمی کے لیے قوانین بنا رکھے ہیں، جو فیکٹریوں میں خطرناک اور بے وقت دھویں کے اخراج پر پابندی لگاتے ہیں۔ کچھ جگہوں پر فاضل مواد جیسا کہ پتے ضایع کرنے کے لیے مخصوص جگہیں بنائی گئی ہیں، جہاں دھواں ہوا میں شامل ہوکر خارج ہو جاتا ہے۔
ہمارے خطے میں گرمی ماضی کے اس دور میں بھی اپنے پورے جوبن کے ساتھ جلوہ گر ہوا کرتی تھی جس کا توڑ ارجن، برگد، پلکن، نیم، شیشم اور پیپل،جیسے دیو قامت درختوں کی چھاؤں سے کیا جاتا تھا۔
انگریز اپنے دور حکومت میں اگر چاہتے تو برطانیہ سے غیر سایہ دار درخت لاکر یہاں ان کی شجرکاری کر سکتے تھے لیکن انھوں نے بھی یہاں کے موسموں کو دیکھتے ہوئے مقامی درختوں کو فوقیت دی۔ پاکستان کے اندر جہاں بھی پرانی چھاؤنیاں ہیں وہاں آج ہر طرف مقامی درختوں کے جھنڈ دیکھے جاسکتے ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد بھی شجرکاری کے حوالے سے مقامی درختوں کو ہی اہمیت دی گئی۔ پرانے درختوں کی حفاظت کی گئی اور ان میں ہر گزرتے موسم کے ساتھ اضافے کا سلسلہ بھی جاری رکھا گیا بلکہ آج بھی کنٹونمنٹس کے دائرہ اختیار میں درختوں کو نمبر لگا کر دفتر میں ان کا ریکارڈ رکھا جاتا ہے اور درخت کاٹنا جرم تصور ہوتا ہے۔
فضائی آلودگی پاکستان میں صحت کے لیے دوسرا سب سے اہم خطرہ ہے، تاہم بنیادی طور پر دل کی بیماریاں سب سے زیادہ خطرے کی علامت ہیں۔ آلودگی میں اضافے سے دماغی صحت کے کئی امراض بھی لاحق ہوسکتے ہیں جن میں انزائٹی اور ڈپریشن شامل ہیں۔ پاکستان کی چوبیس کروڑ سے زائد آبادی ان خطوں میں مقیم ہے جہاں فضائی آلودگی کی سالانہ اوسط عالمی ادارہ صحت کی مقررکردہ حد سے زیادہ ہے۔ یہ معیار تجویز کرتے ہیں کہ پارٹیکیولیٹ میٹرکی سالانہ اوسط سطح پانچ مائیکرو گرام فی کیوبک میٹر سے کم رہنی چاہیے، اس کے علاوہ چوبیس گھنٹے کی اوسط نمائش پندرہ مائیکروگرام فی کیوبک میٹر سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔
ملک کی تقریبا 98.3 فیصد آبادی ان علاقوں میں مقیم ہے جہاں سالانہ اوسطا فضائی آلودگی پاکستان کے قومی فضائی معیار اور عالمی ادارہ صحت کی جانب سے طے کردہ فضائی آلودگی کی گائیڈ لائنز سے زیادہ ہے، اگر آلودگی کی موجودہ سطح اسی طرح برقرار رہی تو پنجاب، اسلام آباد اور خیبر پختو نخوا میں رہنے والے افراد کی اوسط عمر میں تقریبا 3.7 سے 4.6 سال کی کمی واقع ہونے کا امکان ہے۔ فضائی آلودگی کسی بھی کیمیائی،جسمانی یا حیاتیاتی ایجنٹ کے ذریعے اندرونی یا بیرونی ماحول کی آلودگی ہے جو ماحول کی قدرتی خصوصیات کو تبدیل کرتی ہے۔ تشویش امر یہ ہے کہ آلودگیوں میں ذرات، کاربن مونوآکسائیڈ، اوزون، نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ اور سلفر ڈائی آکسائیڈ شامل ہیں۔
بیرونی اور اندرونی فضائی آلودگی سانس اور دیگر بیماریوں کا سبب بنتی ہے اور یہ بیماری اور اموات کے اہم ذرایع ہیں۔ پاکستانی ساحلوں میں حیران کن حد تکGreen Turtleکی شرح میں کمی آلودہ پانی کے باعث ڈولفن کی نشوونما اور آبادی میں کمی اس طرح راہب سیل اور سی سفیک لاگر ہڈ سمندری مخلوق کی آبادیوں میں بھی کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ درحقیقت آلودگی نے بڑے پیمانے پر ماحول پر کئی منفی اثرات کو پیدا کیے ہیں اور اگر قدرتی وجوہات کا مشاہدہ کیا جائے تو بحری جہازوں سے پیدا ہونے والے فضائی آلودگی بادلوں کو تبدیل کرتی ہے، جس سے عالمی سطح پر درجہ حرارت میں اضافہ ہوا ہے، جس کی وجہ سے ہی بے موسمی بارشیں اور موسم کی اچانک تبدیلی نے کئی طرح کے مسائل کو جنم دیا ہے۔
ماحولیاتی آلودگی کے منفی اثرات سے بچانے کے لیے دنیا بھر میں بہت سے اقدام نے مختلف قسم کی آلودگی کو کنٹرول کرنے کے ساتھ ساتھ آلودگی کے منفی اثرات کو کم کرنے کے لیے قانون سازی کی ہے۔ عالمی سطح پر نئی ماحولیاتی ایجنسیاں بڑا فعال کردار ادا کر رہی ہیں۔ 1987 میں اوزون ختم کرنے والے کیمیکل پر پابندی عائد کی گئی۔ اس کے کچھ خاطر خواہ نتائج بھی حاصل ہوئے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فضائی آلودگی کو کم کرنے کے لیے علاقائی یا ملکی سطح پر وہ کون سے طریقہ کار ہیں جن کو اپنا کر فضائی آلودگی کے خاتمے کے لیے مناسب سدباب تلاش کیا جائے۔
توانائی کی بچت کو ممکن بنائیے، پرانے درخت زیادہ مقدار میں آکسیجن کے حصول کا ذرایع ہیں، یہ نہ صرف ہماری سانس کے لیے آکسیجن کا باعث ہیں بلکہ ماحول سے بھی کئی طرح کے مضر اثرات کو زائل کرنے پر مامور ہیں۔ لہٰذا ان کی کٹائی سے ہر ممکن حد تک اجتناب کیا جائے۔ گرین پاکستان کے حصول کو ممکن بنایا جائے۔ اب تک کی کوتاہیوں کا ذمے دار پورا معاشرہ ہے لیکن اب وقت آگیا ہے کہ بدلتے موسموں کے اثرات سے عوام کو محفوظ رکھنے کے لیے شجر کاری کے نام پر ہر سال جاری مذاق بند کیا جائے اور شجر کاری کو ملک و قوم کی اہم ضرورت قرار دے کر سنجیدگی کے ساتھ ہنگامی بنیادوں پر حقیقی شجر کاری کی طرف توجہ دی جائے جو دکھائی بھی دے۔